ایک معاصر کالم نگار ہمارے مہربان دوست ہیں اور عموماً دینی و سیاسی موضوعات پر فکری اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں۔ ان کی تحریریں سوچ کے دریچے وا کرتی ہیں اور بعض اوقات ان میں بڑی چونکا دینے والی باتیں بھی ہوتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ایک حیران کن بحث چھیڑ دی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر عوام کے ووٹ لے کر کوئی جمہوری حکمران اپنی ذات میں سارے اختیارات سمیٹ لیتا ہے تو یہ جمہوریت کی ناکامی ہے۔ فاضل دوست نے جمہوریت کے نام پر آمر بننے والے حکمرانوں میں اسلامی دنیا سے طیب اردوان کی مثال دی ہے اور مغربی دنیا سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے ان مثالوں سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ گویا اب جمہوریت ایک بہترین سیاسی نظام کے طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لہٰذا اب جمہوریت کی بساط لپیٹ دینی چاہیے اور اس کا کوئی متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
مجھے حیرت ہے کہ میرے مفکر دوست کی نظروں سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی ہوئی جمہوریت کی لازوال مثالیں کیسے اوجھل رہ گئیں۔ امریکہ میں برطانوی بادشاہت کا راج تھا‘ جس کے خلاف ایک طرف عوام اُٹھ کھڑے ہوئے اور دوسری طرف مفکر و مدبر سیاستدانوں نے امریکی عوام کو بنیادی انسانی حقوق‘ شہری آزادیوں اور اپنے حکمرانوں کو خود منتخب کرنے کا راستہ دکھایا۔ چار جولائی 1776ء کے اعلانِ آزادی سے امریکہ میں جمہوریت کے سفر کا آغاز ہوا‘ جو اَب تک نہایت کامیابی سے جاری ہے۔ 1787ء میں امریکی دستور منظور ہوا جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اس جمہوری دستور کے مطابق حکومت امریکی لوگوں پر مشتمل ہو گی‘ ان کیلئے ہو گی اور وہی اسے منتخب کریں گے۔ امریکی دستور کے تحت ایک سے بڑھ کر ایک نامور صدر منتخب ہوتے رہے اور اپنے ووٹروں کی خواہشات کے عین مطابق خدمتِ عوام کرتے رہے۔
صدر جارج واشنگٹن نے پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت قائم کی۔ اسی صدر نے ''بادشاہ‘‘ کے لقب کو ہمیشہ کیلئے دیس نکالا دے کر جمہوریت کے ساتھ اپنی اَنمٹ کمٹمنٹ کا اعلان کیا۔ اسی طرح تھامس جیفر سن نے آزادی کا تاریخی اعلان مرتب کیا اور ابراہم لنکن‘ جو 1861ء سے لے کر 1865ء تک امریکہ کے صدر رہے‘ انہوں نے امریکہ میں سیاہ فام افریقیوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کیا اور دنیا کے تمام انسانوں کیلئے برابری کا اعلان کیا۔
امریکہ کی تقریباً اڑھائی سو سالہ جمہوری و دستوری تاریخ میں اگر ایک ڈونلڈ ٹرمپ کچھ آمرانہ روش اختیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تو اس کا یہ مطلب کیسے نکل آیا کہ اب امریکہ سے بھی جمہوریت کا بوریا بستر گول کر دیا جائے۔ ہمارے فاضل دوست کی نظر سے امریکہ کی تازہ ترین خبریں یقینا گزری ہوں گی۔ دیکھیے امریکی معاشرے میں جمہوریت اور احترامِ دستور کی جڑیں کتنی گہری اور مضبوط ہیں۔ 19اکتوبر کے روز امریکہ کے 2700شہروں میں‘ نیو یارک سے لے کر لاس اینجلس تک 70لاکھ افراد نے ''No Kings‘‘ کے بینر تلے ٹرمپ کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ یہی تو حقیقی جمہوریت کا ثمر ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اگر کوئی منتخب حکمران جادۂ دستور سے سرِ مو انحراف کرنے کی کوشش کرے گا تو عوامی احتساب اسے ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔
فاضل کالم نگار کے نتیجہ فکرکا مطلب تو یہ ہوا کہ کسی دانش گاہ سے ہزاروں طلبہ و طالبات کسبِ فیض کرتے ہوئے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ اب اگر اس یونیورسٹی میں اکاّ دکاّ ایسے بھی طالب علم ہوں جو وہاں وقت برباد کرتے رہے ہوں اور ناکام رہے ہوں تو کیا اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایسی دانش گاہ کو تالے لگا دیے جائیں؟
ہمارے دانشور دوست نے اس موقع پر بہارِ عرب کی مثالیں بھی دیں کہ وہاں جمہوری پودے کو جڑیں نہیں پکڑنے دی گئیں۔ اگر ان عرب ملکوں کی غیرجمہوری قوتوں نے جمہوری بہارِ عرب کو آمرانہ بادِ سموم کے تھپیڑوں سے پنپنے نہ دیا تو اس میں قصور جمہوریت کا ہے یا آمریت کا؟ مصر میں محمد مُرسی اور تیونس میں راشد الغنوشی بہارِ عرب کے کھلکھلاتے ہوئے پھول تھے جنہیں مسل دیا گیا۔
فاضل کالم نگار نے بعض پاکستانی علمائے کرام کے حوالے سے یہ لکھا ہے کہ اسلام میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی گنجائش نہیں۔ جب جنرل ضیا الحق نے بار بار اس بات کو دہرایا تو جماعت اسلامی کے ایک سینئر رہنما مولانا گلزار احمد مظاہری مرحوم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جنرل صاحب! آپ ہمیں اسلام میں مارشل لاء ثابت کر دیں تو ہم آپ کو ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی گنجائش بھی ثابت کر دیں گے۔ قرآن کی سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر 38میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ''وأمرھم شوریٰ بینھم‘‘۔ یعنی مسلمانوں کے معاملات باہمی مشاورت سے ہی طے پاتے ہیں۔ اسی اصول کے مطابق چاروں خلفائے راشدین منتخب ہوئے تھے‘ ہم اسلامی اصولوں سے ذرہ برابر انحراف نہیں کر سکتے‘ مگر ہر دور کی روحِ عصر کے مطابق ان اصولوں کو جدید اصطلاحات میں بیان کرنا ہی تو علمائے کرام کا کام ہے۔
قرآن پاک کی سورۃ الانفال کی آیت: 60میں ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم یوں ہے کہ: تم اُن کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو۔
کیا آج بھی مسلمان دشمنوں سے لڑنے کے لیے بہترین سیاہ گھوڑے‘ کہ جن کی ٹاپوں سے چنگاریاں نکلتی ہیں‘ انہیں تیار رکھیں گے یا جے ایف17- تھنڈر اڑانے کی تربیت حاصل کریں گے اور جدید ترین ریموٹ ٹیکنالوجی پر مکمل دسترس حاصل کریں گے؟ فاضل کالم نگار نے مغرب کی صدیوں سے کامیاب جمہوریت کو نجانے کس بنیاد پر ناکام قرار دے دیا اور اب آمرانہ یک جماعتی نظام میں اختلافِ رائے کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ یہ جمہوریت ہی کا اعجاز ہے کہ پاکستانی نژاد صادق خان لندن کا میئر ہے۔ سیاہ فام براک اوباما امریکہ کا صدر منتخب ہوا۔ اور اب ایک مسلمان ظہران ممدانی نیو یارک کا میئر منتخب ہونے جا رہا ہے۔ ہمارے دانشور کالم نگار کی نظر یقینا مشرقِ وسطیٰ کی غیر جمہوری حکومتوں پر بھی ہو گی۔ وہاں ملوکیت بھی ہے اور فوجی و سول ڈکٹیٹر شپ بھی۔ بھلا کسی بھی عرب ملک میں جمہوریت کے ''متبادل نظریات‘‘ میں فیصلہ سازی میں عوامی رائے کی ذرہ برابر گنجائش ہے؟ ''مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ ہی وہاں فرمانِ امروز قرار پاتا ہے۔
ہمارے فاضل دوست نے ایک اور مفروضہ قائم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پاکستان میں ''جمہوری تجربے کی ناکامی نے ایک ہائبرڈ نظام کو جنم دیا ہے‘‘۔ یہ مفروضہ بھی درست نہیں۔ جمہوریت میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ساری اکائیاں 1973ء کے متفقہ اسلامی جمہوری آئین پر لازوال یقین رکھتی ہیں۔ اس لیے آئین کے مطابق جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved