تحریر : ذوالفقار علی مہتو تاریخ اشاعت     18-10-2025

سونے کی دھرتی پر غربت کا پڑاؤ

ریکوڈک کاپر‘ گولڈ مائنز سے سونے اور تانبے کی پیداوار کا پہلا مرحلہ 2028ء میں اور دوسرا 2034ء میں شروع ہو گا‘ اور یہ پیداواری سلسلہ کم از کم 37سال تک برقرار رہے گا۔ دونوں مرحلوں کا اوسط سالانہ پیداواری حجم سونے کے لیے چار لاکھ اونس (موجودہ ریٹ کے لحاظ سے مالیت ایک ارب 60 کروڑ ڈالر) جبکہ تانبے کی پیداواری مالیت سالانہ تین ارب 15 کروڑ ڈالر ہو گی۔ انہی قیمتوں کو فرضی طور پر مان لیا جائے تو 37برسوں میں 116ارب 55 کروڑ ڈالر کا تانبا اور 59 ارب 20 کروڑ ڈالر کا سونا نکلے گا۔ مطلب یہ کہ 2065ء تک 176 ارب ڈالر کی پیداوار۔ ریکوڈک کے معاہدوں کے مطابق اس ریونیو کا 50 فیصد یہ مدفن خزانہ پراسیس کرکے ریفائنڈ شکل میں دنیا کی مارکیٹوں تک لے جانے والی کمپنی بیرک گولڈ کو ملے گا جبکہ باقی میں سے 25 فیصد بلوچستان اور باقی 25 فیصد میں سے 10 فیصد وفاقی حکومت اور 15 فیصد 54 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے عوض سعودی سرمایہ کار کمپنی لے گی۔
16ہزار92 مربع کلومیٹر کے جس علاقے میں یہ خزانہ دفن ہے پاکستان کے جغرافیہ میں اسے بلوچستان کے ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی کہتے ہیں۔ پورے ملک میں یہ تحصیل بکھری ہوئی انسانی آبادی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے‘ یعنی وہاں فی مربع کلومیٹر میں صرف 1.9 انسان بستے ہیں (ملک کی اوسط شرح 331 افراد ہے)۔ تحصیل نوکنڈی محتاط اندازے کے مطابق جون 2025ء میں 17 ہزار 410 افراد پرمشتمل ہے اور معیارِ زندگی یہ کہ اس جدید دور میں بھی پتھر کے زمانے کی طرح 15.3 فیصد گھرانوں میں ٹائلٹ جیسی بنیادی ضرورت کا وجود ہی نہیں (اس کی وجہ لاعلمی نہیں‘ شدید غربت ہے ورنہ باقی گھرانوں کی طرح ان میں بھی یہ سہولت ہوتی)۔ تحصیل نوکنڈی کا ضلع چاغی‘ جسے پاکستان ایٹمی دھماکوں کی میزبان سرزمین کے طور پر کبھی نہیں بھول سکتا ‘میں شرح خواندگی 36.9 فیصد ہے۔ غربت کے لحاظ سے ضلع چاغی کے مصدقہ اعداد وشمار تو فی الحال دستیاب نہیں لیکن اس کے ہمسایہ اضلاع خاران اور واشک میں غربت کی شرح 62 سے 71 فیصد اور ضلع نوشکی میں 52 سے 61 فیصد ہے (یہ چاروں اضلاع رخشان ڈویژن پر مشتمل ہیں)۔ یہ سارے اعداد وشمار کسی سونا اگلتی دھرتی کے نہیں ہو سکتے‘ مگر کھلی آنکھوں سے دیکھا جائے تو یہی سچ ہے۔ پاکستان کی تاریخ قدرتی وسائل کی بدانتظامیوں سے بھری پڑی ہے‘ اسی طرح سونے کی اس دھرتی پر غربت کا پڑاؤ بھی ناقابلِ فہم نہیں۔ اب اس خواب کے ساتھ ریکوڈک کی آمدنی کی طرف واپس چلتے ہیں کہ اگر چاغی‘ نوشکی‘خاران اور واشک اضلاع پر مشتمل رخشان ڈویژن ایک علیحدہ صوبہ ہوتی تو کیا اس کے یہی حالات ہوتے۔
ریکوڈک کی آمدنی سے 50 فیصد یعنی 88ارب ڈالر 37سال میں پاکستان کو ملنا ہیں اور اس کا نصف یعنی 44ارب ڈالر بلوچستان کا حصہ ہے‘ مطلب ہر سال ایک ارب 19کروڑ ڈالر (334 ارب روپے)۔ رواں مالی سال (2025-26ء) میں صوبہ بلوچستان کے بجٹ کا جائزہ لیں تو 1028 ارب کے مجموعی حجم میں 640 ارب تنخواہوں اور حکومت چلانے پر‘ 249 ارب کا صوبائی ترقیاتی پروگرام اور 87 ارب کی وفاقی ترقیاتی گرانٹس کو بھی شامل کر لیں تو سالانہ صوبائی ترقیاتی بجٹ کا مجموعی حجم 337 ارب روپے بنتا ہے۔ بلوچستان میں فی کس ترقیاتی بجٹ قارئین کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے؛ 22 ہزار 518 روپے۔ پنجاب میں یہ شرح بلوچستان سے 141 فیصد کم‘ 9 ہزار 354 روپے ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بلوچستان میں فی کس بجٹ زیادہ ہونے کا سب سے بڑا جواز دور دراز آبادیوں کو آپس میں ملانے کے لیے سڑکوں کی ضرورت ہے تو آئیے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ بلوچستان کی بجٹ دستاویز میں کل صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں سے سڑکوں اور سرکاری عمارتوں ‘کمیونیکیشن اینڈ ورکس کے محکمے کو 55 ارب 21 کروڑ (کل اے ڈی پی کا 19.75 فیصد) دیے گئے۔ اب آتے ہیں سونے کی دھرتی یعنی رخشان ڈویژن کے بطور صوبہ بجٹ کے خاکے پر تو بلوچستان میں فی کس آبادی کے لحاظ سے اسمبلی‘ ہائیکورٹ‘ وزیر اعلیٰ‘ گورنر‘ وزرا اور بیورو کریسی سمیت غیر ترقیاتی اخراجات 42 ہزار 764 روپے بنتے ہیں۔ رخشان ڈویژن کی آبادی 12 لاکھ 63 ہزار 49 نفوس پر مشتمل ہے‘ اس لحاظ سے رخشان صوبے کے غیر ترقیاتی اخراجات 54 ارب روپے سالانہ ہوں گے۔ اب آتے ہیں مجوزہ صوبے کے مالی وسائل کی طرف‘ ساتویں قومی مالیاتی ایوارڈ کے تحت رخشان کا صرف آبادی کے لحاظ سے وفاقی پُول میں حصہ 41 ارب 30 کروڑ روپے ہو گا جبکہ اصل وسائل ریکوڈک ریونیو کے ہوں گے‘ اور رخشان ڈویژن کے صوبہ بننے کی صورت میں یہ وسائل صوبہ بلوچستان کو نہیں بلکہ صدیوں سے بدقسمتی کا شکار تحصیل نوکنڈی والے صوبہ رخشان کو ملیں گے اور یہ وسائل ہوں گے 334 ارب روپے۔ مطلب سالانہ وسائل 375 ارب روپے ہوں گے اور 54 ارب روپے سالانہ کے غیر ترقیاتی اخراجات کے بعد 321 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے دستیاب ہوں گے۔ یعنی تقریباً پورے بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ کے برابر۔ مگر فی الحال تو یہ سب ایک خواب ہی لگتا ہے۔ سونے کی دھرتی سے غربت کے پڑاؤ کو دیس نکالا دینے کا خواب‘ مگر ہے یہ علی الصبح کا خواب‘ جس کے بارے میں سیانے کہتے ہیں کہ ان میں سے اکثر سچ ثابت ہوتے ہیں۔
قدرتی وسائل کو بنیاد بنا کر اگر ڈویژنل صوبوں کے آئیڈیا کو آگے بڑھایا جائے تو وہ علاقے جو اس وقت غربت اور پسماندگی میں دھنسے ہوئے ہیں‘ پاکستان کے امیر ترین صوبے بن سکتے ہیں۔ دوسری طرف لاہور اور کراچی جیسے شہری علاقوں کے سیاسی لیڈر اور بیک وقت لبرل ازم کے سمبل اور علاقائی تعصب کی چلتی پھرتی تصویر نظر آنے والے این جی اوز کے سرخیل اس فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ڈویژنل صوبوں کا نظام رائج ہو گیا تو موجودہ صوبائی حکومتوں کے ہاتھ سے مالی تقسیم کا اختیار نکل جائے گا اور ان کی اتنی بڑی آبادی والے شہروں کی ترقی کو واپسی کا گیئر لگ سکتا ہے۔ ان سارے خدشات کا جواب ہم ماڈل صوبوں کے روڈ میپ کے تحت باری باری اپنے قارئین کے لیے پیش کرتے رہیں گے‘ لیکن ابھی صرف یہ بتاتے چلیں کہ اگر وسائل ہی کو لیں تو سندھ کی میرپور خاص ڈویژن کے صوبہ بننے کی صورت میں قدرتی گیس کی موجودہ ڈویلپمنٹ سرچارج اور رائلٹی کی مد میں ملنے والے سالانہ اربوں روپے لاڑکانہ‘ بینظیر آباد یا کراچی میں نہیں لگ سکیں گے بلکہ عمرکوٹ‘ تھرپارکر اور میرپور خاص کے پسماندہ ترین علاقوں کا حصہ بنیں گے۔ تربیلا ڈیم کے واٹر یوزج چارجز کے اربوں روپے پشاور نہیں‘ ہزارہ ڈویژن کے اضلاع ہری پور‘ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ‘ بٹاگرام‘ تورگڑھ‘ کوہستان‘ لوئر کوہستان‘ الائی وغیرہ پر خرچ ہوں گے۔ اسی سابق فاٹا کے اضلاع کے ماربل سمیت دیگر وسائل انہی علاقوں پر خرچ ہوں گے۔ پنجاب میں ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادنخان میں سیمنٹ کے خام مال کے پہاڑ اور ضلع اٹک میں غازی بروتھا بجلی گھر کے ہائیڈل پرافٹ کے سالانہ اربوں روپے تختِ لاہور کے ہاتھ سے نکل کر صوبہ راولپنڈی کی حکومت کی دسترس میں ہوں گے جو پوٹھوہار کے صدیوں سے محروم علاقوں کی قسمت بدل دیں گے۔ ڈویژنل صوبوں پر اعتراضات اور تحفظات رکھنے والوں کی نذر یہ شعر:
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ اُن کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved