ارشد شریف کے بغیر اسلام آباد میں تین سال بہت مشکل گزرے ہیں۔ ارشد کے بارے لکھنا میرے لیے تکلیف دہ عمل رہا ہے۔ جب بھی کچھ لکھنے کی کوشش کی تو یوں لگا خیالات اور قلم ساتھ نہیں دے رہے۔ ایسا مجھے کبھی ڈاکٹر ظفر الطاف‘ نعیم بھائی‘ رانا اعجاز محمود یا انور بیگ کے بارے محسوس نہ ہوا جو ایک ایک کر کے رخصت ہوئے اور ان سب کا کسی نہ کسی حوالے سے میرے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا۔ میری کتاب 'ایک سیاست کئی کہانیاں‘ کے ہر باب میں ارشد شریف کا ذکر ہے‘ لندن تھا یا اسلام آباد‘ دونوں جگہ ہمارا دس بارہ گھنٹے کا روزانہ کا ساتھ تھا۔ برسوں سے ایک شیڈول تھا‘ ہم دونوں صبح سویرے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوتے‘ پھر پارلیمنٹ کے اجلاس سے وقفۂ سوالات سے بڑی بڑی خبریں نکال کر اپنے اپنے اخبار کے لیے فائل کرتے۔ کئی سکینڈلز وہاں سے بریک کیے۔ ارشد کا ٹی وی شو شروع کرنا بھی عجیب اتفاق تھا۔ ڈان ٹی وی شروع ہو رہا تھا تو اس کے ذمے لگا کہ وہ ایک اور صحافی کو شو کیلئے راضی کرے۔ اُس صحافی کے ساتھ Mock شو ہوا تو انتظامیہ کو اس اینکر سے زیادہ ارشد شریف سکرین پر اچھا لگا اور اسے کہا گیا کہ وہ شو شروع کرے۔ ارشد تیار نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی تو کہنے لگا: ایک شرط پر کروں گا کہ اگر تم ریگولر اس شو میں شریک ہو گے۔ فطری طور پر وہ کچھ نروس تھا لیکن پھر وہ دور بھی آیا کہ ارشد شریف جیسا شو کوئی نہ کر پاتا۔ جتنا اس کے پاس کانٹینٹ اور جو اس کا منفرد انداز تھا بلکہ شروع میں وہ انگریزی اخبار کا سٹی رپورٹر تھا‘ میں نے ایک دن اسے کہا کہ تم سٹی خبروں کے لیے نہیں بنے۔ تمہارے اندر بہت پوٹینشل ہے‘ خود کو ضائع نہ کرو اور یوں ارشد میرے ساتھ پارلیمنٹ جانے لگا اور پھر وہ کہتے ہیں نا کہ Rest is history۔
نواز شریف اور بینظیر بھٹو برطانیہ میں تھے تو میں اپنے اخبار کی رپورٹنگ کیلئے لندن میں تھا۔ ارشد کو بھی اس کے چینل نے لندن بھیجا اور ہم دونوں نے لندن میں خوبصورت دن اکٹھے گزارے۔ اسلام آباد میں ارشد شریف کی برسوں سے یہ روٹین تھی کہ اپنے خاندان کے بعد اس کے دوست ہی اس کی زندگی کا اہم حصہ تھے۔ ارشد اپنے دوستوں اور خبروں کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اسے خبریں اور دوستوں کی کمپنی روزانہ چاہیے ہوتی تھی۔ وہ ایک بجے گھر سے نکلتا تو مجھے فون کرتا کہ کہاں ہو۔ میں کہتا: گھر ہوں تو کہتا کیا سست بندے ہو‘ چلو کہیں لنچ کرتے ہیں۔ پھر چار پانچ دوسرے دوستوں کو فون کرتا کہ آئیں لنچ کرتے ہیں۔ شام تک ہماری گپ شپ رہتی۔ خبریں‘ سیاست‘ سیاستدان سب کچھ ڈسکس ہوتا اور دنیا جہاں کے موضوعات پر بات ہوتی۔ اچانک یاد آتا کہ آج رات دس بجے ہمارا لائیو شو بھی ہے۔ ہم سب دفاتر کو روانہ ہوتے۔ اپنے اپنے شو کی تیاری کرتے۔ جونہی ارشد اپنا شو ختم کرتا تو اس کے ٹیم ممبر علی عثمان کا مجھے فون آجاتا کہ ارشد صاحب پوچھ رہے ہیں کہ ڈنر کہاں کرانا ہے؟ یوں ہم سب دوست پھر ملتے۔ رات دو بجے تک گپ لگتی۔ اور یہ سلسلہ سوموار سے جمعرات تک چلتا۔ پھر جمعہ کو شوز سے چھٹی ہوتی تو ارشد ہمارے ایک اور دوست شاہد بھائی کو فون کرتا کہ آج بیٹھک آپ کی طرف ہو گی۔ شاہد بھائی کی بیگم صاحبہ کمال کے کھانے بناتی تھیں اور شاہد نے ہم سب دوستوں کو برسوں تک اپنے ڈرائنگ روم میں ہوسٹ کیا۔ پھر ہفتے کے روز ارشد کا فون آ جاتا کہ رات نو بجے گھر آ جاؤ‘ سمعیہ نے بڑا اچھا کھانا بنایا ہے۔ سب دوست پھر ارشد کے گھر اکٹھے ہوتے‘ کھانے کھائے جاتے اور رات دیر تک گپ ہوتی۔ اتوار کے روز ارشد مجھے کال کرتا آج رات تمہارے گھر پر بیٹھیں گے۔ اور اتوار کو یوں میرے گھر پر کھانے اور گپیں چلتیں۔ یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا تھا۔ ارشد کے بہت دوست تھے اور ان سب سے ہماری بھی دوستی ہو گئی تھی۔ ارشد کی وجہ سے لگتا تھا کہ پورا شہر ہمارا دوست ہے۔ اس کی زندگی میں ہر قسمی دوست تھے اور سب کو یہی لگتا تھا کہ ارشد ہی ان کا سب سے بڑا دوست ہے۔ کوئی دوست بیروزگار ہو گیا ہے یا کسی مسئلے کا شکار ہے تو ارشد اس کیلئے بے چین ہو جاتا۔ کسی نہ کسی کو فون کررہا ہوتا‘ حوصلہ بڑھا رہا ہوتا یا مدد کر رہا ہوتا۔ ارشد کے اندر ایک باغی ہمیشہ سے موجود تھا۔ اس کی اپنی الگ رائے تھی اور اس نے صحافت کو شوق سے اپنایا تھا لہٰذا اس کے کام اور گفتگو میں مختلف رنگ تھا جو حکومتوں کیلئے بہت ڈسٹربنگ تھا۔ اس پر پہلا مقدمہ اُس وقت بنا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔ ارشد کی ایک خبر نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یوں ارشد کے خلاف کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ پیمرا میں اس کی پیشیاں لگنا شروع ہو گئیں لیکن ارشد کے اندر مزید کمٹمنٹ آنا شروع ہو گئی اور اس نے بڑے بڑوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ آج شاید لوگوں کو یقین نہ آئے کہ ارشد نے 2017ء میں اُس وقت کے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید کے خلاف بھی خطرناک ٹویٹس کیے۔ جب جنرل نے ارشد کو فون کر کے کہا کہ وہ شریف فیملی کے خلاف پانامہ سکینڈل پر پروگرام کرنا بند کرے۔ ارشد نے پروا نہ کرتے ہوئے اس کا تیا پانچا کر دیا۔ ارشدکے اندر خوف نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ وہ جس بات کو ٹھیک سمجھتا تھا اس کیلئے وہ کسی حد تک جا سکتا تھا اور اپنی جان بھی دے سکتا تھا‘ اور آخر میں یہی ہوا۔
ارشد شریف کے قتل نے اس ملک کے ہر گھر کو متاثر کیا ہے۔ ارشد کے قاتلوں نے اسے جسمانی طور پر ختم کیا ہے لیکن وہ ارشد کو لوگوں کے دلوں سے کبھی نہیں نکال پائیں گے۔ ارشد کی موت کے ساتھ ہی ہم سب کی زندگیاں بدل گئیں۔ لگتا ہے اس شہر میں کوئی اپنا جاننے والا نہیں بچا۔ شہر کا کون سا کونہ‘ ریستوران یا کیفے ہو گا جہاں ہم نہیں جاتے تھے۔ اگرچہ ارشد کے ساتھ کئی دفعہ ایشوز پر شدید اختلافات بھی ہوئے‘ وہ میری بات سنتا اور مانتا بھی تھا۔ ارشد کی فیملی نے میری بیوی سے گلہ کیا کہ وہ رؤف کی بات مانتا تھا‘ اسے روکنا چاہیے تھا کہ وہ خود کو خطرات میں ڈال رہا تھا۔ میری بیوی نے بتایا کہ رؤف نے کئی دفعہ اس حوالے سے بات کی جس پر وہ ملنا چھوڑ گیا تھا۔ رؤف کا زور ارشد شریف پر چل سکتا تھا لیکن اس کے بے رحم قاتلوں پر نہیں۔ ارشد کو لگتا تھا کہ اس ملک اور اُس جیسے ان صحافیوں کے ساتھ دھوکا ہوا جو مقتدرہ کو اچھا سمجھتے تھے۔ میں اسے کہتا تھا کہ دھوکے کا بدلہ نہیں ہوتا‘ اس سے سبق سیکھے جاتے ہیں۔ وہ کبھی میری اس بات سے اتفاق نہ کر سکا۔ ایک دوست کے طور پر میں ارشد کی زندگی کو لاحق خطرات سے واقف تھا اور اسے بچانے کی بہت کوششیں کیں‘ جس کے گواہ چند لوگ ہیں۔ میرا خیال تھا کہ دوست کا کام اپنے دوست کو بچانا ہوتا ہے نہ کہ اسے مسلسل خطرات کی طرف دھکیلنا‘ جیسے اُس کے چند اور دوست کر رہے تھے جو اچانک اس کی ہمدردی کا لباس اوڑھ کر آ گئے۔
میں نے ماں باپ کھوئے‘ بہن بھائی کھوئے‘ ڈاکٹر ظفر الطاف کو کھویا‘ ان سب کو ایک پلڑے میں رکھوں تو بھی ارشد کی موت کا بوجھ زیادہ بھاری ہے۔ ارشد کو انصاف نہیں ملا۔ ہائی پروفائل قتل میں کبھی کسی کو انصاف نہیں ملتا اور ارشد ہائی پروفائل تھا۔ میرا یقین ہے کہ تقدیر ایک ناحق انسان کے لہو کا بدلہ لینا نہیں بھولتی۔ ہزاروں سال پہلے کسی ریاست میں ناحق کسی کا قتل ہوتا تو وہاں آسمان سے عذاب اور بلائیں اُترتی تھیں۔ ایک دن ارشد کے قاتلوں پر اترنے والا عذاب ہم سب دیکھیں گے‘ جنہوں نے ارشد کے بچوں سے باپ اور ہم سے ہمارا دوست چھینا۔ ارشد کا دکھ عمر بھر کم نہیں ہو گا۔ ارشد کے بغیر یہ تین سال آسان نہیں تھے۔ وہ شہر جہاں لگتا تھا کہ ہر دوسرا بندہ ہمارا دوست ہے‘ ارشد کے جانے کے بعد اب لگتا ہے کہ دوست چھوڑیں‘ یہاں کوئی ایک واقف کار تک نہیں رہا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved