تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     29-10-2025

فضائی آلودگی میں لاہور کا پہلا نمبر

ابھی تک پنجاب میں سیلاب متاثرین میں ریلیف کارڈوں کی تقسیم مکمل نہیں ہو سکی اور ان کے سیلابی ریلوں سے خس و خاشاک کی طرح بہہ جانے والے گھروں بلکہ گھروندوں کو دوبارہ کھڑا نہیں کیا جا سکا کہ فضائی آلودگی نے پنجاب بالخصوص لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ گزشتہ کئی برس سے لاہور دنیا میں فضائی آلودگی سے سب سے زیادہ متاثرہ شہروں کی فہرست میں شامل رہا ہے۔ دنیا میں آبی اور صوتی آلودگی کے سروے تو ہوتے رہتے ہیں مگر ان سروے رپورٹوں کے میڈیا میں آنے کا رواج ابھی عام نہیں ہوا۔ اگر یہ سروے بھی عام ہو جائیں تو آبی اور صوتی آلودگی میں سارا پاکستان بالخصوص پنجاب بہت آگے ہو گا۔ دنیا بھر میں آپ دریاؤں اور نہروں کو دیکھیں تو پانی اتنا شفاف ہو گا کہ آپ اس میں آپ اپنا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن وطن عزیز میں نہروں‘ دریاؤں اور سمندر کی آلودگی سے آپ بخوبی آگاہ ہیں۔ لاہور کے بیچوں بیچ نہایت خوبصورت نہر بہتی ہے‘ اس کے حسن و جمال اور رنگا رنگ روشنیوں کا ہر طرف چرچا ہے‘ مگر اس نہر کے گدلے پانی نے اس کے چاند جیسے حسن کو گہنا دیا ہے۔ اسی طرح ہمارے چھوٹے بڑے شہروں میں ہارن بجاتی گاڑیاں‘ گھروں اور کاروں میں لگے بلند آواز گانے اور اوپن ورکشاپوں سے آنے والا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا ہوتا ہے۔ مہذب دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ وہاں ہارن وغیرہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں‘ گھروں میں بھی کوئی بلند آواز میں میوزک لگاتا ہے تو پڑوسی فوراً پولیس بلا لیتا ہے۔
اب آئیے فضائی آلودگی کی طرف۔ گزشتہ کئی برس کی طرح اس سال بھی لاہور فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہے۔ عالمی سطح پر ہوا کا معیار جانچنے کیلئے ایئر کوالٹی انڈیکس کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر شہر کے ایئر کوالٹی انڈیکس میں روزانہ تھوڑی بہت تبدیلی آتی رہتی ہے‘ تاہم گزشتہ پانچ چھ روز کی رپورٹ کے مطابق لاہور کا اوسط اے کیو آئی لیول 378‘ دہلی 288‘ ڈھاکہ167 اور کولکتہ کا 157رہا ہے۔ گزشتہ روز کی ادارہ جاتی اور اخباری رپورٹوں کے مطابق اس ہفتے کے دوران لاہور کے پانچ بڑے سرکاری ہسپتالوں میں فضائی آلودگی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کے باعث 19 ہزار مریض داخل ہوئے۔ ان امراض میں نمونیا‘ شدید نوعیت کی خشک کھانسی‘ سینے کی شدید سوزش‘ آنکھوں میں جلن اور انفلوئنزا وغیرہ کے امراض شامل ہیں۔ اوپر ہم نے سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے 19 ہزار مریضوں کا ذکر کیا ہے‘ تقریباً اتنی ہی تعداد اُن مریضوں کی بھی ہو گی جنہوں نے نجی ہسپتالوں اور اتائی معالجین کا رُخ کیا یا دیسی ٹوٹکے استعمال کرکے ان امراض سے نجات پانے کی کوشش کی۔
اب ذرا اُن شہروں کا احوال بھی سن لیں جہاں چند برس پہلے تک فضائی آلودگی زوروں پر تھی لیکن اب ان شہروں نے اس پر مکمل قابو پا لیا ہے۔ یہاں فضائی آلودگی سے مراد سموگ ہے۔ دھند کے ساتھ جب سیاہ دھوئیں کے بادل شامل ہو جائیں تو اسے سموگ کہتے ہیں۔ دنیا میں جن شہروں نے فضائی آلودگی پر مکمل طور پر قابو پا لیا ہے‘ ان کی کامیابی کی کہانی آج کے دور میں ہم سب کے سامنے ہے مگر ہم ان ملکوں میں اختیار کیے گئے طریقوں سے کما حقہٗ فائدہ نہیں اٹھاتے۔ لندن کے فضائی آلودگی سے مکمل طور پر نجات پانے کی کہانی کو دنیا بھر میں ایک کامیاب گرین ماڈل کے طور پر دیکھا جاتا اور اس کی تقلید کی جاتی ہے۔ 1950ء کی دہائی میں لندن میں سموگ اپنے عروج کو پہنچی ہوئی تھا۔ بالخصوص 1952ء کے بدترین سال میں تقریباً چار ہزار اہلِ لندن فضائی آلودگی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ پھر انگلستان نے 1956ء میں کلین ایئر ایکٹ منظور کیا جس میں مزید بہتری کیلئے پارلیمنٹ اب تک کئی بار ترامیم کر چکا ہے۔ اس ایکٹ میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ تمام گھروں اور فیکٹریوں کو کوئلے کے بجائے بجلی پر شفٹ کیا جائے‘ نیز گاڑیوں کو الیکٹرک اور ہائبرڈ بنایا جائے۔ یہ ایکٹ بنتے ساتھ ہی اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ سینٹرل لندن تک گاڑیوں کی رسائی کم کرنے کیلئے گاڑیوں کے دھوئیں کو کم ترین سطح پر لانے کی شرط عائد کی گئی۔ اس کے علاوہ صنعتوں کو سینٹرل لندن سے باہر نکالا گیا اور ان میں کوئلے کے استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ پبلک ٹرانسپورٹ اور سائیکل سواری کو فروغ دینے کیلئے کئی طرح کے قانونی و عملی اقدامات کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لندن میں سلفر ڈائی آکسائیڈ لیول بہت کم ہو گیا۔
ٹوکیو بھی کبھی فضائی آلودگی کے حوالے سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ پھر انہوں نے نہایت عمیق سٹڈی سے یہ معلوم کیا کہ اس کے اسباب کیا ہیں۔ سٹڈی کے بعد جاپانی حکومت اور ٹوکیو کے صنعتکاروں پر عیاں ہوا کہ 1960ء اور 1970ء کی دہائی کے دوران ٹوکیو میں بڑی بڑی صنعتوں اور فیکٹریوں کے لگنے سے یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا۔ تب سے اب تک ٹوکیو میں گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھوئیں پر عائد شدید پابندیوں کی بنا پر یہ شہر فضائی آلودگی سے تقریباً پاک ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ جاپان میں گزشتہ چند دہائیوں میں گاڑیوں کو پٹرول سے الیکٹرک اور ہائبرڈ پر تیزی سے شفٹ کیا گیا۔ فیکٹریوں کی چمنیوں سے نکلنے والے دھوئیں کو ایڈوانس فلٹرز اور جدید ٹیکنالوجی سے بڑی حد تک کنٹرول کر لیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 2000ء کے بعد سے شاذو نادر ہی ٹوکیو میں سموگ کی وارننگ جاری ہوئی ہے۔ یہی کہانی سنگا پور کی ہے۔ ڈھاکہ وغیرہ میں بھی صورتحال بہت بہتر ہے۔
دوسری طرف ہم ہیں‘ جہاں ہر سال بلند بانگ دعووں کے باوجود پنجاب بالخصوص لاہور بدترین فضائی آلودگی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔ صرف شہروں میں ہی نہیں‘ نومبر سے صوبے کی تمام موٹرویز پر بھی سموگ کا راج ہوتا ہے۔ شدید سموگ کی وجہ سے موٹر ویز بند کر دی جاتی ہیں جس سے گاڑیوں کی آمدورفت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ متعلقہ حکام کو سوچنا چاہیے کہ دنیا کے دیگر ممالک یا شہروں کی طرح لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں سموگ کی روک تھام کیوں نہیں ہو سکی؟ اس کی بڑی وجہ کوئی مربوط ماحولیاتی پالیسی موجود نہ ہونا ہے۔ فضائی آلودگی پر قابو پانے کے حوالے سے موجودہ حکومتی پالیسی کی مثال مشہور پنجابی مثل کے مطابق ایسی ہے کہ ''بوہے آئی جنج وِنو کُڑی دے کَن‘‘۔ صوبائی حکومت فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے سارا سال کوئی اقدام نہیں کرتی اور جب اکتوبر‘ نومبر میں صوبے کے بیشتر شہر فضائی آلودگی کی زد میں آ جاتے ہیں تو صوبائی بھاگ دوڑ شروع کر دیتی ہے۔ ایک طرف دنیا پبلک ٹرانسپورٹ کی طرف آ رہی ہے‘ دوسری طرف لوگ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں نئی پٹرول گاڑیاں خرید رہے ہیں۔ لاہوریوں کی ضروریات کے مطابق پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اورنج ٹرین اور گرین بسیں اچھے اقدامات ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اسی طرح دھوئیں والے بھٹوں اور فیکٹریوں کو مکمل طور پر لاہور سے باہر نہیں نکالا جا سکا۔ کہنے کو تو صوبے میں فصلوں کی باقیات جلانے پر پابندی عائد ہے مگر عین سموگ کے دنوں میں آپ کو موٹر وے پر دورانِ سفر جا بجا کھیتوں سے اٹھتے ہوئے شعلے دکھائی دیتے ہیں۔
فضائی آلودگی پر مستقل طور پر قابو پانے کیلئے ہمیں مذکورہ بالا شہروں اور ملکوں سے بہت کچھ سیکھنے اور ان کے اقدامات اپنے ہاں رائج کرنے اور سموگ کنٹرول ضابطوں کی سو فیصد پابندی کو اپنے شہروں کے مزاج کا حصہ بنانے پر زور دینا ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved