تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     28-10-2025

افغانستان کی بین الاقوامی تنہائی

جغرافیائی‘ ثقافتی اور تاریخی رشتوں کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں ہمیشہ سے تناؤ رہا ہے۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں اور سکیورٹی چیلنجز کے پس منظر میں دونوں ممالک نے قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا ہے جو علاقائی استحکام کیلئے اہم پیش رفت ہے۔ مذاکرات کا پہلا دور 19 اکتوبر کو دوحہ میں ہوا جہاں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا جو کہ ابتدائی کامیابی تھی۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسرا اہم دور 25 اکتوبر کو ترکیہ کے شہر استنبول میں شروع ہوا تاکہ سرحد پار دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ایک قابلِ تصدیق نگرانی کا نظام تشکیل دیا جا سکے اور باہمی تعلقات میں استحکام لایا جا سکے۔استنبول میں ہونے والی دو روزہ طویل نشستوں کے بعد جو تفصیلات سامنے آئیں‘ وہ انتہائی حوصلہ شکن تھیں کیونکہ یہ مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ اس تعطل کی بنیادی وجہ افغان قیادت کا وہ متضاد اور غیر سنجیدہ رویہ ہے جو کالعدم ٹی ٹی پی کو اب بھی بچانے یا ان کی سرپرستی کی کوشش کر رہا ہے۔ افغان طالبان ایک عرصے سے خود کو ٹی ٹی پی سے الگ کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں مگر استنبول میں انہوں نے حیران کن طور پر ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحد سے دور کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی پیشکش کی۔ یہ پیشکش بذاتِ خود افغان طالبان کے اس دعوے کی نفی ہے کہ ان کا ٹی ٹی پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام افغان طالبان کی طرف سے ٹی ٹی پی کی مکمل پشت پناہی اور سرپرستی کا ثبوت ہے۔ جواباً پاکستان نے افغان طالبان کے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں بسانے کے مطالبے کو قطعی طور پر مسترد کر دیا۔ قبل ازیں داخلی سطح کے کئی فورمز پر پاکستان اس امر کا اظہار کر چکا ہے کہ وہ پی ٹی آئی دور کی ٹی ٹی پی کو ملک میں بسانے کی غیر دانشمندانہ پالیسی کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ لہٰذا پاکستان نے اپنے حتمی مؤقف کو ایک بار پھر دہراتے ہوئے واضح کیا کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے اور یہ کہ پاکستان قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ پاکستان کا مطالبہ غیرمبہم اور مبنی بر اصول ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن اور ٹھوس کارروائی کریں‘ ان کے ٹھکانوں کو ختم کریں اور عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے اپنے وعدوں پر سختی سے عملدرآمد کریں۔
ایسے نازک اور اہم قومی سلامتی کے معاملے کو ہینڈل کرنے کیلئے یہ ضروری تھا کہ افغان قیادت تجربہ کار اور نامور شخصیات کو مذاکرات کیلئے روانہ کرتی لیکن استنبول مذاکرات میں افغان قیادت کی قابلِ ذکر شخصیات میں سے کوئی موجود نہیں تھی۔ افغان وفد کی قیادت نائب وزیر داخلہ مولوی رحمت اللہ نجیب کر رہے تھے اور ان کے ہمراہ انس حقانی‘ وزارتِ دفاع کے عہدیدار نور الرحمن نصرت اور دیگر نسبتاً کم تجربہ کار شخصیات شامل تھیں۔ ظاہر ہے کہ افغان اس وفد کے پاس قوتِ فیصلہ کا اختیار نہیں ہو گا‘ انہیں کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے اپنی اعلیٰ قیادت سے مشورہ درکار ہو گا‘ یہ صورتحال مذاکرات کی کامیابی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے برعکس پاکستانی وفد کی نمائندگی عسکری ادارے‘ انٹیلی جنس اور وزارتِ دفاع و خارجہ کے اعلیٰ حکام پر مشتمل تھی۔ مذاکرات میں شامل پاکستان کی اعلیٰ قیادت کی موجودگی پاکستان کی امن کی کوششوں اور سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ افغان قیادت نے پاکستان سے مذاکرات کیلئے کم تجربہ کار وفد کیوں بھیجا؟ یہ سوال افغان طالبان کی جانب سے اس مسئلے کا دیرپا حل نکالنے کی کوششوں کی سنجیدگی پر سوالیہ نشان ہے۔
یہ حقیقت اب آشکار ہو چکی ہے کہ افغان قیادت بھارت کی ایما پر پاکستان سے تعلقات خراب کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ بھارت طویل عرصے سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس ضمن میں سب سے حساس معاملہ آبی وسائل کا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت افغانستان کو دریائے کنڑ سمیت کئی دیگر مقامات پر آبی منصوبوں کیلئے بھاری فنڈز اور تکنیکی معاونت کی پیشکش کر چکا ہے تاکہ پاکستان کو پانی کی فراہمی محدود یا بند کی جا سکے۔ اگر بھارت اور افغان حکومت کا منصوبہ عملی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ ڈیم پاکستان کی آبی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ بن سکتے ہیں کیونکہ اس کا براہِ راست اثر دریائے کابل کے بہاؤ پر پڑے گا۔ دریائے کابل سے پاکستان کو سالانہ تقریباً 16.5ملین ایکڑ فٹ پانی ملتا ہے‘ جو خیبرپختونخوا کے اضلاع پشاور‘ چارسدہ اور نوشہرہ میں گندم‘ مکئی اور گنے جیسی اہم فصلوں کی آبپاشی کیلئے بہت ضروری ہے۔ بھارت پہلے ہی سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر کے بین الاقوامی آبی قوانین کی خلاف ورزی کر چکا ہے‘ اور اب افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے پاکستان کے مغربی آبی راستے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان نے اس ممکنہ آبی گٹھ جوڑ کے مقابلے میں ایک جامع دفاعی حکمتِ عملی تیار کرنا شروع کر دی ہے۔ اس حکمتِ عملی کا مرکزی منصوبہ چترال ریور ڈائیورشن پروجیکٹ ہے‘ جس کے ذریعے دریائے چترال کو افغانستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی سوات بیسن کی طرف موڑنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس منصوبے سے نہ صرف دشمن کی آبی جارحیت ناکام بنے گی بلکہ پاکستان کو 2453میگاواٹ تک صاف اور قابلِ تجدید توانائی حاصل ہو گی۔ مزید برآں اس منصوبے سے ہزاروں ایکڑ نئی زمین زیرِ کاشت آئے گی‘ سیلابی خطرات میں کمی آئے گی اور ورسک و مہمند ڈیم کے ذخائر میں بھی نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ چترال ریور منصوبہ پاکستان کی آبی خود مختاری کے مکمل دائرہ کار میں آتا ہے اور یہ بین الاقوامی قوانین کے عین مطابق ہے۔ اس لیے افغان قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کے ہاتھوں استعمال ہو کر اپنے برادر اسلامی ہمسایہ کے ساتھ تعلقات خراب کرنا ایک خطرناک گیم ہے۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ دوحہ میں جنگ بندی پر اتفاق اور ستنبول میں مذاکرات کے باوجود افغانستان کی سرزمین سے پاکستانی فورسز پر حملے جاری ہیں۔ یہ ناقابلِ فہم صورتحال افغان طالبان کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مذاکرات میں صرف اور صرف دہشت گردی کے خاتمے پر زور دے رہا ہے۔ اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے دو ٹوک انداز میں انتباہ جاری کیا ہے کہ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پھر افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے۔ افغان قیادت کو اس انتباہ کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے اور صرف اپنی تجارت اور معاشی مفادات کو ترجیح دینے کے بجائے فوری طور پر دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرنی چاہیے تاکہ اس ممکنہ تصادم سے بچا جا سکے۔ استنبول مذاکرات پاکستان اور افغانستان کیلئے سرحدی معاملے کو حل کرنے سمیت امن قائم کرنے کا اہم موقع ہیں۔ افغان قیادت کو اب کسی بھی طرح کے تذبذب اور دوغلے پن کو ترک کرنا ہو گا۔ دہشت گردوں کو پناہ دینے یا بھارت کے مبینہ گٹھ جوڑ سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش ملک کو تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ کابل محض لفاظی کے بجائے ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات کی جانب بڑھے اور اس نازک موڑ سے فائدہ اٹھائے۔ بصورتِ دیگر ان مذاکرات کی ناکامی خطے کو عدم استحکام کی نئی لہر سے دوچار کر دے گی اور افغانستان کی موجودہ بین الاقوامی تنہائی اور معاشی بدحالی میں مزید شدت لائے گی۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں افغان قیادت کو فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے فغانستان کو پُرامن و مستحکم ملک بنانا ہے یا پھر وہ دنیا سے کٹ کر بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہی رہنا چاہتے ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved