یہ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی کا منظر تھا۔ ایک ماں خون میں لت پت اپنے چھ سالہ بچے کو بانہوں میں لیے چیختی ہوئی داخل ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب! میرا بیٹا سانس نہیں لے رہا‘ کوئی تو بچا لے۔ اس کی بانہوں میں اس کا نو عمر بیٹا‘ گلے پر شیشہ لگی ڈور پھرنے سے شدیدا زخمی‘ خون میں تر بتر‘ سانس رُکی ہوئی۔ وہ بچہ اپنے باپ کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ قاتل ڈور نے آ لیا‘ بیٹا زخمی ہوا‘ باپ زمین پر گر پڑا‘ اس کا سر بھی زخمی ہوا اور زبان پر ایک ہی جملہ تھا‘ ایک پتنگ تھی‘ ایک پتنگ! اس پتنگ نے ایک ماں کی گود اجاڑ دی۔ یہ بسنت نہیں تھی‘ یہ موت کا تہوار تھا۔ یہ کسی ایک گھر کی کہانی نہیں‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ ملتان اور راولپنڈی کے نجانے کتنے ہی گھروں کے چراغ اس بے رحم ڈور نے بجھا دیے۔ پتنگ نہیں اڑتی‘ جانیں اڑ جاتی ہیں۔ خوشیوں کی ڈور نہیں کٹتی‘ رشتوں کی سانسیں کٹ جاتی ہیں۔ مگر اب خبر آئی ہے کہ ان زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے پنجاب حکومت ایک بار پھر اسی خونیں کھیل کو زندہ کرنے جا رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ حکومتِ پنجاب فروری کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں ''محدود بسنت‘‘ کی اجازت دینے پر غور کر رہی ہے۔ اس سال جنوری میں منظور کیے گئے قانون‘ جس کے تحت پتنگ بازی‘ پتنگ سازی‘ ڈور کی تیاری‘ فروخت اور ترسیل کو ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا گیا تھا‘ میں ترمیم کی تیاری ہو رہی ہے تاکہ بسنت دوبارہ شروع کی جا سکے۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ کس کی خواہش پر؟ کس کے کہنے پر وہ کھیل واپس لایا جا رہا ہے جو برسوں سے گھروں کو اجاڑنے کا سبب رہا ہے؟ یہ سلسلہ اپریل میں ہونے والےLAHR(Lahore Authority for Heritage Revival) کے اجلاس سے شروع ہوا۔ اسی اجلاس میں بسنت کی بحالی پر بات چیت ہوئی‘ پھر مریم اورنگزیب کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ یاد رہے کہ صرف ایک سال پہلے‘ 26 مارچ کو میاں نواز شریف اور مریم نواز فیصل آباد کے ریلوے ہاؤسنگ کالونی میں پتنگ کی ڈور سے جاں بحق ہونے والے آصف اشفاق کے گھر گئے تھے۔ مقتول کی شادی قریب تھی کہ ایک روز موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے وہ بے رحم ڈور کے نرغے میں آگیا‘ گردن کٹ گئی‘ نوجوان موقع پر جاں بحق ہو گیا۔ اس کی ماں کے آنسوؤں کی تاب نہ لاتے ہوئے وزیراعلیٰ مریم نواز خود رو پڑیں۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا ''ماں جی آپ کا بیٹا تو واپس نہیں آ سکتا مگر میں آپ کے دکھ کو سمجھتی ہوں کیونکہ میں خود بھی ماں ہوں‘‘۔ مگر آج انہی کی حکومت اسی بے رحم کھیل کی بحالی کا سوچ رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے تب کہا تھا کہ پتنگ بازی خونیں کھیل بن چکی ہے اور یہ میری ریڈ لائن ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ آج یہ ریڈ لائن کون عبور کر رہا ہے؟ اور کس کے کہنے پر؟ سوال یہ بھی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ چہرے جو تعزیت میں جھکے ہوئے تھے‘ آج اس خونیں کھیل کو ثقافت کا نام دینے جا رہے ہیں؟
محدود بسنت جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایک بچہ بھی ڈور سے زخمی ہو گیا یا جان سے گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا کسی کو یاد نہیں کہ لاہور میں کتنے بچے اور جوان ڈور کے وار سے جان سے گئے یا شدید زخمی ہوئے؟ ساندہ میں چھ سالہ بچی جاں بحق ہوئی‘ تین سالہ بچہ گلے پر ڈور پھرنے سے زندگی کی بازی ہار گیا‘ ایک نوجوان اپنی بہن کی شادی کے کارڈ بانٹ کر آرہا تھا کہ پتنگ نے اس کا گلا کاٹ دیا۔ ڈور نے ایک بچے کی نہیں پورے خاندان کی گردن کاٹ دی۔ یہ کہنا کہ اب ڈور مخصوص ہوگی‘ نمبر لگے گا‘ کنٹرولڈ ایریا ہوگا‘ سب دھوکہ ہے۔ تیز دھار ڈور کی پہچان کسی رجسٹریشن سے ممکن نہیں۔ یہ کہنا کہ بسنت محدود ہو گی‘ ویسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ آگ صرف ایک کمرے میں لگے گی پورے گھر میں نہیں۔ جب پتنگ آسمان پر جائے گی ‘ خون زمین پر ضرور گرے گا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ سوال یہ ہے کہ یہ سب کس کی خواہش پر ہو رہا ہے؟ کیا کسی کی خواہش کے بدلے ماؤں کی گودیں اجاڑنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟کیا پنجاب کے باقی مسائل ختم ہو گئے ہیں؟ جو فیصلے لیے گئے ان پر عملدآمد ہو چکا کہ اب بسنت بچی ہے؟ لاہور میں آبادی بے ہنگم بڑھ رہی ہے مگر پانی‘ صفائی‘ ٹرانسپورٹ سب تباہ حال ہے۔ واسا کی ایک رپورٹ کے مطابق شہر کے 80 فیصد ٹیوب ویلوں سے غیرمعیاری پانی آ رہا ہے۔ گلیوں اور سڑکوں پر ایک سو ارب روپے لگانے کے باوجود سیوریج نظام دلدل بنا ہوا ہے۔ تجاوزات کا طوفان ہے‘ پارکنگ کا فقدان ہے‘ ٹریفک جام روز کا معمول ہے۔ ہسپتالوں میں دوائیں نایاب ہیں‘ جعلی ادویات کا کاروبار عروج پر ہے۔ جناح‘ میو‘ جنرل کسی بھی سرکاری ہسپتال چلے جائیں‘ مریض علاج کیلئے دربدر ہیں۔ ہیلتھ اینڈ پاپولیشن اور سپیشلائزڈ ہیلتھ ڈپارٹمنٹ دونوں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ سیکرٹریز اور افسران بادشاہ سلامت بنے بیٹھے ہیں۔ پروفیسرز‘ ڈاکٹرز‘ ہسپتالوں کے سربراہان ان سے ملاقات کی کوشش کرتے ہیں مگر دروازے بند رہتے ہیں۔ مبینہ کرپشن کی شکایات عام ہیں‘ مگر کارروائی صفر۔ سب ایک دوسرے پر پردے ڈال رہے ہیں۔ کیا ان بابوؤں سے بھی کوئی پوچھے گا؟ ہاں ایک کام بہتر ہوا ہے‘ لاہور نواز شریف کینسر ہسپتال کی لاگت اب 54 ارب سے بڑھا کر 72 ارب روپے کر دی گئی ہے لیکن بہت سے سرکاری ہسپتالوں میں دوا نہیں‘ لاہور سے باہر صورتحال مزید خراب ہے۔ دعوے‘ اعلانات‘ بیانات حقائق کے برعکس ہیں‘ عوام کے زخموں پر مرہم نہیں‘ مگر خونیں کھیل کی تیاری ہے۔ کیا یہ سب اس شہر کے ساتھ انصاف ہے جو (ن) لیگ کی سیاست کا گڑھ کہلاتا ہے؟
ملک پہلے ہی معاشی بحران سے گزر رہا ہے‘ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں 34 فیصد کمی آ چکی ہے۔ ہاؤسنگ افورڈیبلٹی انڈیکس 0.5 سے گر کر 0.4 پر آ گیا ہے۔ سیلابوں نے 25 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 2.75 فیصد کمی آ چکی ہے۔ تجارتی خسارہ 9.4 ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے جو سال کے آخر تک 36 ارب سے تجاوز کر سکتا ہے۔ غربت کی شرح 45 فیصد سے بڑھ چکی ہے۔ بیروزگاری عام ہے‘ مہنگائی بے قابو اور غربت بے تحاشا ‘ مگر حکومت کو پتنگ بازی کی سوجھی ہے! کیا ان حالات میں بسنت ترجیح ہو سکتی ہے؟ ایسا ملک جو سیلاب‘ مہنگائی اور بیروزگاری سے نمٹ رہا ہو وہاں پتنگ بازی کا جشن منایا جا سکتا ہے؟ کیا یہ مذاق نہیں عوام کے ساتھ؟ یہ قوم اب مزید لاشیں نہیں اٹھا سکتی۔ جو ماں اپنے بیٹے کی قبر پر بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھتی ہے‘ صرف ایک دعا مانگتی ہے‘ یا اللہ! اس آسمان پر پھر کبھی پتنگ نہ اُڑے‘ کسی کے بچے کی گردن قاتل ڈور سے نہ کٹے۔ اگر بسنت منانے کی اجازت دی گئی تو یہ تہوار نہیں ظلم ہو گا۔ کسی کی گردن کٹ گئی‘ کسی کا بچہ مر گیا‘ تو یہ خون حکمرانوں کی گردن پر ہو گا اورتاریخ یاد رکھے گی کہ جب قوم بھوک سے مر رہی تھی حکمران ٹھنڈے کمروں میں بسنت منانے کے فیصلے کررہے تھے۔
واضح رہے کہ 20 دسمبر 2018ء اور 22 جنوری 2025ء کو مفتیان (جامعہ نعیمہ) نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا کہ پتنگ بازی‘ ہوائی فائرنگ اور ون ویلنگ شرعاً ناجائز؍ غیراسلامی افعال ہیں۔ یہ انسانی جان کو خطرے میں ڈالنے والی سرگرمیاں ہیں اور جان کی حفاظت اسلامی اصولوں میں مقدم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ راغب حسین نعیمی بھی کہہ چکے ہیں کہ بسنت منانا شرعی اعتبار سے کسی صورت جائز نہیں‘ یہ خالصتاً ہندو تہوار ہے‘ اس میں اسراف‘ لہو و لعب اور خلافِ شریعت امور شامل ہوتے ہیں‘ نیز جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ تو کیا اب بھی حکومت ایکٹ میں ترمیم کر کے یہ خونیں کھیل کھیلنے کی اجازت دے گی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved