پاکستان سے باہر آئیں تو آپ کو ہمارے پاکستانی بھائیوں کے بہت سے گلے شکوے سننے پڑتے ہیں۔ وہ اپنے دل کا غبار نکالنا چاہتے ہیں۔ ملک میں کوئی بھی حکمران ہو‘ انہیں برا لگتا ہے اور جیل میں بیٹھا ہر سیاستدان اچھا لگتا ہے۔ وہی سیاستدان اگر جیل سے اُٹھ کر وزیراعظم ہاؤس پہنچ جائے تو چند ماہ بعد وہ بھی برا لگنا شروع ہو جاتا ہے۔
میں رپورٹر ہونے کے ناتے ایسے تجربات کا عینی شاہد ہوں کہ کیسے نواز شریف 1997ء میں دو تہائی مینڈیٹ لینے کے بعد امیر المومنین کا قانون لانے پر غور کر رہے تھے‘ جس میں کسی بندے کے پاس ان سے اختلاف کی گنجائش نہیں ہونی تھی۔ اُن دنوں سب قوتیں ان کے خلاف تھیں۔ بہت سے ترقی اور جمہوریت پسند طبقے ان کی اس سوچ کے خلاف تھے بلکہ خورشید قصوری نے ایک دفعہ کسی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اس پر اعتراض کیا تو جواب ملا: پھر آپ استعفیٰ دے دیں۔ مطلب جو آپ کی بات سے اختلاف کرے وہ استعفیٰ دے ورنہ چپ رہے۔ وہی نواز شریف جیل پہنچے تو اب ناقدین اُن کی مظلومیت کی کہانیاں سن کر آنکھوں میں آنسو لاتے۔ یہی میں نے عمران خان کے کیس میں دیکھا۔ وزیراعظم تھے تو عوام کی بڑی تعداد اُن سے متنفر تھی۔ میں اپنے گائوں ایک شادی پر گیا تو لوگ میرے گلے پڑ گئے کہ عمران خان حکومت پر ہاتھ کیوں ہولا رکھا ہوا ہے۔ عمران خان اپنے دور میں اٹھارہ ضمنی الیکشن ہار گئے تھے۔ اب اسی عمران خان کی یاد میں قوم غم سے نڈھال ہے۔ پہلے بھی کئی دفعہ کہا کہ بڑی خواہش ہے خان واپس آئے اور اس قوم کے رہے سہے ارمان پورے کرے۔ جس کی چوائس عثمان بزدار‘ محمود خان‘ علی امین گنڈاپور اور سہیل آفریدی ہو اس کا اپنا بھی بنتا ہے کہ وہ پانچ سال وزیراعظم رہے۔ پہلے باہر آتے تھے تو لوگ خان سے مایوسی کا اظہار کرتے تھے کہ بہت امیدیں تھیں لیکن وہ عثمان بزدار‘ مانیکا اورگجر خاندان کے اثر ورسوخ اور مار دھاڑ سے بڑے خفا تھے۔ اب وہ موجودہ حکومت سے خفا ہیں بلکہ بڑے سخت خلاف ہیں۔ بڑے مزے کی بات ہے‘ وہ جن ملکوں میں رہتے ہیں خان نے ان تمام ملکوں سے ٹکر لے رکھی تھی۔ میں آج تک اس انسانی ذہن کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس ملک میں آپ ہجرت کر کے سیٹل ہوتے ہیں‘ بچے پیدا کرتے ہیں‘ وہیں سے روزی روٹی کماتے کھاتے ہیں اس سے وفاداری کیسے کم ہو جاتی ہے کہ بعض لوگ تو ان ملکوں کی بربادی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ اس سوچ کو آج تک نہیں سمجھ سکا۔ مجھے اکثر لوگ ایک بات کہتے ہیں کہ پاکستان کی حالت بہت بُری ہے اور دیکھیں لاکھوں کی تعداد میں لوگ باہر سیٹل ہو رہے ہیں۔ میں نے غور سے ان صاحب کو دیکھا اور کہا: آپ واقعی یہ سیریس بات کر رہے ہیں کہ ہجرت یا باہر سیٹل ہونے سے ملک یا معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں؟ وہ بولا: جی۔ میں نے کہا: آپ یہاں نیویارک میں پاکستان سے کب شفٹ ہوئے تھے؟ کہنے لگے: بیس سال سے زائد ہو گیا۔ تو میں نے کہا: اس کا مطلب ہے یہ مائیگریشن تو پھر بہت پرانی ہے۔ جب آپ نے خود امیگریشن لی تو وہ اچھی تھی اب دوسرے لے رہے ہیں تو بری ہو گئی‘ بلکہ اب یہ پاکستان کے خلاف کیس بنا کر پیش کر رہے ہیں کہ لوگ ملک چھوڑ رہے ہیں۔ انسان تو صدیوں سے ہجرت کرتا آیا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس ہجرت کی وجہ سے ہی انسانی ترقی اس مقام پر پہنچی ہے۔ ہجرت کی وجہ صرف معاشی نہیں ہوتی اور بھی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ کئی تہذیبوں کے بارے پڑھا اور سنا ہے کہ وہ تباہ ہو گئیں‘ کچھ ڈوب گئیں تو کچھ سوکھ گئیں۔ موسمی تبدیلیاں بھی بڑی وجہ بنیں کہ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے کہ دریا سوکھ گئے یا دریائوں کے کنارے پھیل گئے یا برف نے ان کے کھیتوں اور گائوں پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح جب انسان جنگیں کرنے اور دوسرے انسانوں پر قابض ہونے کیلئے نکلتے تھے تو اکثر وہ علاقے فتح کر کے واپس اپنے علاقوں میں نہیں جاتے تھے۔ انہی معاشروں میں رچ بس جاتے تھے۔ اپنے ساتھ وہ ہنر مند اور قابل لوگ بھی لاتے جو ان محکوم علاقوں کو نئے سرے سے آباد کرتے اور انسان پھر سے جینا شروع کر دیتا تھا۔ مغل اس کی اہم مثال ہیں یا پھر دلّی سلطنت پر باہر سے آنے والے جن مسلم خاندانوں نے حکومت کی وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ سب مغلوں کی قبریں ہندوستان پاکستان میں ہیں۔ کوئی واپس نہیں گیا۔ اگرچہ محمود غزنوی‘ تیمور‘ نادر شاہ یا سکندر مال سمیٹ کر لوٹ گئے لیکن سارے لوگ پھر بھی نہیں گئے۔ بعض کو ہندوستان اچھا لگا‘ یہاں موجود معاشی مواقع بہتر لگے اور انہوں نے اسے اپنا مسکن بنایا اور آج ان کی نسلیں خود کو son of soil سمجھتی ہیں اور اس زمین اور دھرتی کے ساتھ ہی وفادار ہیں۔ اگر آج ان کے بزرگوں کی زمین سے کوئی حملہ آور ہو تو وہ اپنی جان دے کر بھی لڑیں گے۔ یہ ہوتی ہے وقت کے ساتھ ترقی اور تبدیلی۔ اس لیے اگر پاکستانی بھی اچھے روزگار یا مواقع کی تلاش میں باہر جاتے ہیں تو کیا حرج ہے۔
اس وقت کہا جاتا ہے کہ ایک کروڑ پاکستانی مختلف ملکوں میں بسے ہوئے ہیں۔ اس وقت پاکستانی تقریباً 30‘ 35 ارب ڈالرز ہر سال بھیج رہے ہیں۔ بھارت میں شاید 70‘ 80ارب ڈالرز بھیجے جاتے ہیں۔ سری لنکا اور بنگلہ دیشی ورکرز بھی اربوں ڈالرز اپنے ملکوں میں بھیجتے ہیں۔ بھارت تو ہمیں بتاتا ہے کہ وہ دنیا کی اب تیسری بڑی اکانومی بن چکا ہے اور اگلے چند برسوں میں وہ چین کے ساتھ کھڑا ہو گا‘ تو پھر بھارتی نوجوان بھارت چھوڑ کر امریکہ‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا یا لندن کیوں شفٹ ہوتے ہیں؟ ابھی امریکی ویزا میں تبدیلیوں پر ہم سے زیادہ بھارتی کیوں پریشان ہیں؟ کیونکہ ہمارے صرف بارہ ہزار نوجوان امریکی ٹیک کمپنیوں میں جاب کر رہے ہیں جبکہ انڈین سوا لاکھ ہیں۔ دنیا اس طرح ہی چلتی ہے کہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔
وہ کہنے لگے: لیکن یہ تو برین ڈرین ہو رہا ہے۔ میں نے کہا: چلیں پھر آپ واپس لوٹ آئیں اور جو کچھ یہاں رہ کر سیکھا ہے وہ اب اپنے ملک اور قوم کے کام میں لائیں۔ وہ بولے: اب اس عمر میں کیسے آ سکتا ہوں۔ میں نے کہا: چلیں اپنے بچے واپس پاکستان بھیج دیں۔ کچھ برین ڈرین امریکہ کا بھی ہو۔ بولے: اب بچے کہاں پاکستان جائیں گے۔ میں نے کہا: نہ آپ خود پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں نہ اپنے بچوں کو بھیجنا چاہتے ہیں لیکن اگر وہاں سے نوجوان بہتر مواقع کی تلاش میں بیرونِ ملک جانا چاہتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ وہ وہیں رہ کر ملک کی خدمت کریں‘ آپ اور آپ کے بچے یہ نہیں کریں گے۔ میں نے کہا: امریکہ کی پچاس ریاستیں ہیں اور یہ اتنا بڑا ملک ہے کہ بعض ریاستوں کا فاصلہ ایک دوسرے سے اتنا زیادہ ہے کہ سات گھنٹے کا فلائٹ ٹائم ہے۔ اتنی دیر میں بندہ اسلام آباد سے لندن پہنچ جائے۔ اس ملک کی آبادی 35 کروڑ ہے۔ آپ کے ہاں پاکستان میں زیادہ سے زیادہ اندرون ملک فلائٹ دو گھنٹے کی ہے اور آبادی پچیس کروڑ ۔ آپ نہ آبادی کم کرنے کو تیار ہیں نہ لوگوں کے باہر جانے پر خوش ہیں‘ پھر آپ نے اس پچیس کروڑ کو پاکستان میں رکھ کر کیا کرنا ہے؟ کون سا ملک پچیس کروڑ لوگوں کو اچھی زندگی دے سکتا ہے؟ ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔ میرا بس چلے تو میں پانچ دس کروڑ پاکستانیوں کو باہر بھجوا دوں جو اپنی زندگیاں بدل سکتے ہیں۔ روز بروز بڑھتی آبادی آپ کا مسئلہ نہیں ہے لیکن چند لاکھ پاکستانیوں کا باہر جانا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے جن کی زندگیاں باہر جا کر بدل سکتی ہیں اور وہ اپنے خاندانوں کی زندگیاں بھی بدل سکتے ہیں۔ آپ خود باہر آ گئے‘ اپنی زندگیاں بدل لیں لیکن اگر کسی اور کو کسی ملک میں زندگی بدلنے کا موقع مل جائے تو ہم رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ وہی بات جو بس یا ٹرین پر چڑھ گیا وہ اگلے سٹیشن پر اندر سے کنڈی لگا لیتا ہے کہ کوئی دوسرا اندر نہ آئے۔ ہجرت موقع دیتی ہے زندگی بدلنے کا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved