تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     26-10-2025

کیوں؟ پاکستان کو ’’نظر انداز‘‘ نہیں کیا جا سکتا

پروفیسر کانتی پرشاد باجپائی بھارت کے بین الاقوامی شہرت رکھنے والے محقق اور دانشور ہیں۔ نئی دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاست کے استاد رہے‘ آکسفورڈ یونیورسٹی میں بھی ایک عرصہ گزارا‘ اب سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی سیاست پر ان کی نظر گہری ہے‘ بھارت اور چین کے تعلقات پر ان کی کچھ عرصہ پہلے شائع ہونے وال کتاب ''انڈیا اور چائنا‘ دوست کیوں نہیں ہیں؟‘‘ دنیا بھر میں موضوعِ بحث رہی ہے۔ ''انڈین ایکسپریس‘‘ میں چند روز پہلے شائع ہونے والے ان کے آرٹیکل ''پاکستان کو نظر انداز کیوں نہیں کیا جا سکتا؟‘‘ کی طرف محترم شاہد حامد (سابق گورنر پنجاب) نے توجہ مبذول کرائی تو پروفیسر صاحب کے اسلوب نے دِل اور دماغ دونوں کو گرفت میں لے لیا۔ پاکستان کی اہمیت‘ حیثیت اور خصوصیت کے بارے میں یہ تحریر ایسی ہے کہ جس کا مطالعہ اہلِ پاکستان کے لیے بھی مفید ہو گا‘ خصوصاً ان خواتین و حضرات کے لیے جو وقتی سیاسی جھمیلوں میں اُلجھ کر بھٹکے ہوئے راہی بن چکے ہیں‘ بھارت کے فیصلہ ساز اسے آنکھیں کھول کر پڑھیں تو چودہ طبق روشن ہو سکتے ہیں۔ آج کا کالم پروفیسر باجپائی کے نام‘ ان کی سنیے اور سوچتے چلے جائیے:
''ہمارے اس عام تاثر کے برعکس کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہے‘ ہمارا پڑوسی دراصل پانچ ایسی خصوصیات رکھتا ہے جو اسے بیک وقت خطرناک بھی بناتی ہیں اور اہم بھی۔ اسلام آباد کی طاقت: اس کا جغرافیائی محلِ وقوع اور عدم استحکام پیدا کرنے کی صلاحیت‘ جتنا یہ تسلیم کرنا ناگوار ہے‘ اتنا ہی ضروری بھی ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ سٹرٹیجک اعتبار سے پاکستان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
وقت کے ساتھ ہم نے خود کو یہ یقین دلا لیا کہ بھارت کی بڑھتی ہوئی طاقت نے دنیا کے لیے پاکستان کی کشش کو کم کر دیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ سفارتی پیش رفت‘ روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور چین کی اسلام آباد کے لیے مسلسل حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ بڑی عالمی طاقتیں اب بھی ہمارے اس مشکل ہمسائے کے ساتھ بھرپور طور پر منسلک ہیں۔ پاکستان بہت سے ممالک کے لیے کم از کم تین دیرپا وجوہ کی بنا پر پُرکشش حیثیت رکھتا ہے: جغرافیائی محلِ وقوع‘ خلل ڈالنے کی صلاحیت اور طاقت۔ سب سے پہلے پاکستان کا محلِ وقوع غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ملک افغانستان‘ ایران‘ چین (اور بھارت) کے ساتھ سرحدیں شیئر کرتا ہے۔ اس کی قربت خلیجی ممالک بشمول سعودی عرب سے ہے جبکہ افغانستان کے راستے یہ وسطی ایشیا سے منسلک ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی خلل ڈالنے اور خطرہ پیدا کرنے کی صلاحیت کے باعث اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وہ صلاحیت ہے جس کے باعث اسلام آباد سے خوف بھی کھایا جاتا ہے‘ اس سے تعلق بھی رکھا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے راضی بھی کیا جاتا ہے۔ بھارت کے لیے سبق یہ ہے کہ جتنا زیادہ ہم پاکستان کی مذمت کرتے ہیں‘ اتنا ہی ہم اسلام آباد کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔
تیسری وجہ جو ہمارے عام تاثر کے برعکس ہے کہ پاکستان ایک کمزور ملک ہے‘ ہمارا ہمسایہ پانچ بڑی قوتوں کا حامل ہے جو اسے بیک وقت باعثِ خوف اور باعثِ کشش بناتی ہیں۔ فوجی طاقت‘ آبادی‘ اسلامی تشخص‘ تارکین وطن کا اثر اور بین الاقوامی اتحاد۔ سب سے بڑھ کر پاکستان ایک قابلِ ذکر فوجی طاقت رکھتا ہے‘ تقریباً پانچ لاکھ اہلکاروں پر مشتمل اس کی مسلح افواج دنیا کی بڑی افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ تقریباً 200جوہری ہتھیاروں کے ساتھ وہ اس لحاظ سے بھارت کا ہم پلہ ہے۔ بعض شواہد سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس بھارت سے زیادہ جوہری وار ہیڈز ہو سکتے ہیں۔ مزید برآں‘ حالیہ پاک بھارت جھڑپوں نے یہ واضح کر دیا کہ پاکستان کی فوج پیشہ ورانہ صلاحیت رکھتی ہے۔ چینی ہتھیاروں کے نظام اور رئیل ٹائم معلوماتی فیڈز سے تقویت یافتہ اس کی عسکری قوت بین الاقوامی سطح پر توجہ اور احترام حاصل کر چکی ہے۔
پاکستان کی طاقت صرف عسکری نہیں ہے یہ تقریباً 26کروڑ آبادی والا ملک ہے جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے۔ تخمینوں کے مطابق 2050ء تک پاکستان کی آبادی 34 سے 38کروڑ کے درمیان ہو سکتی ہے‘ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی نوجوانوں کی ایک بڑی اور ممکنہ طور پر پیداواری قوت رکھنے والی آبادی موجود ہے۔ اگر پاکستان نے اپنی معاشی حکمت عملی کو درست سمت میں استوار کر لیا تو یہ ایک بڑی منڈی بن سکتا ہے جہاں سرمایہ کاری اور تجارت کے بے شمار مواقع ہوں گے۔ پاکستان کی طاقت کا ایک اور پہلو اس کی عالمی مسلم برادری ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مسلم ملک ہے۔ یہ اگرچہ کئی دوسرے ممالک کے مقابلے میں معاشی طور پر کمزور ہے تاہم اپنی بڑی آبادی کی وجہ سے یہ عالمی سطح پر اسلامی دنیا میں اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ عسکری اور سفارتی طاقت اسے مزید تقویت دیتی ہے۔ ہم بھارت میں چاہے جو بھی سوچتے ہوں‘ پاکستان کی فوج بشمول اس کا ''اسلامی ایٹم بم‘‘ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے فخر‘ اطمینان اور رشک کا باعث ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر‘ پاکستان کے سفارتکار نہایت مہذب‘ موثر اور فعال ہیں‘ نہ صرف مغرب اور چین میں‘ جہاں ان کی توجہ زیادہ مرکوز رہتی ہے بلکہ اسلامی دنیا میں بھی۔ پاکستان کی سفارت کاری اسلامی تعاون تنظیم سمیت مسلم دنیا کے اعلیٰ ترین فورمز میں ایک موثر قوت سمجھی جاتی ہے۔ ہم بھارت میں اپنی اوورسیز کمیونٹی کو طاقت کا ایک بڑا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی ڈائسپورا حجم اور اثرو سوخ کے لحاظ سے بھارت کے برابر نہیں لیکن اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کی ورلڈ مائیگریشن رپورٹ (1995-2020ء) کے مطابق اس عرصے میں تقریباً 61لاکھ 40ہزار پاکستانی بیرونِ ملک گئے‘ اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں چھٹے نمبر پر رہا جبکہ بھارت کے تقریباً ایک کروڑ 77لاکھ 90ہزار تارکینِ وطن تھے۔ پاکستانی حکومت کے اپنے اندازے کے مطابق بیرونِ ملک پاکستانیوں کی کل تعداد ایک سے سوا کروڑ کے درمیان ہے۔ پاکستان کے پاس اتحاد یا الحاق کی طاقت بھی ہے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں پاکستان سیٹو (SEATO) اور سینٹو (SENTO) جیسے معاہدوں کے تحت امریکہ کا باضابطہ اتحادی تھا۔ 1963ء سے یہ چین کا غیررسمی (Quasi) اتحادی ہے اور 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں مجاہدین کی حمایت کے دوران پاکستان بیک وقت چین اور امریکہ دونوں کا غیررسمی اتحادی رہا۔ 11ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر امریکہ کا عملی اتحادی بننا پڑا خصوصاً افغانستان کے تناظر میں۔ کئی برسوں سے پاکستان سعودی عرب کے ساتھ عسکری تعاون میں منسلک رہا اور مختلف ادوار میں اپنے فوجی دستے سعودی سرزمین پر تعینات بھی کرتا رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ ایک اتحاد (Alliance pact) پر دستخط کیے ہیں جس میں مبینہ طور پر جوہری تحفظ کی شق بھی شامل ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان کو تزویراتی (سٹرٹیجک) اعتبار سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طاقتور ممالک‘ بھارت کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کے باوجود پاکستان کے ساتھ رابطے اور تعاون جاری رکھیں گے لہٰذا بھارت کی سفارت کاری کو ٹھنڈے دماغ‘ دانش مندی اور حقیقت پسندی کے ساتھ پاکستان کے عالمی کردار اور اس سے متعلق اپنی پالیسیوں پر غور کرنا چاہیے۔ محض چڑچڑاہٹ یا تحقیر آمیز رویہ اس پیچیدہ تعلق کو سمجھنے اور سنبھالنے کے لیے کافی نہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''پاکستان‘‘ اور روزنامہ ''دنیا‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved