تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     29-10-2025

عوامی حمایت کے بغیر جنگیں لڑنا مشکل ہوتا ہے

استنبول میں طالبان کے ساتھ مذاکرات تو ہو رہے ہیں لیکن ان سے نکلنا کچھ نہیں۔ پاکستان کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ طالبان حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ایکشن لے اور اُن کی طرف سے دراندازی روکے۔ اتنی سمجھ تو ہمارے فیصلہ سازوں کو ہونی چاہیے کہ طالبان ایسا نہیں کریں گے‘ ٹی ٹی پی ہر لحاظ سے طالبان کے ساتھی ہیں۔ بھلا وہ ساتھیوں پر بندوق تانیں گے؟ لہٰذا امن کی باتیں جتنی ہوتی رہیں یہ جنگ ہم پر مسلط ہو چکی ہے اور خیبر پختونخوا میں کسی کو بھول نہ رہے سرحد اور اُس کے گرد ونواح پاکستان کو ایک باقاعدہ گوریلا جنگ کا سامنا ہے۔
ہتھیاروں کا استعمال تو اس جنگ میں ہونا ہی ہے لیکن سابقہ قبائلی علاقوں کے عوام اس جنگ کے بارے میں گومگو کی صورتحال میں رہیں تو یہ جنگ کیسے لڑی جائے گی؟ ہماری سپاہ اور خیبر پختونخوا کے عوام ایک جگہ ہونے چاہئیں اور ان کی سوچ اور ان کے جذبات میں کوئی دراڑ نہیں ہونی چاہیے۔ یہی اس جنگ میں سرخرو ہونے کی بنیادی شرط ہے۔ خیبر پختونخوا کوئی عام صوبہ نہیں اور پختون قوم کا اپنا مزاج اور اپنی روایات ہیں۔ یہ جنگجو قسم کے لوگ ہیں اور ہر گھر میں ایک چھوڑ کئی کئی ہتھیار موجود ہوں گے۔ ضیا الحق کے زمانے سے پہلے مغربی سرحد کا دفاع یہی قبائل کرتے تھے جو آج عسکری آپریشنوں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کو آن بورڈ ہونا چاہیے تبھی اس خطرناک صورتحال کا صحیح اور مؤثر سامنا کیا جا سکتا ہے۔ خون تو بہہ رہا ہے‘ ہمارا جانی نقصان ہو رہا ہے اور یہ اب اُس لیول پر پہنچ گیا ہے کہ ہم سب کو تشویش ہونی چاہیے۔ اس لیے اب ناگزیر ہو گیا ہے کہ اس صورتحال کا صحیح ادراک کیا جائے۔
پختون قوم کو باور کرانے کی ضرورت ہے کہ طالبان کی سوچ اور اُن کی طرزِ زندگی افغانستان میں تو چل سکتی ہے ہمارے پختونوں کے مزاج سے بالکل مختلف ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں جب طالبان اور القاعدہ کا راج قبائلی علاقوں میں قائم ہوا تھا تو اُس کا نتیجہ ظلم اور بربریت تھا۔ لیکن پختونوں کو یہ کون بتائے گا؟ اُن کے اپنے لوگ ہی بتا سکتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب اُن کے اپنے لوگ فیصلہ سازی کا حصہ ہوں۔ یہ کیا صورتحال ہم نے بنا رکھی ہے کہ سپاہ ہماری گولیوں کا سامنا کر رہی ہے اور پختونوں کے جو اصلی نمائندے ہیں اُن سے ایک سردجنگ چل رہی ہے۔ یہ ایک نہ چلنے والا سلسلہ ہے جسے انگریزی میںuntenable کہتے ہیں۔
سپاہ کی کمان نے جارحانہ حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہی وقت کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی تو سوچا جائے کہ خیبر پختونخوا کی نمائندہ حیثیت کون سی جماعت رکھتی ہے؟ خیبر پختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کو روکنے کی کوشش نہ کی گئی تھی؟ لیکن اُس میں ناکامی ہوئی کیونکہ کے پی اسمبلی کی بھرپور اکثریت سہیل آفریدی کے ساتھ تھی۔ کچھ بھی گنجائش ہوتی تو اُسے وزیراعلیٰ نہ بننے دیا جاتا‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پھر وہ جو زبان بول رہا ہے‘ جو کچھ کہہ رہا ہے اس بے باکی کے پیچھے یہ احساس ہے کہ عوام میرے پیچھے کھڑے ہیں۔ اگر یہ بچوں کا تماشا ہوتا پھر تو ہم اپنی مختلف حرکتوں میں لگے رہتے لیکن یہ ملک کی بقا اور مستقبل کا سوال ہے۔ کدورتیں ہوں گی‘ نفرتیں بھی ہوں گی‘ لیکن قومی اُفق پر خطرات منڈلا رہے ہوں تو ایسی نفرتوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ ایسے میں انسان کو چھوٹی اور ذاتی رنجشوں سے اوپر اُٹھنا پڑتا ہے۔ مدبرانہ رویہ اسے ہی کہتے ہیں۔
رجیم چینج ہو گیا ‘ قمر جاوید باجوہ قومی منظر نامے سے غائب ہو چکا ہے۔ اب ایک نئی صورتحال ہے جس میں ایک نئی سوچ اور نئی اَپروچ کی ضرورت ہے۔ قیدی نمبر 804 کی فوری رہائی کا خطرہ بیشک مول نہ لیا جائے لیکن سلسلۂ مشاورت تو قائم ہونا چاہیے اور اُس میں اُن کی شمولیت ضروری ہے‘ نہیں تو مشاورت بے معنی رہ جاتی ہے۔ اس کیلئے پہلا قدم یہ ہے کہ یہ تماشا ختم ہو کہ خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ اڈیالہ جیل کے گیٹ پر کھڑا رہے اور اُس کی ملاقات اپنے قائد سے نہ ہو سکے۔ ملاقات کا اہتمام ہو جائے تو آدھی سیاسی ٹینشن ویسے چلی جائے گی۔ کے پی میں کابینہ بننی ہے‘ اُس کیلئے سہیل آفریدی کی ملاقات اڈیالہ میں ہو جاتی ہے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ ترجیحات کی بات ہے۔ اس وقت ملک کو سب سے سنگین مسئلہ کون سا درپیش ہے؟ کے پی کی صورتحال اور طالبان کے ساتھ جنگ۔ اسے جنگ کا نام دیں یا نہ دیں‘ جنگی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ باقی رنجشیں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ اس تناظر میں سیاسی سرد جنگ جو ملک میں جاری ہے اُس کی متحمل قوم نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا التماس ہی کی جا سکتی ہے کہ سیاسی سرد جنگ سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈا جائے۔
یہ بھی دیکھا جائے کہ وزیراعلیٰ کے پی نے آخر غلط بات کون سی کی ہے۔ موجودہ صورتحال کا تجزیہ جو وہ پیش کر رہا ہے اُس سے کیا اختلاف ممکن ہے؟ کہہ رہا ہے کہ وار آن ٹیرر کے حوالے سے جو فیصلے کئے گئے اُن کے نتیجے میں پختونوں کی سرزمین کی تباہی ہوئی۔ طالبان اور القاعدہ کے جتھے ہمارے قبائلی علاقوں میں منتقل ہو گئے اور یہاں اُنہوں نے دہشت پر مبنی ایک نظام قائم کیا۔ پھر ان عناصر کے خلاف جو آپریشن کئے گئے اُن میں لوگوں کے گھر تباہ ہوئے اور وسیع پیمانے پر نقل مکانی ہوئی۔ آپریشنوں کے بعد بحالی کا جو کام ہونا چاہیے تھا اس اندا ز سے نہ ہوا اور لوگوں کے دلوں میں نفرتوں نے جنم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ اب جب ملٹری آپریشنوں کی دوبارہ بات ہوتی ہے تو وہاں کے لوگ سہم جاتے ہیں۔ طالبان کے حمایتی وہ بالکل نہیں ہیں لیکن نقل مکانی سے ڈرتے ہیں۔ ایسے وسوسوں کو دور کرنا اور لوگوں کے ذہنوں کو نئی صورتحال کیلئے تیار کرنا‘یہ افسر شاہی کا کام نہیں۔ عوام کے حقیقی نمائندے سامنے آئیں‘ لوگوں سے وہ ملیں‘ پورے قبائلی علاقے میں امن جرگے منعقد کئے جائیں اور پختونخوا کے عوام کو باور کرایا جائے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ صرف پختونوں کی نہیں بلکہ قوم کی مشترکہ جنگ ہے۔
یہ جو تہمت لگائی جاتی ہے کہ افغانستان سے واپس آئے جنگجوؤں کو مختلف علاقوں میں سابقہ پی ٹی آئی حکومت نے آباد کیا اس میں کتنی صداقت ہے؟ یہ پالیسی کس کی تھی؟ مراد سعید اور اُس جیسے کئی تھے جو چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ یہ تباہی کا راستہ کیوں چنا جا رہا ہے۔ لیکن اُن کی نہ سنی گئی اور اپنی ذمہ داری پر خاموشی کا پردہ ڈال کر الزام معتوب جماعت پر لگایا جا رہا ہے کہ جنگجوؤں کو واپس وہ لائی جو کہ سراسر غلط ہے۔ 40 سال کی افغان پالیسی کے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔ اس پالیسی کے تشکیل ہونے میں عوام یا قوم کا تو کوئی حصہ نہ تھا۔ ان 40 سالوں میں پوری افغان پالیسی قوم پر ٹھونسی گئی اور یہی کہا گیا کہ قوم کے عظیم مفاد میں ہے۔ آج جب سب کچھ اُلٹ ہو گیا ہے اب تو ہوش کے ناخن لیے جائیں اور عوامی مشاورت کو پالیسی سازی کا حصہ بنایا جائے۔
یہ قوم سرکاری ضد اور ہٹ دھرمی کی ماری ہوئی ہے۔ قوم کی زندگی میں جو بڑے فیصلے آئے سب کے سب اوپر سے ٹھونسے گئے کیونکہ قوم کو اس قابل ہی نہ سمجھا گیا کہ اپنے فیصلے وہ خود کر سکتی ہے۔ اب تو ان پرانے رویوں میں کچھ تبدیلی آنی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved