تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     24-10-2025

بلوچستان … Call Attention Notice

بات 1948ء کے بعد تفریق سے شروع ہوئی تھی‘ جو بڑھتے بڑھتے تشکیک تک جا پہنچی۔ اس کے باوجود کوئی بھی آواز سننے کے لیے تیار نہ تھا۔ نہ ہی یہ سمجھنے کے لیے کہ محرومیوں کی آوازیں کیوں اُٹھ رہی ہیں؟ جوں جوں وقت گزرتا گیا‘ ایک کے بعد ایک طاقتور نظام کے دعوے کرنے والے مسلط ہوتے گئے‘ جو عوام کی آواز کو نظر انداز کرکے ہر مسئلے کا حل طاقت سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ ابھی آج کی بات ہے کہ افغانستان کے ساتھ کشیدگی کے دوران ہمیں بتایا گیا کہ ہارڈ سٹیٹ گفتگو پر یقین نہیں رکھتی۔ جنگجوئی بہتر پالیسی ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جنگی فتوحات عوامی مفاد میں ہوتی ہیں۔ اس دوران ملک کے اندر سے کچھ معقول آوازیں ''ڈسپیوٹ ریزولوشن‘‘ کے حق میں اٹھنے لگیں۔ انہیں چُپ کروا کے من مرضی کا بیانیہ بیچنے کے لیے وطن دشمنوں کے دوست والے سرٹیفکیٹ اور غداری کے فتوے سرکاری اور درباری حلقوں نے جاری کر دیے۔ لیکن سچ کو آنچ نہیں ہوتی‘ ان فتووں کی سیاہی سوکھنے سے پہلے ہی وہ فون آگیا جس نے آنا تھا۔ فارم 47 نظام کے پارے کو ٹھنڈ پڑ گئی‘ جس کے نتیجے میں وہ ''بائی لیٹرل‘‘ مسئلہ جو اسلام آباد یا پھر کابل میں بیٹھ کر آسانی سے حل ہو سکتا تھا‘ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طاقت کے مرکز میں نمٹایا گیا۔ اب یہ بھی کوئی بتانے والی بات ہے کہ دنیا بھر میں راج نیتی مسئلے کے حل سے پہلے ایک ابتدائی مرحلے کا تقاضا کرتی ہے۔ ایسی شروعات کو انگریزی میں CBM اور اُردو میں اعتماد سازی کے اقدامات کہا جاتا ہے۔ وہ اعتماد سازی جس کے فقدان نے ہم سے ہمارا مشرقی بازو کٹوا کر رکھ چھوڑا۔ سقوطِ ڈھاکہ اور سانحہ مشرقی پاکستان پر صاحبِ درد شاعر مشیر کاظمی نے کہا تھا:
کچھ تمہاری نزاکت کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں ہوتی گئیں دوریاں
پاکستان کی اقتدار پرست اشرافیہ طاقت کو پوجا کا مرکز سمجھتی ہے جبکہ محبت‘ برداشت‘ حوصلہ اور ڈائیلاگ کو بزدلی‘ کمزوری‘ پسپائی اور رسوائی گردانا جاتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمیشہ منہ کی کھانے کے بعد طاقت کا زعم غبارے کی ہوا سے بھی پہلے نکلتا ہے‘ لیکن تب‘ جب حقیقت کا ادراک کرنے میں بہت دیر ہو چکتی ہے۔ میں پہلے بطور وزیر پارلیمانی امور اور پھر وفاقی وزیر قانون و انصاف کی حیثیت سے آغازِ حقوقِ بلوچستان کمیٹی کا جنرل سیکرٹری رہا ہوں ۔ اس قومی کمیٹی کی صدارت براہِ راست صدرِ مملکت کے پاس تھی۔ اس لیے میں آپ کو پوری ذمہ داری سے بتا سکتا ہوں کہ ہماری اقتدار پرست اشرافیہ نے یہ طے کر رکھا ہے کہ نہ تاریخ سے سبق سیکھنا اور نہ ہی ہمیں شکست و ریخت کی کوئی پروا ہے۔ ویسے بھی اگر آپ پولیٹکل سائنس کے ابتدائی نظریات اور نیشن سٹیٹ کے بعد کی پالیسیوں پر نظر ڈالیں تو یہ کل اور آج کی متفقہ تاریخ ہے کہ Time is of Essence۔ یعنی وقت کی نزاکت مسائل کے حل کی روح ہے۔
ذکر ہو رہا تھا آغازِ حقوقِ بلوچستان کمیٹی کا جس میں بلوچستان کی نمائندگی سردار لشکری رئیسانی اور کچھ اہلِ علم و ہنر کے ہاتھوں میں تھی۔ میں نے ٹاسک کی قومی اہمیت اور فوری نوعیت کے پیشِ نظر کمیٹی میں پہلے قدم کے طور پر تجویز رکھی۔ اعتماد سازی کے نظریے کی اہمیت کے پیشِ نظر تجویز یہ تھی کہ ہمیں آغازِ حقوقِ بلوچستان کمیٹی کے سلسلے کا پہلا اجلاس اسلام آباد کے بجائے کوئٹہ میں منعقد کرنا چاہیے۔ جس کے جواب میں کمیٹی سیکرٹریٹ کے سرکاری ملازم عہدیداروں نے فوراً چیف منسٹر ہاؤس اور گورنر ہاؤس یا پھر بلوچستان صوبائی اسمبلی کی بلڈنگ کے اندر کمیٹی روم کو پبلک ہیئرنگ کے مقام کے طور پر تجویز کر دیا۔ میں نے اس بیورو کریٹک تجویز کو فوراً اوور رُول کر دیا۔ کہا: ہمیں جناح روڈ پر کوئٹہ شہر کے وسط میں واقع بلوچستان پریس کلب کے آڈیٹوریم میں اجلاس منعقد کرنے چاہئیں‘ جہاں شکایت کرنے والوں یا مسئلے کا حل بتانے والوں کو آسانی سے رسائی مل سکے۔
اس موقع پر میں آپ سے پاکستان کے فیصلہ سازوں کی پکّی عادتِ ثانیہ شیئر کرنا چاہوں گا۔ آپ اسے ریاست کی طے شدہ پوزیشن یا پالیسی بھی کہہ سکتے ہیں۔ جوں ہی پبلک یا اکیڈیمیا یا سیاسی کارکنوں کو ریاستی‘ عوامی یا کسی قومی ایشو پر پالیسی سازی میں شامل کرنے کی بات کی جائے‘ فیصلہ ساز فوراً اپنی اتھارٹی جھاڑنے کے لیے اونچی آواز میں بات کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پھر طے شدہ پالیسی کے نیچے عوام کی اختیار تک پہنچنے کی مشق کو سکیورٹی رِسک قرار دے دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اکثر خوفزدہ سیاست کار پالیسی سے توبہ کر لیتے ہیں اور عوامی شکایات سننے کے لیے اجلاس کسی بند حویلی کے ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں چلا جاتا ہے۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا‘ مگر اس موقع پر لشکری رئیسانی نے میرے ساتھ سٹینڈ لیا۔ چنانچہ تین روز تک ہم دونوں نے بلوچستان پریس کلب کے آڈیٹوریم میں شعلہ نوا صحافیوں‘ ناراض سیاسی قوتوں اور وہ جنہیں وطن کا سب سے زیادہ درد تھا‘ مگر اختیارِ وطن والے ان سے بے دردی کا سلوک کرتے تھے‘ سب کو سنا۔ کمیٹی کے تمام اجلاسوں کے منٹس تحریر ہوئے‘ جنہیں واپس آکر ایک ہفتے کے اندر اندر عوامی رائے کے مطابق سفارشات تیار کرکے عملدرآمد کے پراسیس کو شروع کردیا گیا۔ اس ساری مشق کا ریکارڈ آج بھی صدر ہاؤس کے سکرٹریٹ اور کیبنٹ ڈویژن میں محفوظ ہے۔ اسی کمیٹی کی سفارشات کی وجہ سے پہلی بار وفاق میں وہ 35 ہزارسرکاری ملازمتیں‘ جو بلوچستان کے کوٹے کی تھیں‘ بلوچستان میں اسلام آباد کے بیورو کریٹ بھجوا کر اور عمر کی حد 29 سال سے بڑھا کر 35 سال کرکے ان میں جائز حقداروں کی بھرتیاں کی گئیں۔ پہلے ہوتا یہ تھا کہ بلوچستان کے کوٹے پہ بھرتی کا اشتہار لاہور یا پنڈی کے اخبار میں چھپتا تھا۔ ریکروٹمنٹ کمیٹی کو بتایا جاتا تھا کہ کوئی امیدوار بلوچستان سے اس عہدے کے لیے نہیں پہنچا۔ پھر اسے یا فائلوں میں دبا دیا جاتا یا پھرکسی کو Contingency Employmentیا کنٹریکٹ پر اس عہدے پر ملازمت دے دی جاتی۔
کہنا یہ تھا کہ بلوچستان کا Call attention notice فوری توجہ چاہتا ہے۔ سب کو اسلحہ بردار دشمن نہ سمجھا جائے۔ بلوچستان کی آواز سنے بغیر فرضی‘ نقلی‘ جعلی‘ گودی اور ٹوڈی حکومتیں کبھی پارٹ آف سلوشن نہیں بن سکتیں۔ نو سربازی خود پارٹ آف پرابلم ہوتی ہے۔ بلوچستان زبانِ حال سے کہہ رہا ہے:
زندگی دھوپ کا میدان بیٹھی ہے
اپنا سایہ بھی گریزاں‘ ترا داماں بھی خفا
رات کا روپ بھی بے زار‘ چراغاں بھی خفا
صبحِ حیراں بھی خفا‘ شامِ حریفاں بھی خفا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved