جناب آصف زرداری کی ایک مختلف تصویر میرے سامنے ہے۔ نہ صرف مختلف بلکہ حیرت انگیز بھی۔ یہ تصویر برادرم فاروق عادل کے قلم نے مصور کی ہے۔
یہ تصویر خاکوں کی ایک مجموعے میں شامل ہے۔ اس کا عنوان ہے: ''دیکھا جنہیں پلٹ کے‘‘۔ خاکہ نگاری ایک شخصی تاثر ہے۔ آپ نے کسی کو بچشمِ سر دیکھا‘ کسی کے احوال بزبانِ دیگر سنے‘ کسی کے بارے میں پڑھا۔ اس نے آپ کے ذہن کے پردے پر ایک تصویر بنائی۔ آپ کو قدرت نے قلم عطا کیا اور آپ نے اسی تاثر کو لفظوں میں بیان کر دیا۔ تاثر ہمیشہ موضوعی ہوتا ہے‘ تاہم اس میں فراہم کردہ معلومات معروضی ہو سکتی ہیں۔ راوی قابلِ بھروسہ ہو تو یہ معلومات خاکے کو ایک تاریخی حوالہ بنا سکتی ہیں۔ فاروق صاحب نے آصف زرداری صاحب کے بارے میں جو لکھا اس کا انحصار راویوں پر ہے۔ ان کے تین بڑے راوی ہیں: رفعت سعید‘ جو وائس آف جرمنی کے نمائندہ ہیں۔ امان اللہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل کراچی اور سینیٹر تاج حیدر۔ سینیٹر تاج حیدر کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا لیکن ماورائے جماعت ان کا احترام کیا جاتا تھا۔
ان راویوں کی مدد سے جناب آصف زرداری کی جو تصویر کھینچی گئی‘ میں اسے مصنف کی زبانی مگر اختصار کے ساتھ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ یہ جیل میں گزرے ایام کا ذکر ہے: ''زرداری صاحب میں ایک بات کمال کی ہے۔ وہ پہلی نظر میں ہی بھانپ لیتے کہ جیل کے کس اہلکار کی گزر بسر مشکل سے ہوتی ہے اور کس قیدی کے گھر فاقے ہوں گے‘‘۔ سینیٹر تاج حیدر نے بتایا: ان کے مطابق جیسے ہی انہیں لوگوں کے مالی مسائل کا اندازہ ہوتا‘ ان کے ساتھ ان کے حسنِ سلوک کا آغاز ہو جاتا۔ اس زمانے میں ان کی طرف سے برداشتی‘ مستحق قیدیوں اور محکمے کے نچلے درجے کے ملازمین کو تین تین ہزار روپے ماہوار دیے جاتے تھے۔ قیدیوں کو اور ان ملازمین کو جن کے گھر دور دراز ہوتے‘ وہ ہدایت کیا کرتے کہ آدھے پیسے اپنے خرچ کے لیے یہاں رکھیں اور نصف اپنے گھر والوں کو بھیج دیں۔ ایک بار انہیں خبر ہوئی کہ کسی قیدی کے گھر والے کہتے ہیں کہ اتنے پیسوں میں تو گھر نہیں چلتا۔ یہ باتیں ان کے علم میں آتیں تو وہ متعلقہ شخص کی اپنی جیب سے مدد شروع کر دیتے۔ کوئی بیمار ہو جاتا یا اس کے گھر سے کسی کی علالت کی خبر آتی یا شادی بیاہ کا معاملہ ہوتا تو وہ متعلقہ فرد کو بلوا کر ہمت بندھواتے اور جتنی اس کی ضرورت ہوتی‘ پوری کر دیتے‘‘۔
''قیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد تو ایسی ہوتی جو معمولی جرمانہ ادا کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے‘ اس وجہ سے وہ برسوں جیل میں گزار دیتے ہیں۔ میاں شمس کے مطابق ایسے قیدی سینکڑوں نہیں ہزاروں ہوں گے جن کے جرمانے ادا کرکے انہیں رہائی دلائی گئی۔ یہ سلسلہ صرف جرمانوں کی ادائیگی تک نہیں رکا‘ انہوں نے بڑے جرائم‘ خاص طور پر قتل جیسے سنگین جرائم کی وجہ سے قید و بند کے شکار خاندانوں کے درمیان صلح صفائی کرائی اور خون بہا اپنی طرف سے ادا کیا۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کی توجہ لوگوں کے انفرادی مسائل تک ہی محدود رہتی‘ جیل کے زمانے میں انہوں نے قیدیوں کی فلاح کے لیے اجتماعی اقدامات بھی کیے۔ آصف علی زرداری جن دنوں سینٹرل جیل کراچی میں بند تھے‘ جیل کی حالت بہت خراب تھی‘ خاص طور پر سیوریج سسٹم کی۔ کچھ جگہیں تو اس قدر خراب تھیں کہ گندا پانی اُبلنے لگتا تھا۔ پتا چلا کہ یہ معمولی کام نہیں۔ انگریز عہد میں تعمیر کی گئی اس جیل کا پورا سیوریج سسٹم بیٹھ چکا ہے۔ اس کی مرمت کی واحد صورت یہ ہے کہ از سر نو ڈیزائن کرکے اسے مکمل طور پر نیا تعمیر کیا جائے۔ یہ بہت بڑا منصوبہ تھا۔ یہ ذمہ داری آصف علی زرداری نے اٹھائی۔ تھوڑے ہی عرصے میں جیل کا سیوریج سسٹم معیار کے مطابق ہو چکا تھا۔
جیل سے باہر قیدیوں سے ملنے کے لیے آنے والے ملاقاتیوں کی سہولت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ بیت الخلا کی عدم دستیابی تھا۔ سینیٹر تاج حیدر کے مطابق انہوں نے سینٹرل جیل کے باہر اٹھارہ بیس بیت الخلا بھی تعمیر کرائے۔ کراچی سینٹرل جیل کے کچن کی حالت بہت خراب تھی۔ سابق جیل اہلکار نذیر شاہ نے بتایا: ''جیل انتظامیہ نے کچن کی مرمت کی ذمہ داری مجھے سونپ تو دی لیکن مرمت ہوتی کیسے؟ وسائل ہی نہیں تھے۔ زرداری صاحبان اُن دنوں جیل میں تھے۔ انہیں خبر ہوئی تو بلا کر تفصیلات پوچھیں‘ پھر سینیٹر اسلام الدین شیخ کو بلا کر کام سمجھایا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے جیل کے کچن کی تعمیر نو ہو گئی اور نیا روٹی پلانٹ بھی لگ گیا۔ ان کی قید کے زمانے میں جیل کی بعض بیرکوں‘ خاص طور پر پھانسی گھاٹ کی بیرکوں کی حالت بہت خراب تھی۔ ان کی تعمیر و مرمت بھی آصف علی زرداری نے کرائی‘‘۔
''ایک بار سینٹرل جیل کراچی میں قید کے زمانے میں لوڈ شیڈنگ عروج پر تھی۔ آصف علی زرداری کو پنکھا یا ایئر کنڈیشنر چلانے کے لیے جنریٹر کی سہولت حاصل ہو سکتی تھی۔ اپنے لیے جنریٹر کا انتظام کرتے ہوئے انہوں نے سوچا کہ دیگر قیدیوں کا کیا قصور ہے‘ چنانچہ انہوں نے پوری جیل کے لیے جنریٹر لگوائے اور ان کے لیے ایندھن کا انتظام بھی خود کیا۔ جس زمانے میں وہ کوٹ لکھپت جیل میں بند تھے‘ وہاں مسجد کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا۔ جیل انتظامیہ نے آصف علی زرداری کی جیل یاترا کو موقع غنیمت جانا اور سوچا کہ اگر ان سے پانچ دس لاکھ روپے یکمشت مل جائیں تو تعمیر میں آسانی ہو جائے گی۔ آصف علی زرداری کا خیال تھا کہ اس طرح رقم جمع کرتے کرتے تو بہت تاخیر ہو جائے گی لہٰذا انہوں نے جیل انتظامیہ کو مشورہ دیا کہ وہ مسجد کا ایک بینک اکاؤنٹ کھلوا دیں۔ اکاؤنٹ کھل گیا تو انہوں نے اپنے احباب میں شامل صاحبانِ ثروت کو ترغیب دی کہ وہ مسجد کی تعمیر کے لیے اپنے عطیات اس اکاؤنٹ میں جمع کرائیں۔ تھوڑے ہی عرصے میں ایک بہت بڑی رقم جمع ہو گئی اور جیل میں مسجد تعمیر ہو گئی۔
ایک روز جیل میں ان نوجوانوں کا ذکر چلا جو کسی بدقسمتی یا کسی حادثے کی وجہ سے جیل جا پہنچتے ہیں تو پکے مجرم بن کر باہر نکلتے ہیں۔ دورانِ گفتگو یہ تجویز سامنے آئی کہ اگر پڑھے لکھے قیدیوں کی پیشہ ورانہ تربیت کا کوئی انتظام ہو سکے تو اس رجحان میں کمی ہو سکتی ہے۔ تاج حیدر کے مطابق یہ خیال آصف علی زرداری کو آیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں انہوں نے جیل کے اندر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک انسٹیٹیوٹ تعمیر کرا دیا جس کا الحاق کراچی یونیورسٹی کے ساتھ کرایا گیا‘‘۔
''جیل میں آصف علی زرداری کا تعلق جس سے بھی قائم ہوا‘ ہمیشہ برقرار رہا۔ کوئی قیدی یا اہلکار ان کی رہائی کے بعد بھی کسی ضرورت کے لیے ان کی طرف گیا‘ خوشی خوشی لوٹا۔ لاہور جیل سے پیشی کے لیے انہیں کراچی لے جایا جاتا تو ایئر پورٹ پر جیل پولیس اہلکار ان کا بورڈنگ کارڈ حاصل کرتا اور بساط بھر ان کا خیال رکھا کرتا۔ آصف زرداری صدر بن گئے تو وہی سپاہی کسی کام کے لیے ایوانِ صدر جا پہنچا‘ جیسے ہی انہیں اطلاع ملی کہ ایئر پورٹ والا اہلکار آیا ہے تو فوراً اسے اپنے پاس بلایا اور اس کے دو بیٹوں اور ایک داماد کے لیے ملازمت کا انتظام کر دیا۔ بہت سے قیدی اور جیل ملازمین اپنے مسائل کے حل کے سلسلے میں آج بھی ان سے رابطے میں رہتے ہیں‘‘۔
کیا آصف زرداری صاحب کی یہ تصویر اس سے پہلے کسی نے آپ کو دکھائی؟ اس کتاب میں اس طرح کی بہت سی نایاب تصاویر جمع ہیں۔ کم و بیش ہر صفحے پر حیرت کا ایک نیا باب کھلتا چلا جاتا ہے۔ اس حیرت کدے میں داخل ہونے کے لیے آپ کو یہ کتاب پڑھنا پڑے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved