اہل سنت والجماعت کے محمد معاویہ اعظم طارق مشہور پارلیمنٹیرین اور مذہبی رہنما مولانا اعظم طارق کے بیٹے ہیں۔ وہ گاہے گاہے مجھ سے رابطے میں رہتے ہیں اور جب بھی لاہور تشریف لائیں تو ملاقات کے لیے ضرور آتے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں ہونے والے اجتماعات کے حوالے سے بھی وہ رابطہ کرتے رہتے ہیں اور کئی مرتبہ ان پروگراموں میں شرکت کی دعوت بھی دے چکے ہیں۔ رمضان المبارک میں مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ پر تراویح کی ادائیگی اور اس کے بعد ہونے والے دروس میں بھی ان کی آمد ہو چکی ہے۔ وہ ایک وسیع القلب نوجوان ہیں اور دینی رہنمائوں کے ساتھ محبت والفت کا رشتہ رکھتے ہیں۔
چند روز قبل مولانا معاویہ اعظم نے مجھ سے رابطہ کیا اور 23 اکتوبر کو ہاکی گرائونڈ اسلام آباد میں ہونے والی شہدائے اسلام واستحکام پاکستان کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔بنگلہ دیش میں مختلف اجتماعات میں شرکت کے لیے مجھے24 اکتوبر کی صبح بنگلہ دیش روانہ ہونا تھا لیکن برادر معاویہ اعظم کے ساتھ دیرینہ تعلقات اور ان کے اصرار کے سبب میں ہاکی گرائونڈ کے جلسے میں شمولیت کے لیے آمادہ وتیار ہو گیا۔ اسلام آباد میں ہماری میزبانی ہمیشہ کی طرح ہمارے دیرینہ دوست مولانا عمر فاروق نے اسلام آباد میں واقع اپنے مرکز میں کی۔ اس موقع پر ان کے فرمانبردار فرزند عبدالمتین اور عبدالمعین بھی موجود تھے۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے عصر کی نماز کے بعد جب ہم ہاکی گرائونڈ پہنچے تو پنڈال کے باہر بڑی تعداد میں نوجوان نظر آئے۔ قرآن وسنہ موومنٹ اسلام آباد کے ذمہ داران برادر طیب رشید اور عثمان انجم ظہیر بھی کارکنان کے ہمراہ موجود تھے۔ دینی اجتماعات میں شرکت کے لیے نوجوان ہمیشہ نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ آبپارہ چوک سے متصل ہاکی گرائونڈ اسلام آباد کی نمایاں جلسہ گاہوں میں شامل ہے اور یہاں مختلف سیاسی ودینی اجتماعات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس اجتماع میں پہنچنے پر مولانا معاویہ اعظم طارق نے خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کیا۔ مہمانوں کے لیے قائم کردہ استقبالیہ کیمپ میں بہت سی نمایاں شخصیات موجود تھیں جبکہ کیمپ میں مہمانوں کیلئے ضیافت کا بھی اہتمام تھا۔ استقبالیہ کیمپ میں کچھ دیر ٹھہرنے اور علما سے ملاقات کرنے کے بعد مولانا معاویہ اعظم مجھے اسٹیج پر لے گئے۔ سٹیج پر بھی علما کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مقررین اپنے اپنے انداز میں استحکام پاکستان کے حوالے سے اپنے مشاہدات اور مؤقف کو لوگوں کے سامنے رکھ رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد مجھے اپنے خیالات کو پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ میں نے اس موقع پر جن خیالات کا اظہار کیا ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ پر رکھی گئی۔ قائدین تحریک پاکستان نے قیام پاکستان سے قبل مختلف مقامات پر اس عزم کا بارہا اظہار کیا تھا کہ آزاد مسلم مملکت کے قیام کا مقصد کتاب وسنت کی عملداری قائم کرنا ہے۔ الحمدللہ! اس ملک کا دستور اور بہت سے قوانین پاکستان میں کتاب وسنت کی عملداری کی ضمانت دیتے ہیں۔ قراردادِ مقاصد اور 1973ء کا آئین اس حوالے سے بالکل واضح ہیں کہ پاکستان میں حاکمیت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ہو گی اور قرآن وسنت کو سپریم لاء کی حیثیت حاصل ہو گی۔ پاکستان کا استحکام اسی بات میں پنہاں ہے کہ یہاں پر کلمہ طیبہ کی عملداری کو برقرار رکھا جائے اس لیے کہ کثیر القومی ریاست میں وحدت کے لیے مذہب سے زیادہ مضبوط بنیاد کوئی دوسری چیز فراہم نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں بسنے والی تمام قوموں کو جس ایک نکتے پر متحد کیا جا سکتا ہے‘ وہ دینِ اسلام ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا آئین بالکل واضح ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں پایا جاتا۔ آئین پاکستان میں محمد رسول اللہﷺ کی ختم نبوت کے منکرین کو دائرہِ اسلام سے خارج قرار دینے کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی حرمت اور ناموس کے تحفظ کی بھی مکمل ضمانت دی گئی ہے۔ اس حوالے سے جو شخص بھی کسی ایسی کارروائی میں ملوث پایا جائے گا تو اس کے لیے انتہائی سزا کے قانون کو طے کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں 295 سی کا قانون انسانوں کے اجتماعی احساسات اور تصورات کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے‘ اس لیے کہ مشرق ومغرب کے دانشوروں نے اس بات پر مکمل اتفاق کیا ہے کہ کسی بھی انسان کی بلاجواز کردار کشی نہیں کی جا سکتی اور جو ایسا کرے گا اس کے خلاف ہتکِ عزت کے تحت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اسی طرح دنیا میں قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں۔ ان قوانین کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی شخص عدالتی فیصلوں کا بلا جواز استہزا کر کے ریاست یا ملک میں افرا تفری اور عدم استحکام کو پیدا نہ کر سکے۔ ہتکِ عزت اور توہین عدالت کے یہ قوانین اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ انسانوں اور اداروں کی عزت اور توقیر انتہائی اہم ہے لیکن یہ بات افسوسناک ہے کہ مغربی دانشور اور مفکرین انسانوں اور اداروں کی عزت و توقیر کی ضمانت تو دیتے ہیں لیکن ناموسِ رسالت کے قوانین کے حوالے سے متعصبانہ رویہ اختیار کر لیتے اور مقدسات کی توہین کو حریتِ فکر اور آزادیٔ اظہار کے تحت بلاسبب جواز دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان اس لحاظ سے قابلِ قدر مملکت ہے کہ یہاں دیگر کئی مسلم ممالک کی طرح حرمتِ رسول کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں جن کی وجہ سے کوئی منفی سوچ وفکر رکھنے والا شخص ناموس رسالت اور حرمت رسول اللہﷺ میں نقب کے حوالے سے جسارت کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ہمارے ملک میں ایک عرصے سے صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ناموس کو یقینی بنانے کے حوالے سے ''ناموسِ صحابہ و اہل بیت بل‘‘ کو منظور کرانے کی کوششیں مذہبی سطح پر کی جاتی رہی ہیں اور کی جا رہی ہیں۔ ماضی میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہونے کے باوجود سابق صدر علوی نے اس پر دستخط نہیں کیے جس کی وجہ سے پاکستان کے مذہبی طبقات کا یہ مطالبہ اور خواہش تشنہ رہ گئی۔ پاکستان میں بہت سے ایسے مؤثر رہنما گزرے ہیں جنہوں نے ناموسِ صحابہ واہل بیت اطہار کے لیے نمایا ں کردار ادا کیا اور اس حوالے سے بہت سی سختیوں کو بھی برداشت کیا لیکن اپنے مؤقف سے کسی بھی طور انحراف نہیں کیا۔ پاکستان کے اسلامی جمہوری تصورات کا یہ تقاضا ہے کہ دینی طبقات کے اس مطالبے کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے اور ناموس صحابہ واہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین بل کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنایا جائے تاکہ مقدسات کی حرمت کے حوالے سے کسی قسم کی بداحتیاطی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ نہ کیا جا سکے۔ ریاست میں قیام امن کے لیے ملک کے تمام طبقات کو پاکستان کے قیام کے سبب یعنی اسلام اور آئین کی بنیاد پر جمع ہوناچاہیے اور جو حقوق پاکستان کے شہریوں کو تفویض کیے گئے ہیں‘ ان حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ شہریوں کو بھی آئین میں دی گئی آزادیوں سے تجاوز کر کے ملک میں افراتفری پھیلانے سے ہر ممکن گریزکرنا چاہیے۔
اس موقع پر سامعین نے مقررین کے خطابات کو انتہائی توجہ کے ساتھ سنا اور ان کی باتوں کی بھرپور انداز میں تائید کی۔ اس عظیم الشان کانفرنس میں شرکت کے بعد واپسی پر تھوڑی دیر کے لیے دوبارہ استقبالیہ کیمپ میں رکنے کا موقع ملا‘ جہاں ملک کی نمایاں مذہبی شخصیات اور اکابرین سے ملاقات ہوئی۔ بعد ازاں کانفرنس کے منتظمین نے بڑی محبت سے الوداع کیا اور یوں یہ کانفرنس اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے مکمل ہوئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved