تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     17-10-2025

غذائی دہشت گرد

افغان جہاد اور ''ڈو مور‘‘ کے انڈے بچے نسل در نسل نکلتے چلے آرہے ہیں۔ مصیبت زدہ اور مہاجر بن کر مملکتِ خداداد میں پناہ گزین ہونے والوں کی کئی نسلیں جہاں پروان چڑھ چکی ہیں وہاں داخلی انتشار سے لے کر ناجائز منافع خوری اور معاشی اجارہ داری جیسے عذابوں سمیت کیسے کیسے چیلنجز بھگتتے نصف صدی ہونے کو آئی ہے۔ کہیں مصلحتیں تو کہیں مجبوریاں اور ضرورتیں‘ کبھی طولِ اقتدار تو کبھی استحکامِ اقتدار جیسی خواہشات ان سبھی بدعتوں کو دوام بخشتی رہی ہیں۔ بالخصوص منشیات‘ اسلحہ اور دہشت گردی جیسے ناسور ماضی کے سبھی فیصلوں کی پیداوار رہے ہیں۔ افغان مہاجرین جوں جوں مہاجر کیمپوں سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں آزادانہ بستے چلے گئے توں توں ان کے مہلک اثرات ہماری معاشرتی اقدار سے لے کر اخلاقیات اور معاشیات کو گھن کی طرح کھاتے چلے گئے۔ گلی محلوں میں منشیات فروشی و اسلحہ اس طرح متعارف کرایا گیا کہ اس کے اثراتِ بد ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایسا کلچر پروان چڑھتا چلا گیا جس نے ہماری کئی نسلیں جواں عمری میں ہی رزقِ خاک بنا ڈالیں۔ جہاں ضیا الحق دور میں افغان مہاجرین کی آباد کاری اور ٹھیکے کے جہاد کو طولِ اقتدار کیلئے استعمال کیا گیا‘ وہاں بعد ازاں آنے والے حکمرانوں نے بھی ان کو نہ صرف گلے سے لگائے رکھا بلکہ ان کی آبیاری سے لے کر سبھی قابلِ اعتراض سرگرمیوں سے چشم پوشی برابر جاری رکھی۔ پرویز مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر ''ڈو مور‘‘ کو نصب العین بنائے رکھا اور چھوٹی بڑی امریکی خواہشات سے لے کر سخت احکامات اور کڑی آزمائشوں پر بھی پورے اترتے رہے۔ ماضی کے ان فیصلوں کی کاشت نے وہ فصل تیار کر ڈالی جس کی کٹائی کرتے کرتے ہماری نسلیں کٹتی اور مرتی چلی جا رہی ہیں لیکن یہ فصل ہے کہ کاٹے بھی ختم نہیں ہو رہی۔ بارود اور خون کی بو آج بھی ملک کے طول و عرض کی فضاؤں میں رچی بسی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ افغان بارڈر سے لے کر مملکتِ خداداد کے مخصوص علاقوں میں تخریبی کارروائیوں کے تانے بانے افغانستان سے بھی ملتے رہے ہیں۔
کبھی بھارت سے پیار کی پینگیں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں میں معاون اور مددگار بنے رہنے کی ضد افغان پالیسی کا خاصہ رہی تو کہیں ان کی مسلح کارروائیاں کئی دہائیوں سے جاری ہیں۔ ہمارے ایثار اور قربانیوں کے بدلے انتشار اور بدامنی کے ساتھ ساتھ غداری کو ہی وتیرہ بنائے رکھا۔ ہماری معاملہ فہمی اور صلح جوئی کو کمزوری سمجھنے والا افغانستان اس بار مغالطے میں مارا گیا۔ کئی دنوں سے جاری چھیڑ چھاڑ پر بھرپور جواب ملنے کے باوجود شر انگیزی برابر جاری تھی۔ پاک فوج کی جوابی کارروائی میں فتنہ الخوارج کی قیادت اور مرکز کی تباہی کے بعد کابل پر جوابی حملہ ہوتے ہی ترلوں اور جنگ بندی کی درخواست پر اُتر آئے۔ افغان جارحیت پر پاک فوج کی پالیسی دوٹوک اور واضح ہے۔ ضروری ہے کہ ماضی کے آمر حکمرانوں سمیت سبھی ادوار میں افغان پالیسی پر جو رعایتیں‘ کوتاہیاں اور چشم پوشی برتی گئی‘ ان سبھی پر نظرثانی کر کے اصولی مؤقف اپنایا جائے۔ 45 برس سے کہیں ناسور تو کہیں وبال بنے افغان ہمسائیگی کی سبھی رعایتوں کو ہلکا لیتے اور ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے ہیں‘ اس بار پہلی مرتبہ انہیں جارحیت کا منہ توڑ جواب ملا ہے۔ امید تو ہرگز نہیں کہ افغانستان آئندہ باز رہے گا‘ باز نہ آنے کی صورت میں منہ توڑ جواب کے بجائے کمر توڑ جواب تو بنتا ہے۔ یہ باور کرانا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے کہ دنیا کی چوتھی بڑی‘ بھارتی فوج کو دھول چٹانے والی پاک فوج سے متعلق غلط گمان کی غلطی کو سدھارنا ہی افغانستان کے بہترین مفاد میں ہے۔ بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں اور شر انگیزی کرنے والے خاطر جمع رکھیں کہ ہر بار ہمسائیگی کے تقاضے پورے نہ کرنے کی قیمت پاکستان نہیں چکا سکتا۔
ان کھلے دہشت گردوں کے بارے میں تو اخبارات کی سرخیاں‘ ٹاک شوز اور نیوز بلیٹن برابر اَپ ڈیٹ کر رہے ہیں مگر دہشت گردی کے کچھ روپ بہروپ ایسے بھی ہیں جن پر چڑھی نقابیں اُتارنا نسلوں پر احسان سے کم نہیں۔ کیسے کیسے لبادے اوڑھے غذائی دہشت گرد شیر خوار بچوں سے لے کر عمر رسیدہ بوڑھوں تک سبھی کو کس مہارت سے نشانے پر لیے ہوئے ہیں۔ ناقص خوراک سے متعلق جاری کردہ اعداد و شمار تو حواس ہی گم کیے دے رہے ہیں۔ ذرا ملاحظہ تو فرمائیے سالِ رواں صرف پنجاب میں 10لاکھ 21ہزار 638فوڈ پوائنٹس کی چیکنگ کی گئی اور بے ضابطگیوں کے مرتکب 97ہزار 608فوڈ پوائنٹس کو ایک ارب 30کروڑ 60لاکھ کے جرمانے کیے گئے۔ فوڈ قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں پر ایک ہزار 809مقدمات درج کرنے کے علاوہ تین ہزار 91 پوائنٹس کو سربمہر کیا گیا۔ پنجاب بھر میں دودھ کے نام پر انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف 767مقدمات درج کرکے 20لاکھ 51ہزار لٹر سے زائد مضرِ صحت دودھ تلف کیا گیا۔ پنجاب بھر میں جعلی دودھ بنانے والے 10بڑے نیٹ ورک پکڑے گئے جبکہ 100سے زائد کنٹینرز بھی ضبط کیے گئے۔ اسی طرح ڈبہ بند دودھ تیار کرنے والی کمپنیوں کے 59نمونے لیبارٹری بھجوائے گئے جن میں سے دوکی فیکٹریاں سربمہر کر کے ان کے خلاف مقدمات درج ہوئے جبکہ 18نمونے مطلوبہ غذائیت کی کمی پر فیل کر دیے گئے اور دو نمونوں میں ممنوعہ اجزا کی ملاوٹ بھی ثابت ہوئی۔ اسی طرح 378 مقدمات درج کر کے 245 گوشت کے پوائنٹس سربمہر کیے گئے جبکہ آٹھ لاکھ 87 ہزار 700 کلو سے زائد مضر صحت ناقص گوشت تلف کیا گیا۔ ملکی و غیرملکی معروف فوڈ چینز کی فیکٹریوں کی چیکنگ کے دوران 23فیکٹریاں بند کر کے 83ہزار کلو فروزن میٹ‘ 81ہزار 200لٹر کوکنگ آئل‘ 30ہزار 150کلو اچار‘ 15ہزار کلو مختلف چٹنیاں‘ 14ہزار کلو بسکٹ اور 44ہزار 700کلو تیار شدہ خوراک تلف کر دی گئی۔ سکول نیوٹریشن پروگرام کے تحت 40پرائمری سکولوں کے 10ہزار بچوں میں سے 40فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار نکلے جبکہ بالحاظ عمر 30فیصد بچوں کا قد کم اور تقریباً 10فیصد بچوں کا وزن زیادہ ہے۔
گلی محلوں کی دکانوں سے لے کر بڑے ڈپارٹمینٹل سٹوروں‘ ریستورانوں اور بڑی فوڈ چینز میں غیرمعیاری اور مضرِ صحت اشیائے خور و نوش کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔ ذائقے اور غذائیت کے لیے خریداری کرنے والوں کو کیا معلوم کہ وہ منہ مانگی قیمت ادا کر کے اپنے لیے وہ زہر خرید رہے ہیں جو لمحہ لمحہ‘ دھیرے دھیرے‘ ریزہ ریزہ‘ قطرہ قطرہ بیماری اور ہلاکت سے دوچار کرنے کا باعث ہے۔ سفاکی‘ بے شرمی اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ اکثر مضرِ صحت اور جعلی دودھ فروشوں نے اپنی دکانوں کے نام متبرک اور مقدس اسمائے مبارکہ پر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ چھپے غذائی دہشت گرد چہروں پر شرافت اور امارت کے لبادے اوڑھے شہر کے معززیں میں شمار ہوتے ہیں۔
فیلڈ مارشل نے کچھ عرصہ پہلے گورننس کے خلا پر سوال اٹھایا تھا جس طرح تباہ کن حملے کرنے والے دہشت گردوں کو عبرت سے دوچار کیا جا رہا ہے‘ اسی طرح ان غذائی دہشت گردوں کا بھی سدباب اور محاسبہ ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ پنجاب جہاں دیگر شعبوں میں کام کر رہی ہیں وہاں انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے لیے ٹوکن سزاؤں کے بجائے عبرتناک سزاؤں کی قانون سازی پر بھی توجہ فرمائیں تاکہ موجودہ اور آئندہ نسلوں کے ساتھ ساتھ مستقبل کی ماؤں کو بھی محفوظ بنایا جا سکے کیونکہ جعلسازی اور ملاوٹ سے لمبا مال بنانے والوں کیلئے جرمانے اور ٹوکن سزائیں غنیمت ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved