افراد کے بارے میں رائے قائم کرتے وقت جتنی احتیاط چاہیے‘ ہم اتنے ہی بے باک ہیں۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے‘ سماج مگر نیتوں سے نہیں اعمال وافعال سے متاثر ہوتا ہے۔ کسی کی بدتمیزی اور بدگوئی کے لیے یہ جواز بے معنی ہے کہ 'دل کا بڑا اچھا ہے‘۔ دل کا معاملہ وہ جانے اور اس کا پروردگار۔ لوگ تو اس بات سے اثر قبول کرتے ہیں جو زبان یا قلم سے صادر ہوتی ہے۔
تین اکتوبر کو مکرمی الطاف حسن قریشی صاحب کا ایک کالم شائع ہوا‘ جس نے مجھے تادیر شرمندگی کے احساس میں مبتلا کیے رکھا۔ قریشی صاحب کی گواہی ایسی نہیں جسے میں نظر انداز کر سکوں۔ ان کی عمر نوے برس سے زیادہ ہے مگر ان کا حافظہ جوان ہے۔ عشروں پہلے کے واقعات انہیں جزئیات سمیت یاد ہیں۔ اپنے اس کالم میں انہوں نے محترمہ رعنا لیاقت علی خان کا ذکر کیا ہے۔ میں بیگم صاحبہ کے بارے میں جو تاثر قائم کیے ہوئے تھا‘ سادہ لفظوں میں اسے برا ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ تاثرمولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی کتاب ''پاکستانی عورت دوراہے پر‘‘ اور اس نوعیت کی دیگر کتابوں کے مطالعے سے پیدا ہوا جو لڑکپن میں پڑھی تھیں۔ اس طرح کے لٹریچر سے ہم نے یہ سمجھا کہ جو خواتین پاکستانی عورت کو اسلام اور مشرقی روایات سے دور کرتے ہوئے‘ اس معاشرے کو مغرب زدہ بنانا چاہتی ہیں‘ بیگم رعنا لیاقت علی ان کی سرخیل ہیں۔ محترم الطاف حسن قریشی کا یہ کالم بیگم صاحبہ کی ایک دوسری تصویر پیش کرتا ہے۔
یہ کالم ایک معاصر میں شائع ہوا۔ اس کا کچھ حصہ میں ''دنیا‘‘ کے قارئین کے لیے نقل کر رہا ہوں۔ میں قریشی صاحب کی بات اپنے الفاظ میں بیان کر سکتا ہوں مگر یہ بدذوقی اور ان کے حسنِ تحریر سے پڑھنے والوں کو محروم کرنا ہوگا۔ اس لیے ان کی زبانی سنیے کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کیا تھیں: ''میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ قائداعظم کے ایک دوست نے اُنہیں اہلیہ کی وفات کے بعد دوسری شادی کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے اُن پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہا: اگر تم رعنا لیاقت علی جیسی خوش اطوار اور عالی شان دماغ والی خاتون تلاش کر لو تو میں تمہاری تجویز پر ضرور غور کروں گا۔ قائداعظم نے اپنے دوست کی تجویز پر عمل نہیں کیا تو اُنہیں پتا چل گیا کہ تلاش کے باوجود رعنا لیاقت علی جیسی خاتون نہیں ملی۔
ایک طرف رعنا لیاقت کا یہ مقام کہ اُن کی صلاحیتوں اور خوبیوں کے قائداعظم بہت مداح تھے‘ جبکہ عوام کے اندر بدگمانیاں پائی جاتی تھیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی کا پتا قائد ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی وفات کے بعد چلا۔ انہیں ہالینڈ میں سفیر مقرر کیا گیا۔ وہاں کی ملکہ سے ان کے تعلقات اس قدر دوستانہ ہو گئے کہ آپس میں شطرنج کھیلنا شروع ہو گئیں۔ اعتماد میں اس قدر اضافہ ہوا کہ شرطیں لگنے لگیں۔ ایک بار ملکہ نے اپنے محل کی شرط لگا دی اور وہ ہار گئی۔ اس نے وہ محل (بیگم) رعنا کے نام کر دیا اور (بیگم) رعنا نے حکومتِ پاکستان کے نام۔ اس محل میں آج تک پاکستان کا سفارت خانہ قائم ہے۔ ان کے اس اقدام سے پتا چلا کہ انہیں اپنے وطن سے کس قدر محبت تھی۔
عوام کے اندر غلط فہمیاں اس لیے پیدا ہوئیں کہ رعنا لیاقت مشرقی اقدار سے دور دکھائی دیتی تھیں اور اُنہیں غرارہ پہننے کا بہت شوق تھا جو مسلمانوں کی نظر میں ہندوئوں اور بڑے گھروں کا پہناوا سمجھا جاتا تھا۔ یہی معاملہ خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں پیش آیا۔ یہ ثابت کرنے کیلئے کہ پاکستان ایک روشن خیال ملک ہے‘ وہ خواتین کو آگے لانا چاہتی تھیں۔ انہوں نے خواتین کو بڑے پیمانے پر تعلیم دینے اور زندگی کے ہر شعبے میں بااختیار بنانے کیلئے ایک تنظیم آل پاکستان وُمینز ایسوسی ایشن (اپوا) قائم کی جس کے تحت سکول اور کالج کھولے گئے مگر خاتونِ اوّل کے 'جوشِ عمل‘ نے مذہبی طبقوں میں شدید ردِعمل پیدا کیا۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ لیاقت علی خان‘ رعنا سے شادی کے بعد ہنی مون کیلئے انگلستان گئے جہاں قائداعظم محمد علی جناح‘ نہرو رپورٹ کے بعد کانگریسی قیادت کی منافقت سے بددل ہو کر پریکٹس کر رہے تھے۔ ان سے لیاقت اور رعنا کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ ان دونوں میاں بیوی کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ آپ ہندوستان واپس چلے آئیں‘ کیونکہ مسلمانوں کی قیادت آپ ہی کر سکتے ہیں اور اس حقیقت کا اظہار حکیم الامت علامہ اقبال بھی کئی بار کر چکے تھے۔
کئی روز قیام کے بعد جب لیاقت علی خان اور رعنا‘ قائداعظم سے ملنے گئے تو ان سے پھر اسی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر قائداعظم نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ میں تم دونوں کے جذبات سے بہت متاثر ہوں‘ مگر میں چاہتا ہوں کہ تم مسلم حلقوں میں زیادہ سے زیادہ باشعور لوگوں کی رائے معلوم کرو‘ مجھے تمہاری دیانت پر مکمل اعتماد ہے؛ چنانچہ لیاقت علی خان نے تین ماہ بعد انہیں ایک رپورٹ ارسال کی جس میں تمام مرکزی شخصیتوں سے ان کی رائے معلوم کی گئی تھی۔ ان کی بڑی اکثریت نے محمد علی جناح کے قائدانہ کردار کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ تاریخ میں درج ہے اس رپورٹ کی بنیاد پر قائداعظم نے واپس ہندوستان آنے کا فیصلہ کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم واشاعت میں تمام تر توانائیوں کے ساتھ مسلم کاز کیلئے کام شروع کر دیا اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو تنظیم کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا۔ یہ امر بھی بہت حیرت انگیز ہے کہ قراردادِ لاہور کا ڈرافٹ تیار کرنے میں رعنا لیاقت کا بھی ہاتھ تھا۔ قائداعظم کو ان کی ڈرافٹنگ پر اس قدر اعتماد تھا کہ جو ڈرافٹ رعنا لیاقت نے منظور کیا تھا‘ وہی قائداعظم نے آخری ڈرافٹ کے طور پر پسند فرمایا تھا‘‘۔
معلوم ہوا کہ غرارہ اور خواتین کی تعلیم دو بڑے مسائل تھے جنہوں نے اس بدگمانی کو جنم دیا۔ یہ نقطہ ہائے نظر کا اختلاف تھا‘ جس نے جب شدت کے ساتھ ظہور کیا تووہ لٹریچر وجود میں آیا جس کی طرف میں نے ابتدا میں اشارہ کیا۔ ہم انسانوں کے بارے میں اسی رویے کی اسیر ہو تے ہیں۔ ہمارے نقطہ نظر کے مطابق‘ ایک دائرے میں تنقید درست ہوتی ہے مگر ہم اس کے بیان میں اتنے متشدد ہو جاتے ہیں کہ دوسروں کی مکمل شخصیت کو رد کر دیتے اور اس کے محاسن کا انکار کر دیتے ہیں۔ بیگم رعنا لیاقت علی پر اس تنقید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ اور قائداعظم کی تفہیمِ مذہب‘ ہمارے مذہبی طبقات سے کتنی اور کیسے مختلف تھی۔ ہمارا معاملہ مگر یہ ہے کہ ہم تفہیم کے اختلاف کو نیتوں سے جوڑ کر دوسروں کو مغرب زدہ‘ اباحیت پسند اور نامعلوم کتنے ایسے القاب سے نوازتے ہیں جس کیلئے عالمِ غیب ہونا لازم ہے۔ جب کوئی انسان غیب کا علم نہیں رکھتا تو پھر اسے ظواہر ہی پر حکم لگانا چاہیے۔
الطاف حسن قریشی صاحب کی تحریروں سے میری نسل کی اکثریت نے سیکھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ ٹوٹا نہیں۔ میں نے اس کالم سے یہی سیکھا کہ افراد کے بارے میں رائے دیتے وقت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کا تعلق میرے اخلاق کی صحت سے ہے۔ دوسرا یہ کہ شخصیت کو غراروں کے بجائے اعمال اور جزو کے بجائے کل کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ کالم پڑھ کرمجھے شرمندگی ہوئی کہ جن کا احترام کرنا چاہیے تھا‘ میں ان کے بارے میں بدگمان رہا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved