تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     19-10-2025

ایک ہی مطالبہ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کی مدّت میں توسیع ہو چکی ہے۔ دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطح کے وفود دوحہ پہنچ چکے ہیں جہاں قطر کی نگرانی (یا ثالثی) میں ان کے درمیان بات چیت ہو گی اور تناؤ کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات پر غور کیا جائے گا۔ قطر کے ساتھ طالبان کے تعلقات خوشگوار رہے ہیں اور افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے دوران بھی انہیں سفارتی سہولیات میسر رہی ہیں۔ پانچ برس پہلے دوحہ ہی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان وہ معاہدہ طے پایا تھا جس کے نتیجے میں امریکی فوجوں کا مکمل انخلا ہوا۔ اس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ افغانستان اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ افسوس کہ یہ ذمہ داری نبھائی نہیں جا سکی۔ پاکستان پر افغانستان میں موجود دہشت گرد متواتر حملے کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے 10ہزار 347واقعات کے دوران سول‘ فوجی اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے تین ہزار 844 شہدا کے لاشے ہم اٹھا چکے ہیں۔ اس دوران پاکستان کے وزیر خارجہ نے چار بار کابل کا دورہ کیا‘ وزیر دفاع اور آئی ایس آئی کے ذمہ دار دو مرتبہ وہاں گئے‘ پاکستان نے اپنے خصوصی نمائندے کو پانچ بار وہاں بھیجا‘ سیکرٹری سطح کے افسروں نے پانچ دورے کیے‘ قومی سلامتی کے مشیر بھی وہاں گئے‘ جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے آٹھ اجلاس منعقد ہوئے۔ 225بارڈر فلیگ میٹنگز ہوئیں‘ 836احتجاجی مراسلے افغانستان کو ارسال کیے گئے اور 13ڈیمارش سفارت خانے کو بھجوائے گئے لیکن اس تگ و دو کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہیں ہوا‘ وارداتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا رہا‘ یہاں تک کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا تعاقب کرنا پڑا‘ ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا‘ سرحدوں پر صورتحال کشیدہ ہوئی اور افغان فوج نے باقاعدہ حملے کی جسارت کی جس کا مزہ چکھا دیا گیا۔ گزشتہ چند روز کے دوران کئی جھڑپیں ہو چکی ہیں اور ہر جھڑپ میں حملہ آوروں کے دانت کھٹے ہی نہیں کیے گئے‘ توڑ ڈالے گئے ہیں۔ افغان سرزمین سے حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں نے بھی کارروائیاں تیز کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں بھی کیفر کردار کو پہنچا دیا گیا۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک ہفتے کے دورے پر جب نئی دہلی پہنچے تو اسی وقت افغانستان کی طرف سے جارحانہ اقدامات کا سلسلہ شروع ہوا۔ مُلا متقی نے جہاں پاکستان کے بارے میں نامناسب اندازِ بیان اختیار کیا وہاں مقبوضہ کشمیر کو بھی بھارت کا حصہ قرار دے دیا۔ مشترکہ اعلامیے میں کی گئی اس شرارت (یا حماقت) نے پاکستان اور کشمیر کے کروڑوں باشندوں کے دل زخمی کر دیے۔
افغانستان کو تمام تر حماقتوں اور منفی حرکتوں کے باوجود پاکستان دشمن ملک نہیں سمجھتا۔ 1979ء میں جب سوویت فوجیں افغانستان پر حملہ آور ہوئی تھیں تو اس کے بعد پاکستان نے افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کی مسلسل حمایت جاری رکھی ہے۔ سوویت فوجوں کو پسپا کرنے کے لیے عالمی اتحاد کو وجود بخشنے میں پاکستان نے تاریخی کردار ادا کیا۔ بیجنگ سے واشنگٹن اور قاہرہ سے ریاض تک طاقت کے سب مراکز افغان مزاحمت کاروں کی پشت پر کھڑے ہو گئے‘ انہیں وسائل فراہم کیے گئے اور ان کے جہاد کو کامرانی نصیب ہوئی۔ پاکستان نے اپنی سرزمین اپنے افغان بھائیوں کی راہ میں بچھا دی‘ لاکھوں افراد نے یہاں پناہ لی‘ برسوں ان کی میزبانی کا حق ادا کیا گیا۔ سوویت فوجوں کی پسپائی کے بعد پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں مقدور بھر تعاون کیا۔ اسامہ بن لادن کی تلاش میں جب نیٹو اور امریکی افواج کابل پر چڑھ دوڑیں تو اس دوران بھی پاکستان نے حتی المقدور معزول ہونے والی طالبان حکومت کے متعلقین و متاثرین کی اشک شوئی کی۔ پاکستان کی خاموش معاونت حاصل نہ ہوتی تو طالبان حکومت (ازسر نو) کابل میں قائم نہ ہو پاتی۔ یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستانی حکمرانوں (خصوصاً جنرل پرویز مشرف) سے کوئی کوتاہی یا فروگزاشت نہیں ہوئی۔ ایسے واقعات اور اقدامات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے جن سے طالبان کو شکایات پیدا ہوئیں لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان نے گزشتہ کئی عشروں کے دوران اپنا بہت کچھ داؤ پر لگا کر افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کا پرچم بلند کیے رکھا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جنم لینے والی کالعدم ٹی ٹی پی کو ابتدا میں افغان بھائیوں کی معاونت کار سمجھا جاتا رہا لیکن بعدازاں انہوں نے پاکستان کو بھی نشانہ بنا لیا‘ اب اس کے متوسلین بڑی تعداد میں افغانستان کو اپنی جنت سمجھ کر وہاں پاؤں پسارے بیٹھے ہیں۔
افغانستان سے پاکستان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے‘ پاکستان اس پر حملے کا تصور بھی نہیں کر سکتا‘ اسے ایک ہی شکایت ہے اور اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دراندازی کے لیے استعمال نہ ہو۔ 2600کلو میٹر لمبی سرحد‘ جس میں جگہ جگہ سوراخ موجود ہیں‘ باڑ لگانے کے باوجود جسے سیل نہیں کیا جا سکتا‘ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی گزر گاہ بنی ہوئی ہے۔ وہ ہمارے جانثاروں اور شہریوں پر حملہ آور ہوتے اور انہیں خون میں نہلاتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر افغان حکومت میں یہ صلاحیت موجود نہیں ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کی سرکوبی کر سکے تو پھر اسے پاکستان کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے پر آمادہ ہو جانا چاہیے۔
افغان حکومت اگر خود اقدام کرتی ہے‘ نہ پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمت عملی بناتی ہے تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ وہ خود برسر پیکار ہے۔ ایسی صورت میں اسے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہو گا‘ پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر کو بھی یہ نقطہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان جیل سے مذاکرات کی اہمیت واضح کر رہے ہیں‘ ان کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بھی اس پر زور دیتے چلے جا رہے ہیں۔ مذاکرات بہت ہو چکے‘ مزید بھی ہونے چاہئیں‘ جو مذاکرات کے لیے آمادہ ہو اس سے بات کرنے سے انکار کرنا شیوۂ مردانگی نہیں لیکن یہ بات ہم پر اور ہمارے سب دوستوں اور دشمنوں پر واضح ہو جانی چاہیے کہ پاکستان افغانستان پر قبضے کا ارادہ رکھتا ہے‘ نہ حملہ آور ہونے کی حماقت کر سکتا ہے‘ وہ تو اپنی سرحدوں کے اندر امن کا خواہاں ہے۔ اپنے اوپر حملہ آور ہونے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ قطر اور دوسرے دوست ممالک افغانستان کو یہ بات اچھی طرح سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
افغان معاملہ صرف دفاعی اداروں یا حکومتی اکابرین پر چھوڑنے کے بجائے پوری قوم کو مشاورت میں شریک کیا جانا چاہیے۔ علمائے کرام‘ مذہبی ادارے‘ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں‘ نمائندوں کو ایک میز پر بیٹھنا ہو گا۔ جنگ بآسانی شروع کی جا سکتی ہے لیکن بآسانی ختم نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں جنگ کو پھیلنے سے روکنا ہو گا۔ اس کے لیے غیرملکی دوستوں کو بھی سرگرم کرنا ہو گا۔ مشرقی اور مغربی سرحد کو بیک وقت گرم کرنے کی کوشش بلکہ سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہر تدبیر کو بروئے کار لانا ہو گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved