تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     26-10-2025

طالبان رجیم اور پاکستان کی فکری ذمہ داری

بین الاقوامی پروٹوکول کے مطابق افغانستان میں قائم طالبان رجیم کوئی باقاعدہ حکومت نہیں بلکہ ایک ایسا گروہ ہے جو افغان عوام پر زبردستی مسلط ہے‘ لہٰذا اسے کسی نام نہاد عبوری حکومت کے بجائے صرف ''طالبان رجیم‘‘ ہی کہا جانا چاہیے۔ یہ درحقیقت ایک ایسا گروہ ہے جس کے پاس کرائے کے سپاہیوں کی ایک فورس ہے اور یہ لوگ ڈالروں کے عوض دہشت گردی کرتے ہیں۔ ان کے ہاں بے روزگاری کا جن قابو سے باہر ہے‘ جبکہ تعلیمی اداروں میں ایسی مخصوص تعلیم دی جاتی ہے جس کا مقصد صرف مذہبی انتہا پسندی اور نفرت کو فروغ دینا ہے۔1970ء تک افغانستان مکمل طور پر پاکستان کے زیر اثر تھا اور شرپسند عناصر کی سرکوبی کیلئے پاکستان کی انتظامیہ مضبوطی سے کھڑی تھی مگر مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد آنے والی ہر حکومت نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اور وہاں کے مختلف گروہوں کی حمایت شروع کر دی۔ سردار داؤد کے قتل کے بعد ترکئی‘ ببرک اور نجیب اللہ جیسے رہنما ایک کے بعد ایک ختم ہوتے گئے۔ نظریۂ ضرورت کے تحت وزیرِ داخلہ نصیراللہ بابر کی حکمتِ عملی کے ذریعے مخصوص طالبان کی سرپرستی کی گئی اور انہیں اقتدار میں لایا گیا‘ خصوصاً اس وقت جب لیفٹیننٹ جنرل حمید گل کی جلال آباد مہم ناکام ہو گئی تھی۔ بعد ازاں جنرل ضیا الحق کی تنگ نظری اور امریکی صدر جمی کارٹر کی خوشنودی کیلئے افغانستان میں روس کی آمد کے تناظر میں مداخلت کے دروازے کھول دیے گئے اور یوں افغانستان تاریکی میں ڈوب گیا۔
اس وقت جب صدر ٹرمپ نے مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کی مہم شروع کر رکھی تھی‘ وہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے کو ختم کرانے کیلئے بھی کوشاں دکھائی دیے۔ صدر ٹرمپ نے حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد سے بھارتی وزیراعظم کو سائیڈ لائن کرکے ان کے سیاسی مستقبل کو بھی غیر یقینی بنا دیا ہے۔ بھارتی ریاست بہار کے انتخابات میں نریندر مودی کے اتحاد کی شکست کے آثار نمایاں ہیں‘ اور اگر ایسا ہوا تو مودی کی وزارتِ عظمیٰ خطرے میں پڑ جائے گی‘ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ پارلیمنٹ تحلیل کر کے نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ اس صورت میں بھارت میں جو جماعت برسراقتدار آئے گی‘ اس کے ساتھ صدر ٹرمپ کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوسکتی ہے اور جموں و کشمیر کا 78سالہ تنازع کے حل کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔
اُدھر چند روز قبل پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا کہ بھارت کی جغرافیائی وسعت کا تصور ختم کر دیں گے‘ جارحیت پر دشمن کی توقعات سے کہیں زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔ فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایک ایسے دشمن کے خلاف کامیابی حاصل کی جو اپنی گمراہ کن بالادستی کے زعم میں مبتلا تھا۔ اگر بھارت نے دوبارہ جارحیت کی کوشش کی تو اسے توقع سے کہیں زیادہ سخت اور فیصلہ کن جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کے ہتھیار دور مار کرنے والے اور زیادہ نقصان دہ ہیں‘ جو بھارت کے جغرافیائی وسعت کے من گھڑت تصورِ تحفظ کو توڑ دیں گے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے دوٹوک الفاظ میں بھارت کو متنبہ کیا کہ پاکستان دشمن کو ایسے عسکری اور اقتصادی نقصانات پہنچائے گا جو اس کی توقعات سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کیساتھ حالیہ معاہدے نے دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو نئی تقویت دی اور اسے باضابطہ شکل عطا کی ہے۔ یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں امن‘ استحکام اور تعاون کی سمت ایک مثبت قدم ہے۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے واضح کیا کہ پاکستان فلسطین تنازع کے منصفانہ حل کیلئے دو ریاستی فارمولے کے مؤقف پر قائم ہے‘ اور 1967ء سے قبل کی سرحدوں کے اندر القدس الشریف کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے پر زور دیتا ہے۔ ان کا یہ کہنا نہایت اہم ہے کیونکہ ابراہیمی معاہدے کا خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کو فوری طور پر تسلیم کیا جائے اور فلسطین و اسرائیل کو دو ریاستوں کی حیثیت دی جائے۔ یہ معاملہ نہایت حساس ہے‘ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ایک گرینڈ کانفرنس منعقد کر کے اس حوالے سے قومی قیادت کو اعتماد میں لے اور قائداعظم کے نظریات و فرامین کو سامنے رکھے‘ جو ہماری خارجہ پالیسی کی اساس ہیں۔
ماضی میں ملک کی خارجہ پالیسی کے کئی ادوار آئے جن میں نظریاتی بنیادوں کو نظرانداز کیا گیا۔ 1980ء کی دہائی میں سات کروڑ پچاس لاکھ کی آبادی والے ملک میں تیس لاکھ افغان مہاجر آباد کیے گئے اور جنرل ضیا الحق کی پالیسی کے باعث دائیں بازو کی جماعتوں کو پہلی بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا‘ جس سے جمہوریت پسند اور ترقی پسند عناصر کے مفادات کو خطرات لاحق ہوئے۔ ہمارا تمدن بگڑ گیا‘ کرپشن عام ہوئی اور 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات نے زبان‘ فرقے اور ذات برادری کی بنیاد پر سیاست کو فروغ دیا۔ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور اقلیتوں میں بے چینی کی ایک بڑی وجہ یہ بنی کہ جنرل ضیا الحق نے قراردادِ مقاصد کی روح میں ترمیم کر دی۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے 1949ء میں قراردادِ مقاصد کو آئین کے ابتدائیہ کے طور پر شامل کیا تھا جس نے اقلیتوں کے مذہبی آزادی کے حق کو محفوظ بنایا لیکن جنرل ضیا الحق نے اس میں اقلیتوں کی حد تک ترمیم کرتے ہوئے ''آزادانہ‘‘ کا لفظ حذف کر دیا۔قراردادِ مقاصد کی اصل شق کے مطابق اقلیتوں کو آزادی سے اپنے مذاہب پر عمل اور اپنی ثقافتوں کے فروغ کا حق حاصل تھا مگر جنرل ضیا الحق کے اس اقدام نے تحریکِ پاکستان کی روح اور 23 مارچ 1940ء کی قرارداد کی نفی کر دی۔ یہ اقدام اقلیتوں کے حقوق میں غیراخلاقی مداخلت تھا۔ جنرل ضیا الحق نے قراردادِ مقاصد میں یہ تبدیلی خاموشی سے کی جس کا ادراک اٹھارہویں ترمیم کے موجد چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو بھی نہ ہو سکا۔ 18ویں ترمیم کے موقع پر میں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی لیکن انہوں نے کہا کہ اب ترمیمی مسودہ منظور ہو چکا ہے۔ اگر اُس وقت جنرل ضیا الحق کی ترمیم کو حذف کر کے قراردادِ مقاصد کو اصل شکل میں بحال کر دیا جاتا تو ملک مذہبی منافرت کے عذاب سے نجات پا سکتا تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ 27ویں ترمیم میں اس شق کو بحال کر کے 1949ء کی قراردادِ مقاصد کو اصل حالت میں واپس لایا جائے۔
ادھر وفاقی حکومت نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس حوالے سے حکومتِ پنجاب کی جانب سے وفاقی حکومت کو جو سفارشات بھیجی گئیں ان کا گہری نظر سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ عمران خان کی حکومت کے دوران وزیرِ داخلہ شیخ رشید نے بھی اس جماعت کو کالعدم قرار دینے کی کارروائی شروع کی تھی جسے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ' وسیع تر قومی مفاد‘ میں روک دیا۔ بعد ازاں ملک کے ممتاز مذہبی رہنما مفتی منیب الرحمن اور روحانی شخصیت مولانا بشیر فاروقی کی مداخلت سے حالات قابو میں آگئے۔ اُس وقت بھی صورتِ حال کچھ ایسی ہی تھی جیسی اس بار دیکھنے میں آئی تاہم اس بار عوام نے اس جماعت کے مؤقف کو مسترد کر دیا ۔
ملکی معیشت کی بات کی جائے تویہ بحالی کی جانب گامزن ہے اورغیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے امکانات روشن ہیں۔یہ پیش رفت فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ویژن اور حکومتی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اسی تناظر میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر بھی ممکن بنائی جا سکتی ہے‘ جس کا مکمل خاکہ واپڈا اور پلاننگ کمیشن میں موجود ہے۔ اُدھر خیبر پختونخوا کے نو منتخب وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو اپنے صوبے میں کرپٹ وزرا اور مشیروں کا سخت احتساب کرنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے بالاتر ہو کر صوبے کو ایک مثالی فلاحی صوبہ بنانے کی کوشش کریں اور عوامی خدمت کو اولین ترجیح دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved