تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     24-10-2025

غزہ کا سائنسدان، نوبیل انعام اور پاکستان

الحمدللہ! غزہ کو امن دیکھنا نصیب ہوا۔ اللہ رحمان سے دوام کیلئے دعا ہے۔ اسی دوران نوبیل انعامات کا اعلان ہوا تو غزہ سے تعلق رکھنے والا سائنسدان علمی دنیا کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ اس سائنسدان کا نام ''Omar Mwannes Yaghi‘‘ ہے۔ یہ امریکہ میں رہتے ہیں‘ کیلیفورنیا یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ جس ریسرچ پر انہیں انعام سے نوازا گیا وہ یہ ہے کہ فضا سے پانی حاصل کیا جائے گا۔ اس پانی سے صحرا لہلہا اٹھیں گے۔ زمین پر ٹیوب ویلز زمین سے پانی حاصل کرتے ہیں مگر یوں سمجھیں کہ فضائی ٹیوب ویل فضا سے پانی حاصل کر کے زمین کی پیاس بجھائیں گے۔ صحرا زرعی رقبے میں بدل جائیں گے۔ صحرائوں میں فصلیں‘ باغات اور دیہات ایک نئے انداز سے وجود میں آئیں گے۔ دوسری ریسرچ کا حاصل یہ ہے کہ دھاتوں کے ایٹموں میں رد وبدل کر کے ایسا اسفنج تیار کیا گیا ہے کہ چمچ برابر مقدار کا حامل یہ اسفنج فضا میں اس قدر آلودگی کو اپنے اندر جذب کر لے گا جس قدر ایک ایکڑ رقبے میں ہوتی ہے۔ یعنی ایک ایکڑ زمین کے اوپر جو فضا ہے اس میں سموگ‘ پٹرول‘ کوئلے اور بارود کی آلودگی اور صنعتی آلودگی وغیرہ‘ یہ اس آلودگی کو صاف کرے گا۔ اسفنج کی مقدار بڑھتی جائے گی تو ہمارے شہروں اور دیہات کی فضا صاف ہوتی جائے گی۔ جی ہاں! اسی آلودگی کو کسی اور کام میں لا کر انسانیت کیلئے مفید بنایا جائے گا۔ سبحان اللہ! قرآن مجید نے کیا خوب فرمایا ''اے ہمارے رب! آپ نے یہ جہان پیدا فرمایا تو اس میں کچھ بھی بے مقصد نہیں بنایا لہٰذا ہمیں آگ کی سزا سے بچا لے‘ آپ کی ذات ہی عیبوں سے پاک ہے‘‘ (آل عمران: 191)۔ قارئین کرام! غزہ کو جنم بنانے کی دھمکیاں دینے والے مزید جنم نہ بنا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے بارود کی آگ سے غزہ کو بچا لیا۔ اہلِ دنیا کو بتا بھی دیا کہ غزہ کے ایک مہاجر نے انسانیت کو دو تحفے دیے‘ غزہ پانی کی فراوانی سے شاداب بھی ہو جائے گا اور اس کی فضائوں میں زہریلے بارود کو بھی صاف کر دیا جائے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ فلسطینی سائنسدان کون ہے؟
عمر یاغی کے ماں باپ غزہ کے ایک گائوں میں رہتے تھے۔ 1948ء میں اسرائیل نامی ناجائز ریاست معرض وجود میں آئی تو یاغی خاندان کو مہاجر بننا پڑا۔ اردن کے دارالحکومت عمان کے نواح میں کیمپ کے اندر اس خاندان کو ایک کمرہ مل گیا جس میں بجلی تک نہ تھی۔ یاغی فیملی اور ان کے مویشی اس کمرے میں اکٹھے رہتے تھے۔ اسی کمرے میں 1965ء میں عمر یاغی پیدا ہوئے۔ ماحول بھی آلودہ تھا اور پانی بھی صاف نہ ملتا تھا۔ والد صرف چھ جماعتیں پاس تھے جبکہ والدہ ان پڑھ تھیں۔ عمر سکول جانے لگ گیا۔ کیمسٹری میں اس کی فطری دلچسپی تھی۔ پانچویں جماعت میں اسے کیمسٹری کی ایک کتاب کہیں سے مل گئی جو اس نے مزے مزے میں ساری پڑھ ڈالی۔ بہرحال! اپنی ذہانت کی بنیاد پر وہ امریکہ چلے گئے جہاں سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی اور اب تین سائنسدانوں کو مشترکہ طور پر کیمسٹری کا نوبیل انعام 2025ء دیا گیا۔ دوسرے سائنسدان آسٹریلیا میں میلبورن یونیورسٹی کے جناب رچرڈ روبسن ہیں۔ تیرے کیوٹو یونیورسٹی جاپان سے ہیں۔ ان کا نام Susumu Kitagawa ہے۔ یہ تینوں سائنسدان مختلف براعظموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تینوں نے اپنی تحقیقات کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے آگے بڑھایا اور مشترکہ طور پر انعام حاصل کیا۔ تینوں ہی انسانیت کی فلاح کا سہرا ہیں۔ کیا خوب لکھا ہے رحمت دو عالم حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہونے والے قرآن میں: ''اللہ نے آسمان سے (بادلوں کے ذریعے) پانی برسایا تو وادیاں اپنی اپنی گنجائش کے مطابق بہہ نکلیں۔ اس پانی کی جو جھاگ تھی وہ سطح پر آ گئی۔ ایسا ہی جھاگ اس وقت بھی سطح پر آتا ہے جب زیور یا اوزار وغیرہ بنانے کے لیے دھاتوں کو آگ پر گرم کیا جاتا ہے۔ اس (پراسیس سے) اللہ حق اور باطل کی مثال واضح کرتا ہے کہ جھاگ ختم ہو جاتی ہے اور (وہ پانی) جو انسانیت کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین پر (ایسے) ٹھہرتا ہے (کہ زمین گل وگلزار بن کر ماحول کی بہتری اور رزق کی فراوانی کا باعث بن جاتی ہے) اللہ ایسے ہی مثالوں کے ذریعے سمجھاتا ہے‘‘ (الرعد: 17)۔ اللہ اللہ! مندرجہ بالا آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ سمجھاتے ہیں کہ زمین پر وہی کارنامہ جگہ اور پڑائو حاصل کرتا ہے جو انسانیت کیلئے مفید ہوتا ہے۔ تینوں سائنسدانوں کا کارنامہ آٹھ ارب انسانوں اور تمام روئے زمین کیلئے مفید ہے۔ یہ کارنامہ پرندوں‘ مچھلیوں اور تمام جانداروں کیلئے بھی مفید ہے۔ اس کارنامے کی عظمت ورفعت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اہلِ وطن کا حال تو یہ ہے کہ احتجاج کرتے ہیں تو سڑکیں بند کر دیتے ہیں‘ درختوں اور گاڑیوں کو آگ لگا دیتے ہیں‘ ٹائروں کو جلا کر آلودگی پھیلاتے ہیں۔ افسوس ہے سالہا سال کی حکمرانی پر کہ ہمارے حکمران اپنی قوم کی ایسی تربیت بھی نہیں کر سکے جو ہمیں مہذب شہری بنا دے۔ پوری دنیا میں شاید ہم ہی ایسی انوکھی قوم ہیں جو کرایہ دار بن کر مکانوں پر قبضہ کرتے ہیں۔ مزارع بن کر زرعی اراضی کے ناجائز مالک بن بیٹھتے ہیں۔ دکانوں سے ایسے قبضے کرتے ہیں کہ دکانوں کو آگے بڑھا کر فٹ پاتھوں پر قبضہ کرتے کرتے سڑک تک چلے جاتے ہیں۔ مزید جو جگہ بچتی ہے اس پر ریڑھیاں لگوا لیتے ہیں اس کا بھی کرایہ حاصل کیا جاتا ہے۔ محکموں کے لوگ آتے ہیں تو ناجائز کمائی سے انہیں بھی حصہ دے دیا جاتا ہے۔ ٹریفک کیلئے راستے تنگ ہو جاتے ہیں‘ ٹریفک سست رفتار اور جام ہو جاتی ہے۔ حادثات اس کے علاوہ ہیں۔ بڑھتے اور پھیلتے شہروں کیلئے جو بائی پاس بنائے جاتے ہیں‘ ان کے اردگرد کمرشل ایریا بن جاتا ہے۔ چند سالوں بعد یہ بائی پاس بھی تقاضا کر رہا ہوتا ہے کہ اب اس کے اردگرد مزید بائی پاس بنا دیا جائے۔ ہماری حکمرانی کا ویژن اور مینجمنٹ کسمپرسی سے دوچار ہے۔ قرآن مجید کی مثال کو سامنے رکھیں تو ہمارے شہری اور دیہی معاشروں پر جھاگ تہہ بہ تہہ موٹی ہوتی جا رہی ہے۔
ہماری سیاست بھی اس زمینی مافیا کا شکار ہے۔ اسی مافیا سے مال بنایا جاتا ہے اور الیکشن لڑا جاتا ہے۔ فراٹے بھرتی پُرتعیش گاڑیاں‘ ڈبل کیبن ڈالے وغیرہ سیاسی وڈیرے کے ہمراہ نہ ہوں تو پھر الیکشن مہم کیسی۔ لوگ اس لیے ہمراہ ہوتے ہیں کہ زندگی میں کسی طاقتور سے واسطہ پڑ گیا تو کس کے پاس جائیں گے؟ تھانہ اور کچہری میں گھیسٹ لیا گیا تو کیا کریں گے؟ یوں جس نظام نے ہمیں اخلاق کی بلندیوں پر لے جانا تھا وہ جھاگ بن گیا۔ دنیا میں جس بھی ملک نے ترقی کی ہے‘ وہ شاندار بلدیاتی نظام کا حامل ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں اس نظام کی دشمن ہیں۔ قائم ہو جائے تو یہ نظام اختیارات سے تہی دامن ہوتا ہے۔ یعنی ہماری بنیادی اور اساسی جمہوریت جھاگ کا شکار ہے۔ قوم پرست جماعتیں سیاست میں آئیں تو اسی بیماری کا شکار تھیں۔ مذہبی سیاسی جماعتیں سیاست میں آئیں تو ایک دو چھوڑ کر وہ بھی اسی کیچڑ میں دھنس گئیں۔ محکمہ خوراک کو دیکھو تو وہ بھی خوراک چیک کرنے کے بہانے مال بنانے اور اچھے کھانے کیلئے کارروائیاں کر رہا۔ عدلیہ کو دیکھو تو انتہائی طویل اور مہنگا پراسیس کہ جس میں انسانیت سسک سسک کر مرتی جا رہی ہے۔ مجال ہے جو کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگ جائے؟ ٹیکس کے محکمے کوئی تین درجن کے قریب ہوں گے مگر کارکردگی ندارد۔ بجلی کی کمپنیاں صنعتوں کو ادھ موا کر چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاک وطن کا دفاع مضبوط ہے۔ حوصلہ اس قدر پاکستانی قوم کا بلند ہوا ہے کہ ہماری افواج بیرونی محاذوں اور اندرونی شورشوں کے خلاف بیک وقت عہدہ برآ ہو سکتی ہے۔ یہ خوشی اور اطمینان کی صورتحال ہے۔ ہمارے بعض حکمران ایسے بھی ہیں کہ جن کو جھاگ خشک کرنے کی فکر ہے۔ وہ کوشاں بھی ہیں مگر گزارش یہ ہے کوشش اور جدوجہد بنیادی سطح سے اور تیز ہو کیونکہ 25 کروڑ کے معاشرے کو ایک قابلِ برداشت اور حوصلہ مند معاشرہ بنانا ہے۔ فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی آگ کو بھی بجھانا ہے۔ اللہ کرے کہ جھاگ جلد بیٹھے تاکہ عسکری قد کے ساتھ پاک وطن کے معاشرتی اور معاشی قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved