تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     18-10-2025

برطانیہ کے ثقافتی اُفق پر چلنے والی بادِ نسیم

اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ روشن دماغ‘ عمدہ نثر نگار‘ خوش شکل‘ خوش عادت‘ خوش خلق‘ خوش کلام‘ تارکینِ وطن دوست‘برصغیر سے گہرا جذباتی لگائو اور بہترین انگریزی انشائیہ لکھنے والی اس خاتون کا نام تھا نسیم خان۔ برطانیہ کے دوسرے بڑے شہر برمنگھم میں پیدا ہوئیں تو نام نسیم فاطمہ خان رکھا گیا۔ جب صحافی بنیں تو نسیم خان کا نام اپنایا۔
کئی سال پرانی بات ہے کہ میں لندن میں ایک ایسی تقریب میں شرکت کیلئے گیا جس میں عالم فاضل انگریز خاتون مصنفہ Karen Armstrong نے خطاب کرنا تھا۔ ماضی قریب میں انہوں نے تقابلِ ادیان‘ اسلام اور پیغمبر اسلام حضورﷺ پر کمال کی کتابیں لکھیں اور میں ان کا بہت بڑا مداح ہوں۔ اُن کی تقریر دل پذیر نہ صرف علم کو بڑھانے والی تھی بلکہ ایمان افروز بھی تھی۔ تقریر ختم ہوئی تو برٹش میوزیم (جو اس تقریب کا میزبان تھا) نے سب مہمانوں کو چائے؍ کافی پلائی اور انہیں ایک دوسرے سے ملنے کا موقع دیا۔ اتفاق سے ایک خاتون کافی لینے کیلئے قطار میں میرے پیچھے کھڑی تھیں۔ میں نے اخلاقاً اپنا مگ انہیں دے دیا تو تعارف کا مرحلہ آسانی سے طے پا گیا۔ اُنہوں نے اپنا نام بتایا تو میں چونک پڑا۔ برطانیہ کے بلند پایہ سیاسی تجزیاتی ہفت روزہ New Statesman میں اُن کے آرٹیکلز کئی سالوں سے پڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا کہ میں آپ کا ہر کالم پڑھ کر اس لیے بھی خوش ہوتا ہوں کہ آپ کی وجہ سے برطانیہ کے علمی حلقوں میں ایک دیہاتی (پینڈو) کے نام کی دھاک بیٹھ جاتی ہے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ محسوس ہوتا ہے کہ میری آپ سے یہ پہلی ملاقات ہی آخری ہو گی (اور یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی) لہٰذا آج مجھے ذرا زیادہ وقت دیں تاکہ میں آپ سے ڈھیروں باتیں کر سکوں۔ ویسے بھی اس تقریب میں جو لوگ شریک ہیں‘ اُن کی اکثریت سے تو آپ ملتی ہی رہتی ہیں۔ انہوں نے میری درخواست قبول کر لی۔ تقریب ختم ہوئی تو ہم میوزیم (جو عجائب گھرسے بڑھ کر عالمی ثقافتی ادارہ ہے) سے باہر نکل کر ایک ریستوران میں کافی کا دوسرا پیالہ پینے اور سلسلۂ کلام جاری رکھنے کیلئے جا بیٹھے۔ افسوس کہ یہ ملاقات بھی ایک گھنٹہ سے کم وقت تک ہی جاری رہی۔ زیادہ افسوس اس بات کا ہوا کہ انہوں نے مجھے اپنا فون نمبر نہیں دیا بلکہ میرا کارڈ لے کر مجھے تسلی دی کہ وہ جب فارغ ہوں گی تو مجھے فون کریں گی تاکہ ہم دوبارہ مل سکیں مگر اُنہوں نے کبھی فون نہیں کیا۔ بعد میں پتا چلا کہ 2000ء میں اُن کی ایک انگریز صحافی (John Torode) سے برسوں کی رفاقت کا 'خوشگوار طلاق‘ (separating amicably) کی صورت میں اختتام ہوا تھا اور وہ شوہر کی رفاقت کے بغیر تنہا اپنے دو بچوں کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری اُٹھانے کیلئے ذہنی دبائو کا شکار تھیں۔ اُن کی زندگی کے آخری سال سرطان جیسے موذی اور تکلیف دہ مرض کا مقابلہ کرتے گزرے۔ 78 برس عمر پانے کے بعد 8 جون 2017ء کو وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ صد افسوس کہ میرا اور نسیم خان کا کوئی مشترک دوست بھی نہ تھا‘ جو مجھے اُن کی آخری رسومات کی ادائیگی کا دن‘ وقت اور جگہ بتا دیتا۔
میں ہر سال کم از کم ایک بار برٹش میوزیم میں کوئی نہ کوئی نمائش دیکھنے ضرور جاتا ہوں۔ اس دوران اُس ریستوران میں بھی ضرور جھانکتا ہوں جہاں برسوں قبل ہم دنوں نے کافی پی تھی‘ اس امید سے کہ شاید وہ نظر آجائیں مگر اب وہ بہت دور جا چکی ہیں۔ نسیم خان کی ماں جرمن نژاد تھیں۔ اُن کے والد ڈاکٹر عبدالوصی خان ہندوستان میں اُردو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ نسیم خان کے والد متحدہ ہندوستان میں پلے بڑھے‘ وہیں ڈاکٹر بنے اور آج سے تقریباً سو سال پہلے‘ جب ہندوستان سے یورپ کی جانب نقل مکانی صفر کے برابر تھی‘ عبدالوصی خان ہندوستان چھوڑ کر انگلستان چلے گئے اور وہیں آباد ہو گئے۔ اُس دور میں زیادہ تر نوابوں کے بچے برطانیہ پڑھنے آتے تھے۔ میرے دادا کے فرسٹ کزن نواب محمد دین کے قابل بیٹے نقی باجوہ نے بھی اُس دور میں لندن میں پڑھائی کی تھی۔ وہ طلبہ جن کے والد نواب نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی وہ نواب ہونے کا دعویٰ کرتے تھے‘ ان کی لینڈ لیڈی (جو نہ صرف انہیں رہائش اور خوراک مہیا کرتی تھی بلکہ ماں بن کر اُن کا خیال بھی رکھتی تھی) انہیں بھی نواب کہہ کر پکارتی تھی۔
ایک طرف ڈاکٹر عبدالوصی خان تھے‘ جو اپنا آبائی وطن ہندوستان چھوڑ کر مستقلاً انگلستان چلے آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔ دوسری طرف مضمون نگار اپنے والد صاحب کو دیکھتا ہے جو اسی عرصے میں (1935ء کے لگ بھگ) کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہوئے تھے اور ضلع سرگودھا کے پہلے ڈاکٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایک سال کیلئے بھی اعلیٰ تعلیم کیلئے انہوں نے برطانیہ کا رخ نہ کیا بلکہ جب اُن کی عمر 93 برس تھی‘ تب بھی ان کا بڑا بیٹا انہیں چند ہفتے سیاحت کیلئے برطانیہ آنے پر بصد مشکل آمادہ کر سکا تھا۔ ڈاکٹر عبدالوصی خان نے برطانیہ ہی میں ایک جرمن ٹریڈ یونینسٹ کی یورپی نژاد بیٹی سے شادی کر لی۔ اس طرح دیارِ غیر میں مستقل آباد ہونے میں اگر کوئی کسر باقی تھی تو وہ بھی نکل گئی۔ یہیں پر 1939ء میں نسیم فاطمہ خان کا جنم ہوا۔ برطانیہ میں یوں تو سرکاری سکولوں (جہاں سولہ برس تک مفت تعلیم دی جاتی ہے) کا معیار بھی بہت اچھا ہوتا ہے مگر فاطمہ نے تعلیم ایک پرائیویٹ بورڈنگ سکول سے حاصل کی۔ یہ سکول ہوتے تو پرائیویٹ ہیں مگر کہلاتے پبلک ہیں۔ ان سکولوں کا معیار سرکاری سکولوں سے بدرجہا بہتر ہوتا ہے (خصوصاً زیادہ فیس لینے والے پرائیویٹ سکولوں کا)۔ لڑکوں کے مشہور اور مہنگے ترین پبلک سکولوں میں Rogby‘ Harroin اور Etonسرفہرست ہیں‘ جہاں پنڈت جواہر لال نہرو بھی پڑھتے رہے۔ لڑکیوں کے بھی کئی سکول معروف ہیں‘ جن میں چوٹی کا سکول ہے Roedean ہے‘ جو برطانیہ کے جنوبی اور ساحلی شہر Brighton میں ہے۔ یہیں پر نسیم خان نے تعلیم حاصل کی۔ اس سکول سے میری نسبت اتنی سی ہے کہ جب ایچیسن کالج لاہور کے میرے ایک طالبعلم ارشد سیٹھی (مرحوم) نے اپنی بیٹی کو یہاں پڑھنے کیلئے بھیجا تو میں اسے ہیتھرو ایئر پورٹ سے لے کر وہاں گیا تھا اور اس شہرہ آفاق سکول کی ایک جھلک دیکھی تھی۔
نسیم فاطمہ نے یہاں اتنی توجہ سے پڑھائی کی اور انگریزی ادب کے مضمون میں ایسے جوہر دکھائے کہ انہیں دنیا کی بہترین درسگاہوں میں سے ایک آکسفورڈ کے ایک کالج Lady Margaret Hall میں داخلہ مل گیا۔ نسیم فاطمہ نے ڈگری لی تو اُن کیلئے ایک سے ایک اچھی ملازمت کے دروازے کھلے تھے مگر اُنہوں نے صحافت کے خارزار کا انتخاب کیا اور تمام عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزار دیے۔ صحافیانہ میدان میں اُنہیں عزت اور شہرت تو ملی مگر دولت نہیں۔ ٹیلی ویژن بالخصوص نیوز چینلز کے دور سے پہلے صحافیوں کا امیر ہو جانا ممکن نہ تھا۔ اُنہوں نے یقینا بمشکل گزارہ کیا ہو گا‘ سادہ زندگی بسر کر کے ۔ مگر یہی ان کا شوق تھا اور پنجابی محاورے کے مطابق شوق کا کوئی مول (قیمت یا بھائو) نہیں ہوتا۔ نیو سٹیٹس مین کے علاوہ دی گارجین اور دی انڈیپنڈنٹ میں بھی اُن کے مضامین شائع ہوتے رہے۔ اُن کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اُنہوں نے تارکینِ وطن کے فنونِ لطیفہ (موسیقی‘ رقص‘ مصوری) کو برطانیہ میں نہ صرف متعارف کرایا بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر اسے برطانوی حکومت (برٹش آرٹس کونسل) اور عالمی سطح (یونیسکو)کی سرپرستی بھی دلوائی۔ 1999ء میں تاجِ برطانیہ نے انہیں ثقافتی خدمات پر OBE یعنی Most Excellent Order of the British Empire سے نوازا۔ انہوں نے Everywhere is Somewhere کے عنوان سے اپنی سوانح عمری بھی لکھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved