نیویارک سے ہماری شناسائی پرانی ہو چکی ہے‘ اسے خیرباد کہے 31 سال بیت چکے۔ غالباً صرف ایک مرتبہ دوبارہ اُدھر جانا ہوا‘ وہ بھی اب یاد نہیں کب تھا۔ تین سال سے غالباً کچھ زیادہ عرصہ تک اس کے مضافات میں گزارے‘ تقریباً روزانہ مین ہیٹن کولمبیا یونیورسٹی تدریس کے لیے زیرِ زمین ٹرین سے سفر کر کے آنا جانا رہتا۔ اس پورے شہر کو اس جزیرے کی حد تک کئی دفعہ پیدل طے کیا۔ چلتے پھرتے رونق میلے دیکھے‘ پرانی کتابوں‘ دکانوں اور کیفوں میں بہت وقت گزارا۔ وجودی تعلق تو کب کا ٹوٹ چکا‘ مگر اس کی سیاست‘ ثقافت اور علمی وادبی زندگی سے آگاہی نیویارک ٹائمز اور نیویارکر کے حوالے سے آج تک قائم ہے۔ عالمی خبریں اب ہمارے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث نہیں رہیں‘ اگر کوئی دلچسپی ہے تو دنیا کے دو بڑے شہروں سے؛ لندن اور نیویارک۔ مگر یہ رشتہ روحانی ہی سمجھیں کہ اب ہم جہاں ہیں‘ وہاں ٹکے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔نیویارک کے بارے میں آج کل جو موضوع صرف میرے لیے نہیں بلکہ امریکی اور عالمی دانشوروں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث ہے‘ وہ اس رنگین تاریخی شہر کے لیے میئر کا انتخاب ہے۔ ماضی میں بھی ایسے انتخابات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے‘ مگر اس مرتبہ تو نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے؛ صرف نیویارک کی نہیں بلکہ پورے امریکہ کی۔ اگر آپ دنیا وما فیہا سے فارغ ہیں یا آپ عالمی سیاست پر نظر نہیں رکھتے تو پھر آپ کو کیا معلوم کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور ہماری اس میں دلچسپی کیونکر گہری ہے۔
کہانی یہ ہے کہ ظہران ممدانی نے جب سے ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے نامزدگی حاصل کی ہے تب سے ایک طوفان سا برپا ہے۔ ہماری دلچسپی اور اس سیاسی بھونچال کی بنیادی‘ اصلی اور حقیقی وجہ یہ ہے کہ ظہران ممدانی ایک مسلمان ہیں‘ جلد کی رنگت بھی وہ نہیں جو وہاں کی غالب اکثریت کی ہے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دلیری سے بات کرتے ہیں‘ کسی کا خوف نہ ڈر۔ ایک کھرا انسان جو دل میں ہے‘ زبان پر لانے میں دیر نہیں کرتا۔ ایک نڈر اور بہادر ہی اس شہر میں‘ جہاں اسرائیلی لابی اور اس سے محبت کرنے والوں کی طاقت جانی پہچانی ہے‘ کہہ سکتا ہے کہ اگر وہ میئر منتخب ہو گئے تو وہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہوکو انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کی بنیاد پر گرفتار کریں گے۔ کئی مرتبہ گلے میں فلسطینی کوفیہ لٹکائے انہوں نے انتخابی جلسوں سے خطاب کیا ہے۔ یہاں تک کہا ہے کہ وہ اسرائیل کو بطور یہودی ریاست تسلیم نہیں کرتے۔ چند دن پہلیمیئر کے لیے تین امیدواروں کے درمیان پہلا مباحثہ‘ جو وہاں کے قومی چینلوں پر لائیو دکھایا گیا‘ اس میں یہ بات اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ کسی بھی ریاست کو خالصتاً ایک مذہب اور نسل کے طور پر نہیں مانتے۔ ریاستیں سب کے لیے ہوتی ہیں جن میں کئی مذاہب اور رنگ ونسل کے لوگ رہتے ہیں۔ اپنی پوری سیاسی زندگی میں وہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ ان کے دو مخالفین نے اسرائیل‘ فلسطین اور شہر کے بارے میں ان کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تو ایک لمحے کے لیے بھی انہوں نے معذرت خواہانہ روش اختیار نہ کی۔ ان کا منشور عوامی ہے کہ لوگوں کو سہولتیں ملیں‘ آنا جانا مفت ہو یا کم سے کم کرایہ دینا پڑے‘ گھروں کے کرایوں میں اضافہ محدود ہو۔ وہ خود بھی ایک کرائے کے فلیٹ میں رہتے ہیں‘ اور جو قانون اس وقت بھی ہے‘ وہ یہ کہ مالکان کرایہ من مانی کر کے نہیں بڑھا سکتے۔
امریکہ کی پوری کی پوری ریپبلکن پارٹی‘ جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پارٹی ہے‘ ہاتھ دھو کر ممدانی کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ سیاسی گالیاں‘ بے بنیاد الزامات اور تہمتیں تو ایک طرف‘ انہوں نے اسے ہرانے کے لیے ایک منظم مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان کے مقابلے میں سابقہ میئر تو گزشتہ ہفتے میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اب ریپبلکن پارٹی کے امیدوار سلوا‘ جو اس وقت مقبولیت کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہیں‘ اور اینڈریو کومو‘ جو نیویارک ریاست کے سابق گورنر ہیں اور نو سال تک اس عہدے پر فائز رہے‘ جنسی ہراسانی کی خبریں پھیلیں تو عوامی دبائو کے سامنے ٹک نہ سکے اور انہیں چار سال پہلے استعفیٰ دینا پڑا۔ کومو کے والد‘ ماریو کومو بھی دو مرتبہ اس ریاست کے گورنر رہے۔ یہ ایک طاقتور سیاسی خاندان ہے اور یہاں ان کی لسانی قومیت‘ اطالویوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ کومو ڈیمو کریٹک پارٹی سے ہیں مگر نامزدگی کا مقابلہ ہارنے کے بعد اب وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے میدان میں ہیں‘ اور سلوا کے پائوں پکڑ رہے ہیں کہ خدارا آپ دستبردار ہو جائیں اور انہیں مقابلہ کرنے دیں۔ ہماری اور نیویارک وامریکہ کے مخلص لبرلز کی اس مقابلے میں دلچسپی کی ایک وجہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ظہران ممدانی کو ہرانے کی خواہش ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ صادق خان کے لندن کا میئر ہونے کو آج تک ہضم نہیں کر سکے‘ اور اگر نیویارک سے ظہران جیت گئے تو پتا نہیں کتنے دن ان کی نیند اچاٹ ہو جائے گی۔
ابھی تک تو یہ معلوم ہو رہا ہے کہ عوامی رائے کے سروے میں وہ اپنے دو حریفوں سے بہت آگے ہیں۔ چار نومبر کی شام معلوم ہو گا کہ آخر کون جیتا۔ جہاں تک نتائج کا تعلق ہے‘ اس وقت تو ہم پُرامید ہیں کہ جس طرح عوامی نوعیت کی مہم ظہران ممدانی نے چلائی ہے‘ وہ میدان مار لیں گے۔ مگر امریکہ میں انتخابات کے بارے میں آخری ووٹ شمار ہونے تک کوئی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ نتیجہ جو بھی ہو‘ تاریخ تو ظہران نے رقم کر دی ہے۔ جس کھلے دل‘ ذہن اور اپنی پُرکشش شخصیت سے انہوں نے عام آدمی کا دل موہ لیا ہے‘ ایسے امیدوار اپنے سیاسی مشاہدے میں کم ہی دیکھنے میں آئے ہیں۔ جو صحافی اور لکھاری ان کے ساتھ‘ ان کی مہم کے بارے میں خبریں لکھ رہے ہیں‘ وہ سب حیران ہیں کہ کیسا تہلکہ اس نوجوان نے مچا دیا ہے۔ آپ بھی شاید حیران ہوں گے کہ دوسرے امیدواروں کا تعلق سیاسی خاندانوں سے ہے‘ بہت دولت مند ہیں اور ان کی پشت پر بھی بہت دولت مند لوگ کھڑے ہیں لیکن یہ پروفیسر محمود ممدانی صاحب کے اکلوتے فرزند ہیں۔ ماں بھی باپ کی طرح دنیا کے دانشوروں اور ثقافتی حلقوں میں بہت شہرت رکھتی ہیں۔ میرا نائر نے بہت سی مشہور فلمیں بنائی ہیں اور پروفیسر ممدانی نے سامراجیت کے خلاف قلم اٹھایا ہے۔ یہ مختصر سا خاندان افریقی ملک کینیا سے تارکِ وطن ہو کر امریکہ میں آباد ہوا ہے۔
جہاں ظہران ممدانی کی سیاست اور نظریات پر فخر ہے‘ وہاں بجا طور پر ہم امریکہ کی جمہوری ثقافت اور وہاں کی آزادیوں کے دل سے معترف رہے ہیں۔ نہ جانے کتنی بار امریکی سیاست اور امریکی سیاسی فلسفے کے موضوع پر اپنی گزشتہ زندگی کیسالوں میں کورسز پڑھائے ہیں۔ ہماری سیاسی زندگی‘ کاش وہ بھی اتنی زرخیز ہوتی اور یہاں ایک ہی طرح کی اشرافیہ اور مورثی حکمرانوں کی نسلیں بغیر کسی حقیقی عوامی تائید کے ہمارے اوپر مسلط نہ رہتیں۔ سیاسی اور سماجی ترقی ایسے ہی ماحول میں ہو سکتی ہے جو براک حسین اوباما اور ظہران ممدانی کے سیاسی خوابوں کی تعبیر کر سکے۔ اس لیے تو امریکہ‘ امریکہ ہی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved