تحریر : ذوالفقار علی مہتو تاریخ اشاعت     25-10-2025

بلدیاتی ادارے بمقابلہ ڈویژنل صوبے

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب حکومت کو پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025ء کے تحت بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں نئی حلقہ بندیوں کیلئے ایک ماہ کی مہلت دی ہے۔ پنجاب اسمبلی سے 13 اکتوبر کو منظور کیے گئے مسودہ قانون پر 20 اکتوبر کو گورنر پنجاب کے دستخط کے بعد اس سے متعلقہ تمام قوانین پر عملدرآمد کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔ایکٹ کے باب 21 کی سیکشن 123 کے تحت پنجاب حکومت کو زیادہ سے زیادہ اگلے چھ ماہ کے اندر بلدیاتی اداروں کو مجموعی صوبائی آمدنی سے وسائل کی تقسیم کا نیا فارمولا سامنے لانا ہے کیونکہ اس وقت بیورو کریسی کے ذریعے چلائے جا رہے بلدیاتی اداروں کو فنڈنگ صوبائی فنانس کمیشن کے عبوری ایوارڈ 2016ء کے بجائے مرضی کی بنیاد پر چل رہی ہے۔بلدیاتی اداروں کے نئے ایکٹ میں اس کے اولین مقاصد کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ آئین ِپاکستان کے آرٹیکل 140(اے) کے تحت اختیارات کی نچلی سطح تک با معنی منتقلی کی شرط پوری کردے گا۔اس ایکٹ کے نفاذ سے مقامی حکومتوں کو مالی‘انتظامی ذمہ داریاں پوری اتھارٹی کے ساتھ دے دی جائیں گی اور پھر مقامی سطح پر بہتر حکومت کا نظام فروغ پائے گا‘عوام کو مؤثر سروس ڈلیوری کی سہولتیں ملیں گی اور عام لوگوں کی شرکت سے حکومت چلانے کی شفاف فیصلہ سازی ہواکرے گی۔
ایکٹ کے الفاظ کو دیکھیں تو لوکل گورنمنٹ ایماندار معاشروں کا ماڈل بنتی نظر آرہی ہے‘ لیکن کیا ماضی کے تجربات کی روشنی میں زمینی حقائق بھی اس کی گواہی دیتے ہیں ؟اس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ ماضی کے بلدیاتی نظام سے متعلق عوامی یادداشت میں قبرستان کی پرچی فیس ‘ ڈیتھ سرٹیفکیٹ کے حصول‘ گلیوں‘ نالیوں کی تعمیر‘ تہہ بازاری آپریشنز‘سرکاری سکول سے ڈسپنسریوں کے انتظامی معاملات تک عوام کو کرپشن‘ خواری اور بدترین حکومت ہی سے واسطہ پڑاہے۔ پنجاب کے نئے بلدیاتی ایکٹ کے الفاظ کی یقین دہانی کے بعد سرکاری دستاویزات اور دیگر شواہداور حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ بات سن کر ہوش اُڑ جائیں گے کہ بڑے شہروں کے بلدیاتی نظام میں سرخیل کہلانے والی لاہور‘ ملتان اور راولپنڈی سمیت صوبے کی 11 ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں اور ایل ڈی اے رواں سال بھی 33 ارب روپے اور میونسپل کمیٹیاں اور خودمختار ادارے محکمہ خزانہ سے 66 ارب روپے کا قرض لے کر تنخواہیں‘ پٹرول سمیت اپنے نظام کا پہیہ رواں رکھے ہوئے ہیں۔ نئے ایکٹ پر عملدرآمدکے تحت صوبائی حکومت منتخب بلدیاتی حکومتوں پر ایسے لازمی اخراجات لاد دے گی جن کو منظوری کے بجائے سیکرٹری بلدیات کا ایک حکم کافی ہوگا۔
جو اہلِ فہم و فراست مقامی حکومتوں کے ذریعے ڈویژنل صوبوں کے آئیڈیا سے پہلو تہی کرنا چاہتے ہیں ان کے سامنے بعض اہم حقائق رکھتے ہیں۔آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ بالفرض دسمبر میں الیکشن ہوجاتے تو ان کو کیا ملنا تھا اور آخر میں یہ دیکھیں گے کہ اگر پنجاب میں ڈویژنل سطح کے 10 صوبے ہوں تو ان کا حصہ کیا بنتا ہے۔ اگر اس سال بلدیاتی الیکشن ہوجائیں تو اپریل 2026ء کے بعد نئے صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈ کے خدوخال سامنے آئیں گے اور تب فیصلہ ہوگا کہ پرانا فارمولا برقرار رکھا جاتا ہے یا کوئی اور راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ بہرحال جو ایکٹ میں لکھا ہے اسی کو حتمی مانتے ہیں اور ایکٹ کے تحت صوبائی مالیاتی وسائل سے حصہ ملنے کے علاوہ ٹاؤن‘ میونسپل کارپوریشنز‘ میونسپل کمیٹیوں اور تحصیل کونسلوں کو 16ٹیکس لگانے کا اختیار ہوگا جن میں سب سے بڑا ٹیکس غیر منقولہ اربن پراپرٹی ٹیکس اور ٹرانسفر آن پراپرٹی ٹیکس ہے جن کا اس سال پورے پنجاب سے وصولی کا ہدف 32ارب 55 کروڑ روپے ہے۔اس کے بعد سڑکوں اور پلوں پر عائد ٹول ٹیکس سے دو ارب 50کروڑ کا ہدف ہے۔ دیگر لوکل ٹیکسوں میں واٹر یوزج چارجز‘ ڈرینج ریٹس‘بلڈنگ پلان منظوری فیس‘مذبح فیس‘سائن بورڈز اور مشہوری بینرز وغیرہ پر عائد ٹیکس‘ پارکنگ فیس‘ مویشی فروخت فیس اورموبائل فون ٹاورز پر عائد ٹیکس شامل ہیں۔ اس طرح یونین کونسلز کو اموات‘ پیدائش اور طلاقوں کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر فیس یا ٹیکس وصولی کا اختیار دیا گیا ہے‘ جس سے اس سال پنجاب بھر سے وصولی ہدف صرف ایک کروڑ روپے ہے۔ دونوں درجے کی لوکل حکومتوں کو پنجاب حکومت کی پیشگی اجازت سے اپنی حدود میں کوئی دیگر ٹیکس لگانے کا آپشن بھی دیا گیا ہے۔ایکٹ میں مقامی حکومتوں کیلئے صوبائی فنانس کمیشن کے تحت پنجاب کے کنسالیڈیٹڈ فنڈ سے افقی قابلِ تقسیم صوبائی وسائل کے فارمولے کی تشکیل کیلئے جو آوٹ لائن دی گئی ہے اس کے تحت نمبر 1: پنجاب حکومت کے تفویض کردہ فنکشنز کے لحاظ سے ہر مقامی حکومت کو اس کی ضرورت کے مطابق وسائل ملیں گے۔ نمبر2: غربت اور پسماندگی کی بنیاد پر ایکولائزیشن گرانٹس کے شیئر کا تعین ہوگا۔ نمبر3: ہر مقامی حکومت کو اس کی ٹیکس وصولی کی صلاحیت اور کارکردگی کی بنیاد پر قابلِ تقسیم وسائل سے حصہ ملے گا۔ اس کے علاوہ بنیادی خد وخال میں اخراجات کی بہتر منصوبہ بندی‘ کوالٹی آف سروس ڈلیوری‘ ٹھیکوں میں ویلیو فار منی بھی شامل ہے۔ مقامی حکومتوں کی بجٹ سازی اور منظوری کے حوالے سے ایکٹ میں لکھا ہے کہ چارجڈ اخراجات میں صوبائی حکومت کو قرضوں کی واپسی کیلئے جس رقم کی ضرورت ہو گی‘وہ مقامی حکومتوں کو دینا ہوگی۔ صوبائی حکومت ماضی میں مقامی حکومتوں کے واجب الادا قرضوں کی مؤخر واجبات کی وصولی بھی کرسکے گی اور کسی قدرتی آفت کی صورت میں صوبائی حکومت اپنی ضرورت کے مطابق رقوم مقامی حکومتوں کے بجٹ سے لے لے گی‘مگر مزے کی بات یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے ایوان سیکرٹری بلدیات کے تیار کردہ ان اخراجات کو دیکھ تو سکیں گے لیکن ان پر ووٹ کا حق نہیں ہوگا۔جو سالانہ ترقیاتی بجٹ تیار کیا جائے گا اس کا 20 فیصد انفراسٹرکچر اور سروسز کی دیکھ بھال پر خرچ ہوگا اور ہر سال 30 جون تک بجٹ منظور نہ کرنے اور مزید ایک ماہ کی مہلت میں کامیابی نہ ہونے کی صورت میں وزیر بلدیات کی منظوری سے محکمہ بلدیات جو بجٹ لاگو کرے گا وہی حتمی ہوگا۔
اگر سالِ رواں کے پنجاب بجٹ کو دیکھیں تو مقامی حکومتوں کیلئے 934 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو عبوری ایوارڈ 2016ء کے فارمولے کے 1842 ارب روپے سے بھی آدھے ہیں۔ ان 934 ارب میں سے 782 ارب تو عبوری ایوارڈ کے تحت تقسیم ہونا ہیں جبکہ باقی 152ارب سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں اور دیگر اخراجات کیلئے براہِ راست صوبائی حکومت دے رہی ہے۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیوں کو چلانے کیلئے رواں مالی سال میں جو قرضوں کا پہاڑ کھڑا کیا جارہا ہے۔ لاہور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو سب سے زیادہ 14ارب 40 کروڑ‘ ملتان کمپنی کو 96 کروڑ‘ راولپنڈی کمپنی کو دو ارب 40 کروڑ‘ فیصل آباد کمپنی کو ایک ارب 30 کروڑ‘ گوجرانوالہ کمپنی کو ایک ارب 18 کروڑ ‘ساہیوال اور سرگودھا کمپنیوں کو 50‘50 کروڑ‘ ڈیرہ غازی خان کمپنی کو 60 کروڑ‘ بہاولپور اور سیالکوٹ کمپنی کو بالترتیب 42 کروڑ اور 41 کروڑ 20 لاکھ روپے کا قرض دے کر شہروں اور قصبوں کی صفائی کرائی جا رہی ہے‘ لیکن ان کمپنیوں نے ماضی میں لیا گیا قرض واپس کیا نہ آئندہ قرضوں کی واپسی کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ نئے بلدیاتی ماڈل میں بھی اس نظام کی تبدیلی کیلئے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔
اب دیکھتے ہیں کہ اگر پنجاب میں ڈویژنل سطح کے 10 صوبے ہوتے تو مقامی حکومتوں کیلئے مختص934 ارب روپے کے بجائے ان کے پاس کیا وسائل ہوتے‘ تو بڑا سیدھا حساب ہے کہ وفاقی قابلِ تقسیم محاصل اور صوبائی ٹیکسوں سے ملنے والے 5169 ارب روپے میں سے صوبائی قرضوں‘ پنشن‘ سبسڈیز اور چارجڈ اخراجات کی ادائیگی کے بعد ڈویژنل صوبوں کے پاس 4187 ارب روپے ہوتے۔ فرق صاف ظاہر ہے لیکن پاکستان میں تجربے پہ تجربے کا پرانا رواج ہے۔کرلیں ایک اور تجربہ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved