تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     28-10-2025

گلاس آدھا بھرا ہوا بھی تو ہے!!

گاڑی دو رویہ شاہراہ پر چلے جا رہی تھی کہ سامنے ایک خوبصورت چوک آ گیا۔ ہریالی سے بھرا ہوا۔ اس پر بڑا سا بورڈ نصب تھا ''چاول اور نہروں کا شہر‘‘!! ستم ظریفی یہ تھی کہ یہ خوش کن بورڈ فرنگی زبان میں تھا!
اس کالم نگار کی پھپھو تو کوئی تھی ہی نہیں! خالہ تھیں مگر میری پیدائش سے پہلے ہی چل بسیں! ننھیالی گاؤں کی ایک ہندو خاتون امی جان کی قریبی دوست تھیں اور ان کی شادی پر شہ بالی بنی تھیں۔ اگر وہ یہاں رہتیں تو میں یقینا انہیں خالہ کہتا اور سمجھتا! مگر میری پیدائش سے تقریباً ایک برس پہلے ہندوستان تقسیم ہوا اور وہ بھارت سدھار گئیں! یوں میں خالہ اور پھپھی دونوں کے پیار سے محروم رہا۔ جب دیکھتا ہوں کہ میرے بچوں کی خالائیں انہیں کتنا پیار کرتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ رشتہ کتنا شیریں ہے! ان کی خالائیں ان کے لیے سویٹر بُنتی تھیں‘ تحائف لاتی تھیں۔ بڑی بہن جب میرے بچوں پر شفقت نچھاور کرتی ہیں تو سوچتا ہوں کہ کوئی پھپھو ہوتیں تو مجھ سے ایسا ہی پیار کرتیں! میرے اس پس منظر کے ساتھ جب بیگم نے بتایا کہ ان کے خالہ زاد بھائی کا انتقال ہو گیا ہے تو انہیں کہا کہ ہمیں تعزیت کیلئے وہاں جانا چاہیے۔ ہم نے ایک دن وہاں گزارا۔ یہ ایک عجیب دن تھا اور عجیب منظر تھا۔ بیگم کے ننھیالی رشتہ داروں نے ان کے گرد ہجوم کیا ہوا تھا۔ بچے‘ بوڑھے‘ خواتین‘ خالاؤں کے باقی ماندہ فرزند‘ پوتے اور نواسے سب موجود تھے!! کبھی قہقہے تھے تو کبھی اشکبار آنکھیں! یادیں تھیں اور باتیں! فلاں کہاں ہے! فلاں کیا کرتا ہے‘ فلاں کی وفات ہو گئی‘ فلاں بیمار ہے! یہ کس کی پوتی ہے‘ وہ کس کا نواسہ ہے! کڑی سے کڑی جوڑی جا رہی تھی۔ سلسلے سے سلسلہ مل رہا تھا! لوگ کاغذ وں پر لکھے ہوئے بے جان شجرے حرزِ جاں بنا کر رکھتے ہیں جبکہ زندہ رشتہ دار نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بیگم کے اردگرد ان کا شجرہ جاندار صورت میں‘ زندہ سلامت موجود تھا! ماشاء اللہ آدھا شہر بیگم صاحبہ کے اعزہ واقارب پر مشتمل تھا۔ جسے بھی معلوم ہوتا کہ خالہ صغریٰ مرحومہ کی بیٹی آئی ہے‘ کشاں کشاں انہیں ملنے آ جاتی یا ملنے آ جاتا! خون کی کشش سچی ہو تو درمیان میں دنیاوی سٹیٹس پڑتا ہے نہ مالی اور طبقاتی رکاوٹیں نہ جغرافیائی فاصلے! دوسری صبح روانگی سے پہلے ہم ناشتہ کر رہے تھے۔ دیکھا تو بیگم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ پھر نجانے کب پھیرا لگے! کب ملاقات ہو! کس حالت میں ہو! پُلوں کے نیچے سے پانی مسلسل بہہ رہا ہے! تغیر ہر لمحے کچھ سے کچھ کر رہا ہے!
چاول اور نہروں کیلئے مشہور یہ شہر حافظ آباد تھا۔ کبھی گوجرانوالہ ضلع کی تحصیل اور اب خود ایک ضلع!! خوشی ہوئی کہ موٹر وے سے اتر کر حافظ آباد تک بہت اچھی اور آرام دہ دو رویہ شاہراہ ہے‘ جو آگے گوجرانوالہ تک چلی جاتی ہے۔ چاول کی سنہری فصل اس شہر اور اس علاقے کی شناخت ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان وجو د میں آیا تو تب بھی کم ازکم چاول کی 23ملیں اس شہر میں قائم تھیں۔ 1993ء میں جب شہر کو تحصیل سے ضلع بنایا گیا تو دو لاکھ گیارہ ہزار ایکڑ زمین پر چاول کی کاشت ہو رہی تھی۔ 2020ء میں یہ رقبہ بڑھ کر تین لاکھ چھیالیس ہزار ایکڑ ہو گیا۔ حافظ آباد کا باسمتی چاول دنیا بھر میں مشہور ہے۔ سب سے زیادہ مانگ اسی کی ہے۔ ابو الفضل اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''آئین اکبری‘‘ میں جس چاول کو ''مُشکین‘‘ یعنی خوشبودار کا نام دیتا ہے‘ باسمتی ہی ہے۔ چاول اگانے والے کسان نسل در نسل اسی پیشے سے منسلک ہیں!
اٹھارہویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں جب سکھ پنجاب پر قابض ہو رہے تھے‘ حافظ آباد کے مسلمانوں نے سب سے زیادہ مزاحمت کی۔ حافظ آباد کی ایک وجۂ شہرت اردو کے نامور صحافی اور ادیب دیوان سنگھ مفتون (1890-1975ء) بھی ہیں جو حافظ آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ہفت روزہ ''ریاست‘‘ شروع کیا جس میں ا نگریز دور کی نیم خود مختار ریاستوں کی اُن ناانصافیوں اور مظالم کا ذکر ہوتا تھا جو ان ریاستوں کے حکمران اپنے عوام پر روا رکھتے تھے۔ ریاستوں کے راجے مہاراجے اور نواب دیوان سنگھ مفتون سے اور ان کے انقلابی ہفت روزہ سے خائف رہتے تھے! مفتون صاحب کی تصنیف ''ناقابلِ فراموش‘‘ اردو ادب کا یادگار حصہ ہے اور پڑھنے کے قابل! ان کی دوسری تصنیف ''سیف وقلم‘‘ مشاہیر کے حالات پر مشتمل ہے!
حافظ آباد سے ہم قلعہ دیدار سنگھ گئے جہاں اس کالم نگار کی تایا زاد بہن رہتی ہیں! تایاجان کے بچے اور ہم گاؤں میں اکٹھے پلے بڑھے! درختوں پر چڑھے! کھیتوں میں دوڑے! شرارتیں کیں! مزے اڑائے! دادی جان ہم سب کی روٹیوں پر مکھن کے بڑے بڑے‘ پہاڑ جیسے پیڑے رکھ دیتی تھیں! پھر ہم اپنی اپنی زندگیوں میں‘ الگ الگ شہروں میں‘ اٹک کر رہ گئے! احمد مشتاق کا مشہور شعر یاد آ رہا ہے!
کیا زمانہ تھا کہ سب ساتھ رہا کرتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے!
ذہن میں قلعہ دیدار سنگھ کی جو تصویر تھی وہ ایک گاؤں کی تھی۔ سوچ رہا تھا کہ بہت بڑا کچا صحن ہو گا‘ ایک طرف بھینس بندھی ہو گی اور دوسری طرف بکریاں! مرغیاں الگ چر پھر رہی ہوں گی! کوئی کام کرنے والی بی بی درخت کی چھاؤں میں بیٹھی دودھ رڑک رہی ہو گی! مگر قلعہ دیدار سنگھ تو بڑے شہروں کو بھی مات کر رہا تھا۔ ایک سے ایک جدید انداز میں تعمیر شدہ گھر! بڑے بڑے‘ مصروف بازار! الیکٹرانک کی چمکتی دمکتی دکانیں! لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے کالج!! چاول کی بہت بڑی منڈی اس کے علاوہ ہے! مکین یہاں کے خوشحال ہیں اور خوش! قلعہ دیدار سنگھ عین اس دو رویہ شاہراہ پر واقع ہے جو حافظ آباد سے گوجرانوالہ جا رہی ہے! یوں یہ حافظ آباد کا حصہ بھی لگتا ہے اور گوجرانوالہ کا بھی!!
ہم پاکستانی یورپ‘ امریکہ اور جاپان وغیرہ کی سیر کے بہت شائق ہیں مگر اپنے ملک کے شہروں‘ قصبوں اور بستیوں سے یکسر غافل! اپنے ملک کی بات کریں گے بھی تو یوں جیسے مصیبت کا ذکر کر رہے ہیں! کیا ہم احساسِ کمتری میں مبتلا ہیں؟ مجھے تو اپنے ملک کا ہر شہر‘ ہر قریہ‘ ہر کوچہ وبازار لندن اور واشنگٹن سے زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔ جہاں جہاں ترقی ہو رہی ہے‘ دیکھ کر دل کو اطمینان ہوتا ہے۔ لوگوں کو کام میں مصروف دیکھ کر خوشی ہو تی ہے۔ بازار خریداروں سے چھلک رہے ہیں! منڈیوں میں خرید وفروخت ہو رہی ہے۔ کھیت پکی فصلوں سے بھرے پڑے ہیں! سارے موسم میسر ہیں۔ قسّامِ ازل نے تمام لینڈ سکیپ عطا کیے ہیں! ہم ناشکرے‘ شکایت کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ بیس پچیس سال پہلے ہمارا معیارِ زندگی کیا تھا اور آج کیا ہے! اعداد وشمار کا گورکھ دھندا الگ بات ہے لیکن ہم پاکستانی پڑوسی بھارتیوں سے بہتر کھا رہے ہیں اور بہتر پہن رہے ہیں! جسے یقین نہ آئے جا کر دیکھ لے!
دنیا کی سیر ضرور کرو مگر پہلے اپنا ملک تو دیکھ لو! شاید اس کی قدر آ جائے! صوبوں کے اندرون میں جاؤ! کیا ہمیں معلوم ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں زیتون کے پودے لگ رہے ہیں؟ نئے سے نئے رقبے پھلوں کی کاشت کیلئے مختص ہو رہے ہیں! یہی وہ ملک ہے جہاں چند دہائیاں پہلے سٹرابیری تھی نہ لیچی‘ چیکو تھا نہ ناریل نہ جاپانی پھل! کاجو کسی نے دیکھا تک نہ تھا! مشرقی پاکستان سے آنے والے کیلا سوغات کے طور پر لاتے تھے! آج سب کچھ یہیں پیدا ہو رہا ہے! اور افراط میں پیدا ہو رہا ہے! گلاس آدھا خالی ہے تو اللہ کے بندو! آدھا بھرا ہوا بھی تو ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved