تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     27-10-2025

عمران خان نے ڈیلر رُلا دیے

جوتوں کے ڈیلر جس بازار میں کام کرتے ہیں وہاں ان کی کلائنٹ ڈیلنگ کی بولی اپنی علیحدہ سے ہوتی ہے۔ بازار کی عام زبان سے الگ تھلگ۔عین اس طرح سے پاکستان کی سیاستِ سرمایہ کاری میں آمریت کے گملے کی پنیری کی بولی بھی علیحدہ ہے۔ اس بولی کے تین اساسی اصول ہیں۔ پہلا ڈیل مانگنا‘ دوسرا ڈیل کرنا اور تیسرا ڈیل لینا۔ یعنی لُٹو تے پھُٹو۔ دوسری جانب جن ملکوں میں پارلیمانی جمہوریت ہے وہاں بنگلہ دیش سے لے کر کینیڈا تک اور بھارت سے لے کر آسٹریلیا تک‘ بلکہ ساری دنیا میں آئین رکھنے والے ملک ہوں یا پارلیمانی جمہوریت والی ریاستیں‘ دونوں ہی ڈیل کے تصور سے پرفیکٹ اجنبی ہیں۔ اس پر ہائبرڈ نظام کو فخر کرنا چاہیے کہ انہوں نے کچھ تو دریافت کر دکھایا۔
دریافت سے یاد آیا ایک گلوبل ادارے Henley & Partners نے اے آئی پاورڈ اینالیٹیکل فرم ایلفا جیو کے ساتھ مل کر ایک عالمی رینکنگ جاری کی ہے‘ جس کا عنوان Global Investment Risk and Resilience انڈیکس ہے۔ اس رینکنگ رپورٹ میں 226 ممالک کو شامل کیا گیا ہے جس میں پاکستان کا سکور 222 نمبر پر آیا ہے۔ جن عوامل کی بنیاد پر رپورٹ بنائی گئی ہے وہ تین ہیں۔ ان میں پہلے نمبر پہ سیاسی عدم استحکام کی صورتِ حال‘ دوسرے نمبر پر کمزور گورننس اور تیسرے درجے پر Limited Innovation ہے؛ یعنی بہت محدود حد تک ایجادات۔ المیہ یہ ہے کہ اس رینکنگ میں پاکستان کی پوزیشن صرف چار ملکوں سے بہتر ہے‘ جن میں پہلا سوڈان ہے‘ دوسری ریاست ہیٹی‘ تیسرا زخموں سے چُور لبنان اور چوتھا سائوتھ سوڈان‘ جو مسلم‘ عیسائی ملیشیا کی جنگوں کا دو عشروں سے مرکز بنا ہوا ہے۔ گلوبل انویسٹمنٹ R&R انڈیکس میں جن ملکوں نے ٹاپ رینکنگ حاصل کی ان میں پہلے نمبر پر سوئٹزرلینڈ ہے۔ عالمی رینکنگ میں دوسرا نمبر ڈنمارک کا ہے۔ تیسرا نمبر ناروے نے حاصل کیا ہے۔ چوتھے نمبر پر ایشیائی ملک سنگاپور آیا ہے اور پانچویں پوزیشن سویڈن نے حاصل کی ہے۔ گورننس کی پرفارمنس کے ان حالات میں پہلے ہائبرڈ نظام کی دریافت اور پھر ڈیل وڈیل جیسی شاہکار دریافت پر جو صورتحال بنتی ہے آپ اسے فی الحال دریافتند کہہ لیں۔
عمران خان پر ہائبرڈ نظام کو سب سے زیادہ غصہ اسی بات کا ہے۔ ڈیلر پہلے سمجھتے تھے زور زبردستی اور دبائو کے ذریعے من مرضی کی ڈیل حاصل کر لیں گے۔ قیدی نمبر 804 کی قید کا پہلا سال مکمل ہوا تو انہیں غصہ آنا شروع ہو گیا۔ یہ ہذیانی کیفیت اس لیے بجا تھی کیونکہ ایک ذوالفقار علی بھٹو کو چھوڑ کر باقی سب لیڈران بندگانِ ڈیل نکلنے۔ اسی عرصے میں ایک بار لاہور‘ کئی بار اڈیالہ جیل کے باہر اور دو مرتبہ جناح ایونیو پہ ڈی چوک کے اندر اور باہر ہزاروں نہتے عوام پر یہ غصہ نکالا گیا‘ مگر ڈیلر پھر بھی ڈیل کو سیل کرنے میں بُری طرح ناکام ہوئے۔ ظاہر ہے بے مرام ٹھہرنے والا غصے میں پاگل نہیں ہو گا تو اور کیا کرے گا۔ اس کیفیت نے عمران خان کے خلاف من گھڑت اور جھوٹے مقدمات کی تین سنچریوں کا ڈھیر لگا دیا۔ مگر ہمارا کپتان ایسا بندۂ آزاد ہے جو ڈیل پر جیل کو ترجیح دیتا ہے۔ میں نے اس جملے کو صرف ترتیب دی ہے۔ یہ جملہ فارم 47 حکومت کے ایک سے زیادہ وزیر بول چکے ہیں۔ 'عمران خان خود باہر نہیں آنا چاہتا اور اپنی مرضی سے جیل میں بیٹھا ہوا ہے‘۔
یہاں میں آپ کو بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ پچھلے تین ماہ میں مصنوعی اقتدار کے جھولے لینے والے تین مرتبہ سخت پریشان پائے گئے۔ نظام کی اس پریشانی کے عرصے میں عمران خان کے لیے اعصاب شکنی کے سارے سیاسی اور نفسیاتی گُر آزمائے گئے۔ میں جو کچھ جانتا ہوں یا سنتا‘ دیکھتا ہوں وہ سب بوجوہ نہیں لکھ سکتا لیکن اتنا بتانا کافی رہے گا کہ ڈیل کی سیل نہ ہونے کی وجہ سے ہائبرڈ نظام کا غصہ قراقرم اور کے ٹو سے ہوتا ہوا ہمالہ کی آخری چوٹی تک جا پہنچا ہے۔ اس کا اظہار تین اقدامات سے ہوتا ہے۔پہلا‘ جب کے پی اسمبلی میں عمران خان کے نامزد قائدِ ایوان سہیل آفریدی کو کسی صورت قبول نہ کرنے کاارادہ پبلک کیا گیا ۔ خیال تھا کہ عمران کے ساتھی تھک چکے ہیں اس لیے جنرل پرویز مشرف کی طرح کی کوئی پیٹریاٹ پارٹی بنا کر عمران خان کے مینڈیٹ پر شب خون مارنا کامیاب رہے گا۔ وفاقی حکومت کے وزیر‘ گورنر کے پی اور دیگر منہ کی کھانے کے بعد اگلے قدم کی طرف لپکے۔ اب کی بار ان لوگوں پر غصہ کیا گیا جو وکٹ کے دونوں جانب کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ جو یہ یقین دہانیاںکرواتے رہے: گل ای کوئی نئیں‘ عمران خان کو مائنس ون کر کے‘ ...... کو اِن کر لیں‘ وہ سب سنبھال لیں گے۔ جس جس کو ہائی ویلیو چوائس سمجھا گیا ان سب نے پچھلوں کا حشر دیکھ کر اگلے قدم سے توبہ کر لی۔ تیسرا قدم پی ٹی آئی پر بحیثیت جماعت پابندی کے لیے جمع کیا گیا میٹریل تھا۔ اس بارے میں نے بابر اعوان آفیشل اکائونٹ پر تفصیلاً بیان کر دیا۔ ساتھ ہی پنجاب میں لاہور کے ایک تاجر کے ماورائے عدالت قتل والی واردات اور مریدکے کا خون آشام واقعہ سامنے آ گیا۔ یوں پاکستان کی ترجیحات نے مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ پہنچ کر نیا ٹوئسٹ لے لیا جس کے بارے میں اتوار کے روز کی اشاعت میں اسرائیل ٹائمز نے حیران کن تفصیلات شائع کی ہیں‘ جن میں مریدکے واقعے کو بھی موضوعِ بحث بنایا گیا جبکہ شہباز شریف کی شرم الشیخ میں مصروفیات پر دو نکات سامنے آئے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کی بیورو کریسی مذہبی شدت پسندی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے برسرِ پیکار ہے۔ دوسرے نمبر پر اسرائیل بطور ریاست ناز کرتا ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی حکومت ہے جس نے ان ریاستی سطح کے مذاکرات میں شرکت کی جس میں اسرائیل بطورِ فریق شریک ہوا ۔ اس رپورٹ کا لیڈنگ پیرا خاصا دلچسپ ہے‘ جس کے مطابق ہماری اشرافیہ جو پاکستان کے لوگوں کے لیے ہارڈ سٹیٹ تجویز کرتی ہے وہ سافٹ کیسے ہو گئی؟
ان حالات میں پاکستان کے حالات کو سنبھالا دینا لیڈرشپ کا کام ہے‘ ڈیلرشپ کا نہیں۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو مشکل ترین حالات میں قوم کو فرنٹ سے لیڈ کرنے کی اہلیت ثابت کرے۔ بندی خانے میں قیدی نمبر 804 متانت سے کھڑا ہے۔ ڈیلر صبح وشام رو رہے ہیں۔
کسی موسم کی فقیروں کو ضرورت نہ رہی
آگ بھی‘ ابر بھی‘ طوفان بھی ساغر سے اُٹھا
بے صدف کتنے ہی دریائوں سے کچھ بھی نہ ہوا
بوجھ قطرے کا تھا ایسا کہ سمندر سے اُٹھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved