تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     20-10-2025

جمہوریت کے بعد…؟

جمہوریت میرے سیاسی عقیدے کا حصہ ہے‘ اس کے باوصف‘ میں جب اس کے معاشرتی اثرات دیکھتا ہوں تو میرا یہ عقیدہ متزلزل ہونے لگتا ہے۔
جمہوریت کے تین نتائج میرے سامنے ہیں۔ ایک نتیجہ آمریت ہے۔ جب کوئی گروہ یا فرد عوامی تائید سے نوازا گیا تو اس نے اختیارات کو اپنی ذات میں مرتکز کر دیا۔ ترکیہ کے طیب اردوان اس کی مثال ہیں۔ آج کے دور میں حسینہ واجد اس کی سب سے بُری مثال ہیں۔ تاریخ کے صفحات میں لپٹی اس کی بدترین مثالیں ہٹلر اور میسولینی ہیں۔ دوسرا نتیجہ مذہبی آمریت یا پاپائیت ہے۔ ایران اس کی ایک مثال ہے۔ عوام کی غیر معمولی اکثریت مذہبی طبقے کی پشت پر تھی۔ اس تائید سے ایک گروہ نے آمرانہ اختیارات کشید کیے۔ ملک دھیرے دھیرے گرداب میں اترتا چلا گیا۔ تیسرا نتیجہ پاپولزم ہے۔ پاپولزم جہاں آیا‘ اس نے سماج کے بخیے ادھیڑ دیے۔ عوام کی سوچ کو سطحی بنایا۔ ذہنی ارتقا کو معکوس کر دیا اور معاشروں کو ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیا جہاں سے نکلنا کارِ محال ہو گیا۔ امریکہ میں ٹرمپ‘ بھارت میں مودی اور پاکستان میں عمران خان اس کی مثالیں ہیں‘ یورپ کے بعض ممالک میں بھی یہی ہوا۔
جمہوریت کسی نظریے کے طور پر اپنائی گئی یا کسی سیاسی مسئلے کے حل کے لیے‘ اس کے نتائج کم وبیش ایک جیسے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان نتائج سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ جمہوریت کے مسائل کا حل مزید جمہوریت ہے۔ اس میں یہ صلاحیت ہے کہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر سکے۔ یہ بات کتابی اور نظری طور پر درست معلوم ہوتی ہے مگر بعض تجربات اس کی تصدیق کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ امریکہ کو دیکھ لیجیے۔ یہاں جمہوریت کو پاؤں جمائے ایک عرصہ ہو گیا۔ اس کا آخری نتیجہ ٹرمپ ہیں۔ ایک بار نہیں‘ امریکی عوام نے انہیں دو بار منتخب کیا۔ اگر جمہوریت اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتی اور اس میں احتساب کا کوئی خودکار نظام ہوتا تو کیا ٹرمپ دو بار منتخب ہوتے؟
'عرب بہار‘ کے بعدجنم لینے والے مشرقِ وسطیٰ پر بھی ایک نظر ڈال لیجیے۔ میں ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اس سے امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ اس کا نتیجہ بھی مگر مختلف نہیں نکلا۔ پورا خطہ سماجی اضطراب اور انتشار سے گزرا۔ قدیم آمریتوں کے پاؤں تو اکھڑ گئے مگر ان کی جگہ عوام دوست حکومتیں نہ بن سکیں۔ عوام کے مسائل بڑھ گئے۔ جن معاشروں میں استحکام رہا یہ وہی تھے جہاں بادشاہت تھی۔ بادشاہت نے ان ممالک کو عدم استحکام سے بچا لیا۔ تیونس میں‘ جہاں سے عرب بہار کا آغاز ہوا‘ راشد غنوشی جیسوں نے اپنے فکری پیرہن کو بھی بدل ڈالا۔ نتیجہ کیا ہوا؟ تیونس آج بھی مضطرب ہے۔ غنوشی جیسوں کا مقدر جیل ہے یا جلاوطنی۔
فوکو یاما نے ایک بار یہ تجزیہ کیا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ کے معاشروں کے لیے جمہوریت سازگار نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اتنے بالغ النظر نہیں ہوئے کہ جمہوریت کی برکات کو سمیٹ سکیں۔ برسبیلِ تذکرہ‘ اس مقدمے سے اتفاق کرتے ہوئے‘ میرا سوال یہ ہے کہ کیا امریکی معاشرہ بھی اس کیلئے تیار نہیں جہاں جمہوریت کی کوکھ سے ٹرمپ کی صدارت نے جنم لیا؟ یہ تو وہ معاشرہ ہے جس کے بارے میں فوکو یاما ہی کا تجزیہ تھا کہ اس نے ارتقا کے تمام مراحل طے کر لیے اور تاریخ کا سفر اپنے اختتام کو پہنچ چکا۔ پھر وہ وقت آیا کہ خود فوکو کو اپنے اس تھیسس سے دستبردار ہونا پڑا۔ بالفاظِ دیگر یہ جمہوریت کی ناکامی کا اعتراف تھا۔
اگر جمہوریت نتائج نہیں دے رہی تو اس کا متبادل کیا ہے؟ آمریت یا بادشاہت؟ واقعہ یہ ہے کہ ان دونوں نے انسانوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں‘ وہ اگر پیشِ نظر ہوں تو لوگ بھول کر بھی اس طرف کا رخ نہ کریں۔ یہاں آمریت سے مراد غیر منتخب حکومتیں ہیں۔ رہی بادشاہت تو ہم اس سے واقف ہی ہیں کہ وہ کیا ہوتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ بھی نہیں تو پھر متبادل کیا ہے؟ کیا 'مابعد جمہوریت (Post Democracy)‘ دور یا نظریہ موجود ہے‘ جس کی طرف مراجعت کی جائے؟ یہ اصطلاح موجودہ عہد کی ایک تعبیر کے طور پر پہلے سے موجود ہے۔ کولن کراؤچ نے 2004ء میں پہلی مرتبہ یہ اصطلاح تراشی۔ ان کا کہنا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی میں‘ 1970ء کی دہائی سے ایک رویہ پروان چڑھ رہا ہے۔ بظاہر تمام جمہوری ادارے موجود ہیں جیسے پارلیمان‘ سیاسی جماعتیں‘ نظامِ انتخابات‘ مگر اقتدار کا مرکز عوامی اور جمہوری اداروں سے بڑی بڑی کارپوریشنز اور مالیاتی اداروں کو منتقل ہو گیا ہے۔ فیصلہ سازی کا منصب اب ان اداروں کے پاس ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہاتھ سے کام کرنے والی ورکنگ کلاس کی جگہ لے لی ہے جس نے ٹریڈ یونین جیسے اداروں کو کمزور کر دیا ہے۔ وہ اب فیصلہ سازی میں غیر مؤثر ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف سیاسی جماعتوں کی قوت عام اراکین سے اس اعیانی طبقے کو منتقل ہو گئی ہیں جو سرمایہ لگاتا ہے۔ پاپولزم دراصل اس مایوس کن صورتِ حال کا ایک ردِ عمل ہے جو بے ساختہ ہے اور جس کے پس منظر میں کوئی فکری نظام کارفرما نہیں۔ کیا ہمارے پاس کوئی متبادل ہے جو اس کی جگہ لے سکے؟ میں جب 'پوسٹ ڈیموکریسی‘ کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد وہ نظامِ فکر وریاست ہے جو جمہوریت کی جگہ لے سکے۔
ایک تجربہ چین میں بھی ہوا ہے۔ یہ یک جماعتی آمریت ہے۔ اس نظام کے تحت ایک ہی جماعت کی گنجائش ہے۔ ہر شہری اس کا رکن ہے۔ اگر کسی کو جماعت کی حکمتِ عملی پر اعتراض ہے تو اس کی صفوں میں رہ کر آواز اٹھا سکتا ہے‘ دوسری جماعت بنانے کی اجازت کسی کو نہیں۔ معاشی اور سماجی طور پر ایک مستحکم معاشرے کی تشکیل میں‘ یہ نظام بظاہر کامیاب دکھائی دے رہا ہے۔ بہت سے لوگ اگرچہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے اس نظام پر سوالات اٹھاتے ہیں جو جواب طلب ہیں‘ لیکن اگر کسی سیاسی نظام کا مقصد داخلی استحکام ہے تو یہ یک جماعتی نظام اس کے حصول میں کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ مسلم اہلِ علم کا ایک گروہ بھی اس کا قائل ہے کہ اسلام میں متعدد سیاسی جماعتوں کی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کی ایک ہی جماعت ہونی چاہیے اور اس کے دائرے میں سب کو آزادیٔ رائے میسر ہو۔ جنرل ضیا الحق مرحوم کے دور میں یہ تصور سامنے آیا تھا۔ انصاری کمیشن رپورٹ میں یہی تجویز کیا گیا تھا اور اس وقت کے وزیر مذہبی امور مولانا وصی مظہر ندوی مرحوم نے‘ جو ایک جید عالم تھے‘ اس مؤقف کی تائید میں ایک کتاب بھی لکھی تھی۔
یہ متبادل نظریات‘ جمہوریت کی روح یعنی فیصلہ سازی میں عوامی شرکت کی نفی نہیں کرتے بلکہ لبرل ڈیمو کریسی سے مختلف عوامی شمولیت کا ایک تصور دیتے ہیں۔ مجھے ان پر شرحِ صدر نہیں لیکن لبرل جمہوریت کی نتیجہ خیزی بھی میرے لیے مشکوک ہوتی جا رہی ہے۔ نظری دلائل آج بھی جمہوریت ہی کے حق میں ہیں لیکن ان جمہوری تجربات کا کیا کیا جائے جن کے نتائج مایوس کن ہیں؟ مغرب میں لوگ سوچتے ہیں۔ ہمارا دانشور ابھی تک مذہب وریاست کی کشمکش کا حل سیکولرازم میں تلاش کرتا ہے مگر اس تصور کے 'موجد‘ پوسٹ سیکولرازم کی بات کر رہے ہیں۔ ہم آج بھی لبرل جمہوریت کے عہد میں جی رہے ہیں مگر اس تصور کی جنم بھومی میں پوسٹ ڈیموکریسی کا تصور بیس برس سے زیرِ بحث ہے۔ زندہ معاشرے اسی طرح خود کو پرکھتے ہیں۔ اسی کو خود احتسابی کہتے ہیں۔
جمہوری تجربے کی ناکامی نے پاکستان مں ایک ہائبرڈ نظام کو جنم دیا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی افادیت وعدم افادیت پر کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوئی۔ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی اور کیا اسے جمہوری کہا جا سکتا ہے؟ کیا جمہوریت کے ایک سے زیادہ ماڈل تجویز کیے جا سکتے ہیں جو مقامی ہوں؟ کیا عوامی رائے سے ریاستی اداروں کو شریکِ اقتدار کیا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جن پر گفتگو ہونی چاہیے۔ یہ گفتگو اگر جمہوریت کی روح کو سامنے رکھتے ہو تو زیادہ مفید ہو سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved