تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     19-10-2025

احسانِ میزبانی کا تلخ انجام

پاکستان نے دہائیوں پر محیط انسانیت سوز بحران میں افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ ایک ایسا احسان جو انسانی تاریخ کے صفحات پر سنہرے حروف سے لکھا جانا چاہیے۔ جنگ اور بدامنی کے ستائے ہوئے لاکھوں افغانوں کے لیے پاکستان نے اپنے دروازے کھول دیے‘ اپنی معیشت‘ معاشرت اور سلامتی کو داؤ پر لگا کر ان کی میزبانی کی۔ تاریخ شاہد ہے کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ سے پریشان لاکھوں افغان شہری نائن الیون سے پہلے ہی پاکستان میں رہائش پذیر تھے لیکن نائن الیون کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی طویل خانہ جنگی سے بچنے کے لیے بھی پاکستان افغانوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوا۔ مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے یہ غیرمعمولی قربانی صرف دروازے کھولنے تک محدود نہیں تھی بلکہ پاکستان نے ایک طویل عرصے تک ان افغان مہاجرین کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ضرورت کی طرف بھی توجہ نہ دی۔ پاکستان کی طرف سے دی گئی یہ کھلی چھوٹ اور افغانوں کے ریکارڈ کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے آج تک ان کی حتمی تعداد کا درست اندازہ لگانا ممکن نہ ہو سکا۔ اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام مہاجر کیمپوں کا ریکارڈ تو اس لیے موجود تھا کہ وہاں سے مہاجرین کو امداد ملتی تھی جس کا ریکارڈ رکھنا ضروری تھا لیکن پاکستان کی اس نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاکھوں افغان ایسے ہیں جن کا کہیں بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ چند برس پہلے جب اس صورتحال کی سنگینی محسوس ہوئی اور ریکارڈ مرتب کرنے کا عمل شروع کیا گیا تو پاکستان میں موجود افغانوں کی ہوشربا تعداد سامنے آنے لگی۔ صرف یہی نہیں بلکہ افغان مہاجرین کو پچھلی کئی دہائیوں سے بغیر ویزا افغانستان سے پاکستان آنے جانے کی آزادی حاصل تھی‘ ان مہاجرین کی بڑی تعداد پاکستان میں ہی پلی بڑھی اور جوان ہوئی‘ یہاں کے تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہوئے اور یہاں کے روزگار پر انحصار کیا۔ یہ ایک ایسی گراں قدر مہربانی تھی جس کا فطری تقاضا شکر گزاری‘ باہمی احترام اور امن کا فروغ تھا‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ شکر گزاری نفرت انگیز رویے میں بدلتی دکھائی دی۔ جنریشن گیپ سے بہت کچھ بدل چکا ہے۔ افغانوں کی موجودہ جنریشن پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتی ہے۔ اسی کو محسن سمجھتی ہے کیونکہ افغانوں کی موجودہ جنریشن افغانستان میں موجود بھارتی مشن اور بھارت کے درجنوں قونصل خانوں کے پھیلائے گئے زہریلے پروپیگنڈا کے تحت پاکستان مخالف سوچ کے ساتھ پروان چڑھی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے پاکستان محض افغان مہاجرین کے لیے صرف ایک پناہ گاہ نہیں بلکہ ایک مضبوط معاشی شہ رگ بھی ثابت ہوا۔ برسوں کے قیام کے دوران لاکھوں افغان باشندے یہاں نہ صرف باعزت روزگار سے وابستہ ہوئے بلکہ ان میں سے کئی نے محنت اور مواقع سے فائدہ اٹھا کر بڑے کاروبار قائم کیے اور پاکستان میں جائیدادیں تک بنا لیں۔ بے شمار ایسے تھے جو پاکستان سے کمائی ہوئی رقم سے اپنے خاندان کی کفالت کر رہے تھے اور باقاعدگی سے افغانستان میں موجود اپنے پیاروں کو بھی زرِ مبادلہ ارسال کرتے تھے۔ یہ سلسلہ بعینہ ویسا ہی ہے جیسا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی کرتے ہیں جو ملکی مجموعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں موجود پاکستانی اپنے وطن کو معاشی سہارا دیتے ہیں بالکل اسی طرح پاکستان میں موجود افغان باشندوں نے افغانستان کی معیشت کو بیرونی فنڈز کے ذریعے سہارا دیا۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان افغان باشندوں کے لیے تحفظ کی ضمانت کے ساتھ ساتھ روزگار کا ایک اہم اور مستحکم ذریعہ بھی تھا۔ اس طویل اور غیر معمولی تعاون کا تقاضا تھا کہ افغان طالبان کی قیادت پاکستان کے ساتھ شکر گزاری اور باہمی احترام کا ویسا ہی رویہ اختیار کرتی جیسا محسنوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے‘ تاہم پاکستان پر ہونے والے سرحد پار حملوں اور اندرونی سلامتی کے شدید چیلنجز نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ طویل میزبانی احسان فراموشی کے اس بوجھ میں بدل چکی ہے جس کے پیشِ نظر مزید خاموشی اختیار کرنا یا حالات کو نظر انداز کرنا قومی سلامتی کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ اگر وہ ممالک جہاں ہمارے لاکھوں محنت کش اوورسیز پاکستانی مقیم ہیں اور وہاں کی معیشت کا حصہ ہیں‘ اچانک انہیں نکالنا شروع کر دیں تو بحیثیت پاکستانی ہم پر کیا گزرے گی؟ بلا شبہ پاکستانی حکومت اپنے شہریوں کے روزگار اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن سفارتی ذرائع کو بروئے کار لائے گی لیکن افغان شہریوں کی وطن واپسی کے موجودہ معاملے میں ہمیں افغان حکومت کی جانب سے اپنے شہریوں کے تحفظ یا روزگار کو بچانے کے لیے کسی سنجیدہ سفارتی کوشش کا مظاہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ الٹا پاکستان پر یہ دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ اس کے غیر قانونی مقیم شہریوں کو واپس نہ بھیجے۔ یہ مطالبہ بذاتِ خود متضاد اور دوغلی پالیسی کا مظہر ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف افغان سر زمین پاکستان پر حملوں اور دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی رہے اور دوسری طرف پاکستان اس کے شہریوں کو تحفظ اور روزگار بھی فراہم کرتا رہے اور اپنے دفاع میں شدت پسند عناصر کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہ کرے۔ یہ رویہ کسی صورت بین الاقوامی تعلقات کے اصولوں اور پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتا۔ افغانستان کو اگر عالمی برادری اور دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنا ہے تو اسے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے لیے ذمہ دارانہ اور تعمیری برتاؤ کے طور طریقے سیکھنے ہوں گے۔
پاک افغان سرحد پر کشیدہ صورتحال کے پیش نظر اسلام آباد میں ہونے والا اعلیٰ سطحی اجلاس نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر‘ تین صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ خیبرپختونخوا کے نومنتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے شرکت نہیں کی‘ خیبرپختونخوا کی نمائندگی مزمل اسلم نے کی۔ اجلاس کا محور افغانستان کے پاکستان پر حملے اور خوارج کی دراندازی جیسے اہم ترین سکیورٹی چیلنجز تھے۔ اس اجلاس میں غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کی فوری وطن واپسی کا فیصلہ کیا گیا‘ جس کا مقصد ملک کی سلامتی کو یقینی بنانا تھا۔ یہ فیصلہ اس بات کا اعلان ہے کہ پاکستان مزیداس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکتا جو اس کی سکیورٹی اور خود مختاری کو خطرے میں ڈالے۔ صرف وہی لوگ رہ سکیں گے جن کے پاس ویزا ہوگا۔اب تک 14لاکھ 77ہزار 592افغانیوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ اسی دوران کراچی اور خیبرپختونخوا میں افغان کیمپوں کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ اس اہم موقع پر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی کی اجلاس میں عدم شرکت اور ان کی جانب سے دی گئی وضاحت بھی ایک پیچیدہ سیاسی منظرنامہ پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ وہ اپنے لیڈر عمران خان سے پالیسی گائیڈ لائنز لیے بغیر کسی بھی حکومتی میٹنگ میں شرکت کو صوبے کے مینڈیٹ کی توہین سمجھتے ہیں۔ نو منتخب وزیراعلیٰ کا سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر یہ پیغام ایک آئینی اور سیاسی تنازع کی نشاندہی کرتا ہے‘ تاہم ملک کی قومی سلامتی سے متعلق ایسے اہم اجلاس سے غیر حاضری‘ قطع نظر سیاسی اختلافات کے‘ وقت کی نزاکت اور معاملے کی اہمیت کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ وزیر اعلیٰ کے منصب کے اپنے تقاضے اورآئینی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جنہیں ہر صورت پورا کرنا ضروری ہے۔ یوں لگتا ہے نومنتخب وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی اپنے پیشرو وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سے سخت مؤقف میں دو قدم آگے کھڑے ہیں۔ اگر وہ پارٹی معاملات کو صوبائی معاملات پر ترجیح دیں گے تو نقصان صوبے کے عوام کو اٹھانا پڑے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved