گزشتہ چند واقعات سے ایک بار پھر یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ ریاست کی گرفت تیزی کے ساتھ ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور عام شہریوں کی زندگی روزبروز اذیت ناک اور غیرمحفوظ ہوتی جا رہی ہے۔ ہر کوئی غیرانسانی اور غیرقانونی کارروائیوں میں من مرضی کرتا ہوا‘ امن و امان کے پرخچے اڑا رہا ہے۔ شہریوں کے حقوق پر ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں۔ ان کی روزمرہ زندگی میں نہ قانون ان کی مدد کے لئے حرکت میں آتا ہے اور نہ قوانین کے نفاذ کی ذمہ دار فورسز۔ دہشت گردی صرف بندوقوں اور بموں سے نہیں کی جاتی۔ عوام کے لئے اشیائے ضرورت کے حصول میں مشکلات پیدا کرنا بھی‘ دہشت گردی کی ہی ایک قسم ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور بیروزگاری میں جتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے‘ خوشحال طبقے اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ پاکستان زرعی ملک ہے۔ یہاں کے لوگ دو چیزوں کی قلت اور مہنگائی سے ہمیشہ ناآشنا رہے۔ ایک سبزیاں اور دوسری روٹی۔ برے سے برے حالات میں بھی غریب آدمی کے لئے سبزی خریدنا کبھی مشکل نہیں تھا۔ دالیں قلت کی وجہ سے مہنگی ہوتی رہیں۔ گوشت تو عام آدمی کی فہرست سے مدتوں پہلے نکل چکا ہے۔ سیلاب اور بارشوں کے دن چھوڑ کے‘ سبزیاں بہرطور عام آدمی کی قوت خرید کے اندر رہا کرتی تھیں۔ پچھلے 64سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ غریب آدمی کے لئے سبزی خریدنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ دودھ‘ انڈے‘ روٹی‘ چینی‘ چائے کی پتی‘ صابن‘ ٹوتھ پیسٹ‘ غرض روزمرہ ضرورت کی جس چیز کا بھی نام لیں‘ اس کی قیمت سن کر گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں بھی حکومتیں دو باتوں کا ضرور خیال رکھتی ہیں۔ ایک یہ کہ کھانے پینے کی چیزیں عام آدمی کی قوت خرید کے اندر رہیں اور دوسرے یہ کہ اسے اور اس کے بچوں کو تحفظ حاصل رہے۔ پاکستان میں شہریوں کو یہ حقوق بھی حاصل نہیں۔ منڈیوں میں آپ کو حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ ایک ہی شہر کے اندر ‘ ایک ہی چیز مختلف نرخوں پر فروخت کی جاتی ہے۔ بری سے بری حکومتیں بھی خوراک کی قیمتوں پر کڑی نظر رکھتی ہیں تاکہ کم آمدنی والوں کے لئے پیٹ بھرنے کی گنجائش موجود رہے۔ مگر ہمارے بے رحم معاشرے میںغریب کے لئے روٹی کھانا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ ایک مزدور کے بجٹ میں دونوں چیزیں بیک وقت خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ اگر وہ روٹی یا آٹا خریدتا ہے‘ تو حسب ضرورت دال سبزی پکانے کے لئے اس کے بجٹ میں گنجائش نہیں رہتی اور دیہاڑی داروں کی زندگی تو ناقابل برداشت حد تک تکلیف دہ ہو چکی ہے۔ ایک دن کی مزدوری سے بمشکل پورے کنبے کا پیٹ بھرتا ہے۔ لیکن اگلے دن مزدوری نہ ملے‘ تو خاندان کو بھوکے رہنا پڑتا ہے۔ جس طرح آج پاکستان میں بلیکیوں‘ چوربازاری کرنے والوں اور گرانفروشوں کو من مانیاں کرنے کی آزادی ہے‘ اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ بازاروں میں جو چیزیں آج ناقابل برداشت حد تک مہنگی کر دی گئی ہیں‘ اصل میں مارکیٹ فورسز کے مطابق اتنی مہنگائی نہیں ہو سکتی۔ یہ مہنگائی اور قلت‘ مصنوعی طور سے پیدا کی جاتی ہے اور جو محکمے چوربازاری‘ مہنگائی اور قلت پر نظر رکھنے کے ذمہ دار ہیں‘ وہ خود بھی لوٹ مار کے بھیانک کھیل میں شریک ہو چکے ہیں۔ لاقانونیت ایک وبا کی طرح ہوتی ہے۔ اگر معاشرے میں لااینڈ آرڈر باقی ہو‘ امن و امان کنٹرول میں ہواور عام آدمی کی زندگی پر اثر انداز ہونے والے قوانین کسی نہ کسی حالت میں موجود ہوں‘ تو ایسی لاقانونیت کبھی پیدا نہیں ہوتی‘ جس کا تجربہ ہمیں آج کل ہو رہا ہے۔ لاقانونیت کی ابتدا اوپر سے ہوتی ہے۔ جب حکومت چلانے والے اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار‘ خود لاقانونیت پر اتر آئیں‘ تو پھر معاشرے کا تانابانا برقرار رہنا دشوار ہو جاتا ہے اور یہاں تو معاشرتی ڈھانچہ ہی ٹوٹ پھوٹ چکا ہے۔ بڑے شہر کم و بیش ہر ملک کے اندر ہوتے ہیں۔ ان میں لاقانونیت بھی ہوتی ہے۔ لیکن جتنی بڑی تعداد میں ہمارے ملک خصوصاً کراچی میں برسرعام قتل ہوتے ہیں اور قاتلوں کا پتہ تک نہیں چلتا‘ ایسا شاید ہی کسی اور ملک کے بڑے شہر میں ہوتا ہو۔ ٹارگٹ کلنگ ہمارے معاشرے میں عام بات ہو چکی ہے۔ اغوا برائے تاوان کا کاروبار اس قدر عام ہے کہ بعض اوقات تو انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس کاروبار میں سبھی شریک ہیں۔ ایک اعلیٰ فوجی افسر کا داماد برسوں اغوا کاروں کی قید میں رہتا ہے اور اسے آزادی اس وقت ملتی ہے‘ جب اہل خاندان خریداری کا انتظام کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کا بیٹابرسوں سے اغوا کاروں کی قید میں ہے۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو بھی اغوا کاروں نے قریباً 6ماہ سے قید میں رکھا ہوا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ ہماری ریاستی مشینری اتنی اہم شخصیات کے بچوں کا بھی سراغ نہ لگا سکے؟ یہ کیسا لا اینڈ آرڈر ہے کہ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں اپنے ہی ملک میں قید کر کے رکھے گئے مغویوں کا پتہ بھی نہ چلا سکیں؟ نصیرالدین حقانی اسلام آباد کی ایک مارکیٹ میں دن دیہاڑے قتل ہوا۔ پاکستان کا دارالحکومت جو ہائی سکیورٹی زون میں واقع ہے‘ وہاں پولیس موقع پر بھی نہ پہنچ سکی۔ کسی کے علم میں نہیں کہ اس کی لاش کیسے اور کب اسلام آباد سے نکال لی گئی؟ پتہ اس وقت چلا‘ جب اس کی تدفین کی جا چکی تھی۔ جب بڑے بڑے مجرم اور قاتل بے لگام پھر رہے ہوں اور بے خوفی سے وارداتیں کرنے میں مصروف ہوں اور پھر بھی محفوظ رہ جائیں‘ تو کس کا دل نہیں چاہے گا کہ وہ بھی قوانین کی خلاف ورزیاں کرتا ہوا‘ لوٹ مار کے کھیل میں شریک ہوجائے؟ جس کا جتنا بس چلتا ہے‘ وہ لاقانونیت کی دوڑ میں حصہ لے رہا ہے۔ اس کھیل سے صرف وہی باہر ہے‘ جس کے پاس ذخیرہ اندوزی‘ کاروبار کرنے کی استطاعت نہیں یا دوسروں سے کچھ چھیننے کی طاقت نہیں۔ جب طاقت ریاست کے ہاتھ میں نہ رہے‘ تو پھر وہ بزکشی کا دنبہ بن کے رہ جاتی ہے۔ آپ کو افغانوں کے اس کھیل کا علم ہو گا کہ وہ کس طرح گھوڑوں پر بیٹھ کردنبے کو ایک دوسرے سے چھین لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کھلاڑیوں کی تفریح ہوتی ہے اور دنبے کا جسم کھینچ تان میں ادھڑ کے رہ جاتا ہے۔ پاکستان کا غریب شہری بھی کئی ماہ سے بزکشی کا دنبہ بنا ہوا ہے۔ اس کی حالت زار پر کسی کو رحم نہیں آتا۔ کوئی اس کی انسانی حیثیت کا احساس نہیں کرتا۔ کوئی کھلاڑیوں کی بے رحمی پر توجہ نہیں دیتا۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ بے رحمی کے اس کھیل میں ایک جاندر کے جسم پر کیا گزر رہی ہے؟ پاکستان کے حکمران اور صاحب حیثیت طبقے اس دنبے کی کھینچ تان سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس کی بے بسی اور بے چارگی‘ ان کے لئے تفریح کا سامان ہے۔ 1947ء میں ہم تہذیب و تمدن کے جس ماحول میں رہتے تھے‘ آج وہ قصہ پارینہ بن چکا ہے ۔ جہالت اور بربریت کے دور سے نکل کر ہم تہذیب اور تمدن کی دنیا میں داخل ہو رہے تھے۔ جہاں قانون اور اخلاقیات کا ایک نظام معرض وجود میں آ چکا ہے۔ جسے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرنا ہے۔ لیکن ہمیں ماضی کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ افغانستان کے پسماندہ اور قبائلی طرززندگی نے ہم پر یلغار کی اور ہمارا وطن اس کی لپیٹ میں آتا چلا جا رہا ہے۔ تہذیب و تمدن کی طرف ہم نے جو سفر شروع کیا تھا‘ یوں لگتا ہے کہ وہ رائیگاں چلا جائے گا۔ ہم ماضی کے رخ پر جو سفر کر رہے ہیں‘ اگر یہ اسی طرح جاری رہا‘ تو ہم یمن‘ سوڈان اور لبیا کے مقام پر تو پہنچ سکتے ہیں‘ ترقی یافتہ دنیا کا حصہ نہیں بن سکیں گے۔ اگر میں 1947ء کے پاکستان کا موازنہ آج کے پاکستان سے کروں‘ تو آسانی سے کہہ سکتا ہوں کہ ماضی کی طرف واپسی کا جتنا سفر ہم نے 66برس میں طے کر لیا ہے۔ اگر مزید 60سال تک اسی رفتار سے کرتے رہے‘ تو ہمارے شہر‘ کابل‘ قندہار اور جلال آباد کا نقشہ پیش کر رہے ہوں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved