تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     28-10-2025

سی ایس ایس امتحان، نظرثانی کی ضرورت

2024ء کا سی ایس ایس کا حتمی نتیجہ آ چکا ہے۔ اعداد و شمار خاصے دلچسپ بلکہ کسی حد تک خوفناک بھی ہیں۔ کُل 15ہزار 602 امیدواروں نے اپلائی کیا‘ 397 نے تحریری امتحان پاس کیا‘ 168 انٹرویو میں فیل ہوئے‘ یعنی تقریباً 43 فیصد امیدوار انٹرویو میں بورڈ ممبران کو بالکل امپریس نہ کر سکے‘ اور آخر میں صرف 229 امیدوار کامیاب ہوسکے جو کُل امیدواروں کا تقریباً ڈیڑھ فیصد بنتا ہے‘ یعنی 98.5فیصد امیدوار کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ صورتحال ہمارے نظامِ تعلیم کے ناقص ہونے کی دلیل بھی ہے مگر اس امتحان میں بذاتِ خود بھی کئی سقم ہیں جنہیں دور کرنا ضروری ہے کیونکہ قابل‘ مضبوط اور کرپشن سے پاک بیوروکریسی اچھی گورننس اور ملکی ترقی کیلئے از حد ضروری ہے۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کامیاب ہونے والوں میں تقریباً 45 فیصد کا تعلق صنفِ نازک سے ہے۔
بیورو کریسی کے بارے میں مجموعی تاثر ہمارے ہاں منفی ہے لیکن یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ انگریز نے ہمیں جو سول سرونٹ دیے تھے‘ ان کی گردن میں کچھ سریا ضرور تھا‘ وہ منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بھی بولتے تھے لیکن ان میں کئی خوبیاں بھی تھیں۔ میرٹ پر سلیکٹ ہونے کی وجہ سے ان کی اکثریت خاصی قابل تھی‘ چند ایک رشوت لیتے ضرور تھے لیکن آج کے مقابلے میں بہت کم۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان میں سیاسی پریشر کو اگنور کرنے کی صلاحیت تھی۔ اگر کوئی ایم این اے یا ایم پی اے کوئی غلط کام کہتا تو یہ قانون کا حوالے دے کر معذرت کر لیتے۔ ان کی ملازمتوں کو قانونی تحفظ حاصل تھا مگر اب ایسا نہیں ہے‘ لہٰذا ڈپٹی کمشنر اور ایس پی ایم این اے کو 'نو سر‘ نہیں کہہ سکتے۔ خصوصاً اگر ایم این اے کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہو۔ لیکن انگریز کی تیار کردہ اُس بیورو کریسی نے دو بڑے شاندار کام کیے۔ انڈیا سے آنے والے لاکھوں مہاجرین کو زمینیں اور گھر الاٹ کیے‘ اور 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں پاکستان کی اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں سرکاری افسران کی دستوری گارنٹی واپس لے لی گئی۔ اب افسر سیاسی آقاؤں کے رحم و کرم پر تھے۔ جو ایماندار تھے وہ کھڈے لائن جاب ڈھونڈنے لگے۔ جو کرپٹ تھے انہوں نے سیاستدانوں کے ساتھ مل کر خوب مزے کیے۔ اب بیورو کریسی غیر جانبدار نہیں رہی تھی۔ ہر نئی حکومت کے آتے ہی ہوشیار افسر اپنا قبلہ درست کرنے لگتے تھے۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے فیورٹ افسر چن لیے۔ نتیجہ بیڈ گورننس کی صورت میں نکلا۔ عام آدمی کیلئے انصاف کا حصول مشکل ہو گیا۔
ہمارا معاشرہ کئی لحاظ سے اب بھی قبائلی ہے چونکہ گورننس اچھی نہیں لہٰذا عام آدمی عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے۔ لہٰذا ہر فیملی کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا کوئی عزیز ڈپٹی کمشنر یا ڈی آئی جی ہو۔ 1950ء کی دہائی میں مقابلے کا امتحان دینے والے متعدد امیدوار فارن سروس کو سرفہرست لکھتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ اس سال سرفہرست کامیاب ہونے والے بیس امیدواروں میں سے انیس نے PASیعنی DMGکا انتخاب کیا ہے۔ ایک نے پولیس کا انتخاب کیا ہے۔ جس معاشرے میں جنگل کا قانون ہو وہاں پاور فل ہونا ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں اعلیٰ ملازمتوں کو سماجی زینے کو پھلانگنے کا راستہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اب بھی امیدواروں کا ایک حصہ لوئر مڈل کلاس سے آتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں یہ طبقہ کوشش کرتا ہے کہ مالی لحاظ سے اچھی جاب لے کر اپر مڈل کلاس میں چلا جائے اور وہ افسر جو اپر مڈل کلاس سے آتے ہیں ان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ اشرافیہ میں شامل ہو جائیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک وزیر نے بیان دیا تھا کہ بیورو کریسی کے کئی لوگ پرتگال کی شہریت لے چکے۔ چند روز چائے کی پیالی میں اُبال آیا اور پھر وہ بات طاقِ نسیاں میں چلی گئی۔ جب تک مسلسل‘ شفاف اور بے لاگ احتساب نہیں ہوگا کرپٹ لوگوں کو نکیل نہیں ڈالی جا سکتی۔
معاف کیجئے‘ بات ذرا موضوع سے ہٹ گئی۔ کہنے کو سی ایس ایس مقابلے کا امتحان ہے لیکن یہ مقابلہ بھی سو فیصد خالص نہیں ہوتا۔ نامراد کوٹہ سسٹم یہاں بھی دودھ میں مینگنیاں ڈال دیتا ہے۔ 1973ء کے آئین میں تحریر تھا کہ دس سال بعد کوٹہ سسٹم ختم ہو جائے گا لیکن یہ آج تک جاری ہے۔ جس سال‘ 1971ء میں مَیں نے امتحان دیا تو میری 14ویں پوزیشن تھی۔ پندرہویں نمبر پر زاہد مراد تھا۔ زاہد کی شدید خواہش تھی کہ اسے فارن سروس ملے مگر پنجاب کا ڈومیسائل ہونے کی وجہ سے اسے بادل نخواستہ پولیس سروس میں جانا پڑا۔ بالکل یہی حالت 17ویں نمبر پر آنے والے فرید نواز کی تھی۔ اگر کوٹہ سسٹم نہ ہوتا تو یہ دونوں قابل افسر فارن سروس میں جاتے‘ مگر اپنے ڈومیسائل کی وجہ سے تھانیداری پر مجبور ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے میرٹ کو نقصان پہنچا ہے۔ جنرل ضیا الحق نے اس کوٹہ سسٹم کو مزید تقویت دی۔ معلوم نہیں ہمارا معکوس سفر کب ختم ہو گا۔
مجھے سی ایس ایس کے موجودہ طرزِ امتحان میں دو بڑے سقم نظر آتے ہیں۔ انگلش مضمون لازمی پیپر ہے اور اس مضمون میں سب سے زیادہ امیدوار فیل ہوتے ہیں۔ جو لوگ سی ایس ایس میں کامیاب ہو کر افسر بنتے ہیں کیا انہوں نے سروس پاکستان میں کرنی ہے یا انگلستان میں؟ دراصل دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ امیدوار اپنا مافی الضمیر کتنی اچھی طرح بیان کر سکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ انگلش کے علاوہ اردو مضمون بھی لازمی ہو اور پھر دونوں کی اوسط نکال لی جائے۔ دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ انٹرویو کیلئے 300 نمبر مختص ہیں۔ اس سال انٹرویو میں متعدد امیدوار فیل ہوئے ہیں۔ انٹرویو بھی کسی حد تک اُن سفارشی امیدواروں کو آگے لانے کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے جو تحریری امتحان میں اچھے نمبر نہیں لے پاتے۔ ان امیدواروں کا تعلق عموماً اشرافیہ سے ہوتا تھا۔ میری رائے میں انٹرویو کے نمبر 150سے زائد نہیں ہونے چاہئیں۔ سائیکولوجیکل ٹیسٹ بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ جب بھٹو صاحب کی سروس ریفارمز کے بعد سرکاری افسران بددل ہونے لگے تو سی ایس ایس نئے گریجوایٹس کا مطمح نظر نہ رہا۔ اچھے قابل لوگ نجی شعبے میں جانے لگے۔ میرے اپنے بچوں میں سے کسی نے گورنمنٹ جاب کی کبھی خواہش نہیں کی۔ ہمارے اپنے بیچ کا ٹاپر عارف ذوالفقار ورلڈ بینک میں اور نمبر ٹُو محمود علی ایوب آئی ایم ایف میں چلا گیا۔ طارق بنوری پی ایچ ڈی کرنے ہارورڈ یونیورسٹی گیا اور اب امریکہ ہی میں پڑھا رہا ہے۔
آج اختصاص کا زمانہ ہے‘ اب عمومی مہارت سارے کام نہیں چلا سکتی لیکن ہمارے ہاں وہی دقیانوسی سسٹم چل رہا ہے۔ ایک ڈی ایم جی افسر آج کسی ضلع میں ڈپٹی کمشنر ہے تو کل اسے باہر کمرشل قونصلر لگا دیا جاتا ہے حالانکہ دونوں عہدے اور ان کے فرائض بالکل مختلف ہیں۔ ہمیں ہیومن ریسورسز کے نئے نظریات اپنانے کی ضرورت ہے۔ سول سروس‘ فارن سروس‘ پولیس سروس‘ آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سب کے فرائض علیحدہ ہیں۔ سب کیلئے سلیکشن کا طریقہ مختلف ہونا چاہیے۔ اکاؤنٹس اور انکم ٹیکس میں ایسے لوگوں کو ترجیح دی جائے جن کا تعلیمی بیک گراؤنڈ فنانس اور اکاؤنٹنگ کا ہو۔ فارن سروس میں ایسے لوگوں کو لیا جائے جو افتادِ طبع کے اعتبار سے Extrovert ہوں۔ دوست بنانے کا فن جانتے ہوں۔ کوئی نہ کوئی غیرملکی زبان جانتے ہوں۔
سی ایس ایس کا رزلٹ ہمارے معاشرے اور اس کے رویوں کا بیرو میٹر یعنی پیمانہ بھی ہے۔ 1971ء میں زاہد مراد اور فرید نواز اس بات پر نالاں تھے کہ پنجاب کا ڈومیسائل ہونے کی وجہ سے انہیں پولیس سروس قبول کرنا پڑی۔ آج اعلیٰ پوزیشن لینے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں PAS/DMG یا پولیس سروس ملے۔ آپ یقین کریں کہ جب میری 14ویں پوزیشن آئی تھی تو والد صاحب نے دعا کی تھی کہ میرا بیٹا فارن سروس میں جائے مگر آج کے والدین ایسی دعا نہیں مانگتے۔ یہ ہماری معکوس ترقی کا واضح ثبوت ہے۔ ہمیں ایسی بیورو کریسی چاہیے جو آج کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔ مختصراً یہ کہ سارے امتحانی اور سلیکشن سسٹم پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved