ویسے تو دل اکثر یہی کرتا ہے کہ موجودہ حالات‘ سیاسی دھما چوکڑی‘ الزامات اور بدکلامی کے ماحول اور ہمہ وقتی پریشان کن صورتحال سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ان چیزوں سے ہٹ کر کالم لکھا جائے لیکن ضروری نہیں کہ ہر خواہش پوری ہو جائے۔ فقیر کی اس خواہش اور تکمیل کے درمیان بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔ لیکن بیشتر نہ سہی‘ کبھی کبھار ہی سہی‘ میرا دل ایسے کالم لکھنے کوکرتا ہے جس کے بارے میں مجھے گمان گزرتا ہے کہ ممکن ہے اس کالم کا واحد قاری بھی خود میں ہی ہوں گا۔ تاہم میں اس قاری کو بھی غنیمت سمجھتا ہوں (کئی لکھنے والوں کو یہ بھی میسر نہیں ہوتا) اور اس ایک قاری کی خوشی کی خاطر اس قسم کا کالم لکھ دیتا ہے۔ آج کا یہ کالم بھی ایسا ہی ہے۔
ڈیڑھ مہینہ گزرتا ہے کہ میں ملتان موٹروے پر گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ عبدالحکیم انٹر چینج سے تھوڑا پہلے موٹروے کے عین درمیان میں کوئی جانور کچلا پڑا تھا۔ میری نظر اس پر عین اس وقت پڑی جب میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ سمجھ نہ آئی کہ کون سا جانور ہے کیونکہ کچلے جانے کے بعد وہاں صرف خون اور گوشت کا ملغوبہ سا پڑا ہوا تھا۔ ابھی دو چار کلو میٹر ہی گیا تھا کہ اسی طرح کا ایک اور قیمہ بنا ہوا جانور موٹر وے کے عین درمیان میں پڑا ہوا تھا۔ چند گز آگے پھر یہی کچھ تھا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اب مجھے باقاعدہ تشویش شروع ہو گئی۔ابھی میں مزید تین چار کلو میٹر ہی گیا ہوں گا کہ ساتھ ساتھ دو عدد کچلے ہوئے جانور دکھائی دیے۔ میں نے گاڑی ایک سائیڈ پر روکی اور اتر کر جائزہ لیا۔ یہ دو عدد کچھوے تھے جو سڑک پار کرتے ہوئے کسی گاڑی کے نیچے آکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ مجھے ساری بات سمجھ میں آ گئی۔ یہ دریائے راوی اور نکاسو کے آس پاس کا علاقہ تھا جو سیلابی پانی کی زد میں تھا۔ سیلاب کا پانی موٹروے کے دونوں اطراف میں دکھائی دے رہا تھا۔ اس جگہ پر کبھی کبھار پہلے بھی کچھوے دکھائی دیتے تھے مگر ان دنوں سیلابی پانی کیساتھ آنیوالے ان کچھووں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہ موٹروے کا ایم فور سیکشن ہے جو ملتان سے عبدالحکیم تک ہے‘ اسکے بعد پنڈی بھٹیاں تک یہ سیکشن ایم فور ہی رہتا ہے جبکہ عبدالحکیم سے لاہور والا سیکشن ایم تھری ہے۔ کچھوے اس بات سے بے خبر تھے کہ وہ اس ٹول ٹیکس والی سڑک پر ٹول ٹیکس کی ادائیگی کی بغیر اس طرح مٹر گشت نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے تئیں موٹروے کو عبور کرکے دوسری طرف رہنے والے اپنے بھائی بند کچھووں سے ملنے کی غرض سے اُدھر آ رہے تھے اور اپنی جان‘ جان آفرین کے سپرد کر رہے تھے۔
مجھے لاہور جانا تھا لیکن مجھے اس کام کی کوئی خاص جلدی بھی نہیں تھی۔ صبح کے وقت موٹروے کے اس سیکشن پر ٹریفک گو کہ معمول سے بہت کم تھی مگر سڑک پار کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے سست رفتار کچھووں کے مرنے کے امکانات اس کم ٹریفک کے باوجود بہت زیادہ تھے۔ وجہ صاف ہے کہ کچلنے والوں کی رفتار سڑک پار کرنیوالے ان معصوموں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ میں نے اب گاڑی تھوڑا محتاط انداز میں چلانا شروع کر دی۔ آگے تھوڑی دور ایک کچھوا موٹروے کے بائیں کنارے پر ہارڈ شولڈر کے ساتھ ساتھ چلتا جا رہا تھا۔ میں نے گاڑی سائیڈ پر لگائی اور اسے اٹھا کر سڑک سے نیچے اترا‘ اس کا منہ موٹروے کی مخالف سمت کرکے چھوڑا اور کہا: جا کچھو کمے تیرا اللہ حافظ۔
آگے ایک اور کچھوا موٹروے کے درمیان لگے ہوئے کنکریٹ کے ڈیوائڈر کے ساتھ ساتھ جا رہا تھا۔ گاڑی روکی اور ادھر ادھر دیکھا۔ دور دور تک ٹریفک دکھائی نہ دی تو جلدی سے سڑک پار کرکے اسے اٹھایا اور واپس اسی طرح نیچے ڈھلوان میں جا کر چھوڑ دیا۔ مجھے علم تھا کہ موٹروے پر اس طرح بے احتیاطی مناسب نہیں لیکن ان معصوموں کو اس طرح مرنے کیلئے چھوڑنے پر بھی دل راضی نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ میں نہ تو سب کو بچا سکتا ہوں اور نہ ہی ان کیلئے کوئی مستقل بندوبست کر سکتا ہوں مگر میں جو کچھ کر سکتا ہوں مجھے وہ تو کرنا چاہیے۔ ہم ہر کام دوسروں کے کرنے کیلئے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر بھاشن دیتے ہیں یا کڑھتے رہتے ہیں کہ کسی کو احساس نہیں اور کوئی شخص اپنا کام کرنے کو تیار نہیں۔ بجائے اس کے کہ ہم کسی کام کیلئے دوسروں سے امید باندھیں‘ زیادہ مناسب یہی ہے کہ اپنے حصے کا کام سرانجام دیا جائے اور بطور شہری اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوا جائے۔
مجھے دیگر ممالک میں بھی ہائی ویز‘ فری ویز اور موٹر ویز پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہاں ایسی جگہوں پر جہاں سے جانوروں نے گزرنا ہوتا ہے‘ باقاعدہ اطلاعی اور تنبیہی بورڈ لگے ہوتے ہیں جن پر اس جانور کی تصویر لگی ہوتی ہے‘ جس سے علم ہو جاتا ہے کہ اس جگہ سے یہ جانور گزرتے ہیں۔ وہاں ڈرائیور اپنی گاڑیوں کی رفتار نہ صرف کم کر لیتے ہیں بلکہ مزید احتیاط کرتے ہوئے کسی جانور کو سڑک کنارے دیکھ لیں تو گاڑی روک لیتے ہیں۔ مجھے خود دو تین بار اپنی آنکھوں سے ایسا دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا کہ کوئی جانور سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا تو ٹریفک باقاعدہ رک گئی اور سب لوگ بڑے سکون کے ساتھ ان کے سڑک پار کرنے کے منتظر رہے اور جب وہ خود بحفاظت سڑک پار کر گئے تب جا کر لوگوں نے اپنی گاڑیوں کو حرکت دی۔ یہ دو طرفہ تعاون کی مثال ہے‘ جہاں حکومت نے انتباہی بورڈ لگا کر اپنی ذمہ داری پوری کی وہیں رواں ٹریفک نے اس بورڈ کے انتباہ پر اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے رفتار بھی آہستہ کی اور گزرنے والے جانوروں کے حقِ چہل قدمی کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے گزرنے کا انتظار بھی کیا۔
ادھر یہ عالم ہے کہ نہ موٹروے کے اس سیکشن پر کچھووں کے گزرنے سے متعلق کوئی بورڈ لگا ہوا تھا‘ نہ ہی سڑک کے نیچے سے ان کے گزرنے کیلئے کوئی راستہ بنایا گیا تھا اور نہ ہی ڈرائیور حضرات اپنی رفتار دو چار کلو میٹر کم کرنے پر تیار تھے۔ نتیجہ مرے ہوئے کچھووں کی صورت میں جگہ جگہ بکھرا پڑا تھا۔ اس سیکشن پر اگر چند میل تک ہارڈ شولڈر کے ساتھ موٹروے کے انتہائی بائیں کنارے پر محض نو دس انچ کی حفاظتی رکاوٹ بنا دی جائے تو کچھوے اس کو عبور نہیں کر پائیں گے اور اس دیوار کے باعث بالاآخر دوبارہ نیچے اتر کر اپنی راہ لیں گے لیکن ہماری ترجیحات ابھی انسانوں کے بارے میں اس معیار پر نہیں پہنچ سکیں جہاں انہیں کم از کم ہونا چاہیے تھا‘ کجا کہ کچھووں کیلئے کچھ کیا جائے۔
موٹروے کے ساتھ ساتھ لگی ہوئی خار دار حفاظتی باڑ بلا مبالغہ بیسیوں جگہوں سے کاٹی جا چکی ہے اور دونوں اطراف کے لوگ بلا روک ٹوک موٹروے عبور کرکے آر پار آتے جاتے رہتے ہیں۔ ارد گرد سے کتے اور بعض اوقات بھیڑ بکریاں تک موٹروے پر دکھائی دیتی ہیں۔ کناروں پر لگے ہوئے آہنی گارڈرز بسوں اور ٹرکوں کے ٹکرانے سے جہاں بھی ٹوٹے ہیں دوبارہ مرمت نہیں ہوئے۔ ہارڈ شولڈر کا جو حصہ بارش کی وجہ سے بیٹھ گیا ہے تو وہ مہینوں سے مرمت نہیں ہوا۔ شام کے قریب ارد گرد کے دیہات سے نوجوان موٹروے کے کنارے پر بیٹھ کر خوش گپیاں کرتے اور سگریٹ کے مرغولے اڑاتے ہیں۔ چھوٹے ریسٹ ایریاز والوں نے دائیں بائیں سے باڑ کاٹ کر اپنی اشیائے ضرورت کی فراہمی آسان بنائی ہوئی ہے اور وہاں کچرے سے بچی کھچی خوراک کے حصول کیلئے بلیوں اور کتوں نے ڈیرے لگا رکھے ہیں۔ مجھے علم ہے کہ جس ملک میں انسانی جان کی رتی برابر قیمت نہ ہو وہاں موٹروے کے کچھووں پر لکھنا نہایت ہی واہیات اور فضول کام ہے۔ لیکن کیا کریں‘ اس ملک میں اور کون ہے جو اپنا کام ٹھیک انداز میں سرانجام دے رہا ہے؟ کون سا محکمہ‘ ادارہ اور افسر وہ کام کر رہا ہے جس کی اسے ذمہ داری سونپی گئی ہے؟ کیا حکمران وہ کر رہے ہیں جس کا انہوں نے عوام سے وعدہ کیا تھا؟ کون ہے جو اپنا کام ڈھنگ سے کر رہا ہے۔ اگر ان میں مَیں بھی شامل ہو گیا ہوں تو اس میں حیرانی یا اعتراض کی کیا بات ہے؟کبھی کبھی ایسے کالم بھی برداشت کیجئے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved