تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     18-10-2025

طالبان کا اسلام

افغان طالبان کا تصورِ اسلام مقامی‘ قومی اور سیکولر ہے۔ اس باب میں اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔
مقامی ہونے سے کیا مراد ہے؟ ہر سماج کی کچھ رسوم ہوتی ہیں‘ رواج ہوتے ہیں اور روایات بھی۔ ان سب کا ماخذ مقامی کلچر ہوتا ہے۔ یہ صدیوں سے رائج اور نسل در نسل منتقل ہوتا ہے۔ تمدنی تبدیلیاں اس پر اثر انداز ہوتی ہیں مگر اس کا بنیادی ڈھانچہ برقرار رہتا ہے۔ عرب‘ عجم‘ افریقہ‘ جہاں جہاں اسلام کا پیغام پہنچا‘ اس نے مقامی رنگ اختیار کیا۔ اس سے اسلام کی ایک تشریح و تعبیر سامنے آئی جس میں مقامی کلچر کی رعایت ملحوظ رکھی گئی۔ یہی حقیقت پسندانہ طریقہ ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں‘ اگر اس سے اسلام کی روح مجروح نہ ہوتی ہو۔ اس کا لحاظ رکھنا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ تعبیرِ مذہب پر مقامی روایات غالب آ جاتی ہیں۔ عرب میں بھی یہی ہوا۔ تاہم جب تک رسول اللہﷺ بنفسِ نفیس موجود رہے اور اجتماعی معاملات آپﷺ کی تربیت یافتہ جماعت کے ہاتھ میں رہے‘ یہ تطبیق مذہب کی روح پر اثر انداز نہ ہو سکی۔ ایران‘ افغانستان اور دوسرے مقامات پر یہ نہیں ہو سکا۔
افغانستان میں خواتین کے سماجی کردار کا تعین‘ مثال کے طور پر مقامی روایات کے تحت ہوا۔ اسلام کو اس سے ہم آہنگ بنا دیا گیا۔ خواتین پر تعلیم کے دروازے کا بند ہونا‘ انہیں ایک خاص لباس کی پابندی۔ یہاں تک کہ گھروں کی ساخت کو بھی اس طرح تبدیل کر دینا کہ عورت پر باہر سے کسی کی نظر نہ پڑے‘ یہ سب مقامی روایات ہیں جنہیں مذہب کا لبادہ پہنا دیا گیا۔ جرگے کا نظام بھی اسی کلچر سے پھوٹا ہے جسے اب مذہبی تقدس حاصل ہو گیا ہے۔ داڑھی بھی مقامی کلچر کا حصہ ہے۔ مذہبی طبقہ اسے دینی تقاضا سمجھ کر اپناتا ہے اور غیرمذہبی لوگ کلچر جان کر۔ اس سماج کی بُنت میں چونکہ مذہب کے تار شامل ہیں‘ اس لیے حکومت طالبان کی ہو یا کسی اور گروہ کی‘ بنیادی سماجی ڈھانچے کی ساخت ایک جیسی رہتی ہے۔
قومی سے کیا مراد ہے؟ یہ رنگ و نسل کی بنیاد پرگروہی شناخت ہے۔ یہ ایک سیاسی تصور ہے جو قبائلی معاشرت میں موجود تھا اور جدید قومی ریاست نے بھی اسے قبول کر لیا ہے۔ طالبان بھی یہی مانتے ہیں کہ قوم وطن اور رنگ و نسل سے بنتی ہے۔ اس میں بھی وہ منفرد نہیں ہیں۔ اس خطے کے سب لوگ‘ وہ مذہبی ہوں یا غیرمذہبی‘ اسی کو مانتے ہیں۔ دیگر گروہوں اور اقوام کے ساتھ ان کے تعلقات اسی قومی عصبیت پر کھڑے ہیں۔ میں یہاں غلط صحیح کی بحث نہیں اٹھا رہا۔ مطلوب یہ ہے کہ ہم جو رائے قائم کریں‘ ہماری بنیادی معلومات درست ہوں۔
سیکولر سے کیا مراد ہے؟ اس کا مطلب ہے سیاسی و اجتماعی معاملات کو غیرمذہبی بنیادوں پر حل کرنا۔ مثال کے طور پر طالبان کی حکومت پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرتے وقت یہ نہیں دیکھتی کہ ان میں سے کون سا ملک مسلمانوں کا ہے اور کون سا غیرمسلموں کا۔ کس حکمتِ عملی میں مسلمانوں کا اجتماعی مفاد ہے اور کس میں افغان قوم کا۔ طالبان حکومت یہ دیکھتی ہے کہ افغانستان کا مفاد کس پالیسی کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی اصول پر وہ پاکستان کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے بارے میں طالبان کا مؤقف وہی ہے جو کسی دوسرے افغان قوم پرست کا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ تجارت بھی وہ اسی اصول پرکرتے ہیں۔
اس پس منظر میں قومی نقطہ نظر سے یہ تصور بے معنی ہے کہ دونوں طرف مسلمان ہیں اور وہ ایک دوسرے کیساتھ کیسے متصادم ہو سکتے ہیں۔ یہ سادہ مساوات ہے کہ ایک طرف پاکستان کی قومی ریاست ہے اور دوسری طرف افغانستان کی قومی ریاست۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک طرف پاکستان ہو اور دوسری طرف بھارت۔ مذہبی حوالے سے دونوں میں امتیازی حد بندی بے معنی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ایک روحانی تعلق موجود ہے لیکن ویسا ہی تعلق طالبان کا بھارتی مسلمانوں کے ساتھ بھی ہے۔ اس میں پاکستان کا شہری ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا جو لوگ پاکستان افغانستان کشید گی کو مذہبی پیرائے میں بیان کر رہے ہیں‘ انہیں اس کو قومی ریاست کے پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کو عوامی سطح پر جو چیز الجھا رہی ہے‘ وہ ریاست کے باب میں ہمارے مبہم تصورات ہیں۔ افغان طالبان جن معاملات میں پوری طرح واضح ہیں‘ ہم نہیں ہیں۔ ہم بحیثیت قوم یہ سمجھتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کسی سیاسی وجود کا نام ہے‘ اس لیے امارتِ اسلامیہ افغانستان اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مابین تعلقات کو ہم دو بھائیوں کا اختلاف شمار کرتے ہیں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ ایسا ہی دو ریاستوں کا معاملہ ہے جیسے پاکستان اور بھارت کا ہے۔ ہم اس سے پہلے ایران کے بارے میں بھی اس مغالطے کا شکار ہو چکے ہیں۔ افغانستان میں ہم نے جو تجربہ کیا‘ اس کی ناکامی کے بعد تو ان غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جانا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے ہم نے تجربات کے باوجود نہیں سیکھا۔
وقت نے ایک دفعہ پھر ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم قومی ریاست اور تصوراتی اسلامی ریاست کے فرق کو جانیں۔ آج ہمارے تعلقات چین جیسی ایک غیرمذہبی ریاست سے اچھے ہیں اور 'امارتِ اسلامیہ‘ کے فوجیوں کو ہمارے ذرائع ابلاغ ہر روز 'واصلِ جہنم‘ کرتے ہیں۔ یہ فکری تضادات خود ساختہ ہیں۔ ہمیں ان سے نکلنا ہو گا۔ اس باب میں وہی طبقہ ہماری مدد کر سکتا ہے جنہوں نے یہ مغالطے پیدا کیے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ یہ طبقہ خود یکسو نہیں ہے۔ ہماری مذہبی جماعتیں نظری طور پر اس بیانیے کو قبول نہیں کرتیں جو افغان طالبان کے باب میں ریاست نے اختیار کیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے مذہبی جماعتیں ٹی ایل پی کے باب میں ریاست سے متفق نہیں ہیں۔
کل جب ہم نے افغانستان میں سوویت یونین کی مزاحمت کا فیصلہ کیا تو بیانیے کی سطح پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا گیا۔ ایک طبقے کے استثنا کے ساتھ عامۃ الناس کو یہ باور کرا دیا گیا تھا کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس میں شریک ہونا فرض ہے۔ آج اگر ریاست سمجھتی ہے کہ اسے ایک نئے بیانیے کی ضرورت ہے تو پھراس پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہو گا۔ میری اصولی رائے تو یہ ہے کہ بیانیے کی تشکیل ریاست کا نہیں‘ سماج کا کام ہے۔ ریاست کی ذمہ داری اس بیانیے کی روشنی میں پالیسی سازی ہے۔ تاہم چونکہ ریاست نے یہ کام بھی اپنے ذمہ لے رکھا ہے تو اب اسے ادھورا چھوڑنا زیادہ خرابی کا باعث ہو گا۔ 'پیغامِ پاکستان‘ پر جن لوگوں نے دستخط کیے ہیں‘ ریاست کو ان سے عملی کردار کا تقاضا کرنا چاہیے۔ افغان طالبان کے حوالے سے ریاست کا نقطۂ نظر کیا ہے اور اسکی دینی اساسات کیا ہیں۔ ضروری ہے کہ ان موضوعات پر عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہونے والے اشکالات کا ازالہ ہو۔
ریاست جن معاملات میں یکسو ہو رہی ہے‘ لازم ہے کہ سماج بھی یکسو ہو۔ کامیابی کیلئے دونوں کا ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ پاکستان‘ طالبان‘ مذہبی انتہا پسندی‘ احتجاج کے نام پر سماجی عدم استحکام‘ ان سب معاملات پر قومی اتفاقِ رائے لازم ہے۔ 2014ء کا نیشنل ایکشن پلان اسی مقصد کیلئے بنا تھا۔ اسکی ناکامی پر پاک فوج کے ترجمان کا اظہارِ تاسف ہم سُن چکے۔ اس منصوبے کی نئی حالات کے مطابق تشکیلِ نو ضروری ہے۔ قوم کو ایک نئے عزم کیساتھ ان امکانات کو ضائع ہونے سے بچانا ہے جو قدرت نے ہمارے لیے پیدا کر دیے ہیں۔ تجربہ یہ ہے کہ فکری پراگندگی ایک شاندار منصوبے کو بے نتیجہ بنا دیتی ہے۔ مغرب نے چند امور پر اتفاقِ رائے پیدا کیا اور پھر ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھ دی۔ ہم بھی کر سکتے ہیں اگر یکسو ہو جائیں۔ ایک بڑے عرصے کے بعد ریاست اپنی ان پالیسیو ں پر نظر ثانی کرتی دکھائی دیتی ہے جنہوں نے ہمیں سماجی عدم استحکام سے دوچار کیا۔ سماج بھی اگر اسی جگہ آ کھڑا ہو تو ہم پوری یکسوئی کیساتھ استحکام کی طرف پیش قدمی کر سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved