تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     29-10-2025

ایسٹ انڈیا کمپنی او ر مرہٹہ مزاحمت

ایسٹ انڈیا کمپنی‘ جو تجارت کی غرض سے ہندوستان آئی تھی‘ آہستہ آہستہ اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ ہدف تجارت سے سیاست اور سیاست سے حکومت تک کا سفر تھا۔ بنگال کے نواب سراج الدولہ نے کمپنی کے عزائم کو بھانپتے ہوئے بھرپور مزاحمت کی لیکن میر صادق جیسے غداروں کی وجہ سے اسے 1757ء میں پلاسی کے میدان میں شکست ہوئی۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اہم کامیابی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اگلی کامیابی 1764ء میں ملی جب بکسر کی جنگ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج نے بنگال کے نواب میر قاسم‘ اودھ کے نواب شجاع الدین الدولہ اور اُس وقت کے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کی متحدہ فوج کو شکست دی۔
بنگال پر تسلط حاصل کرنے کے بعد اب ایسٹ انڈیا کمپنی کا اگلا ہدف میسور کی ریاست تھی جس کا سربراہ حیدر علی تھا۔ جس نے میسور کو عسکری طور پر ایک مضبوط اور سیاسی لحاظ سے ایک خود مختار ریاست بنانے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ اس نے میسور کی گمنام ریاست کو ہندوستان کی ایک خود مختار اور خوشحال ریاست بنا دیا تھا۔ حیدر علی ایسٹ انڈیا کمپنی کے عزائم سے باخبر تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں کمپنی کی افواج سے کئی جنگیں کیں اور ان میں کامیابی حاصل کی۔ حیدر علی کے بعد ٹیپو سلطان نے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھایا اور میسور کی آزادی کے لیے کئی جنگیں لڑیں اور آخر کار سرنگا پٹم کی لڑائی میں 1799ء میں جامِ شہادت نوش کیا۔ جس طرح سراج الدولہ کو میر جعفر نے دھوکا دیا تھا اسی طرح ٹیپو سلطان میر صادق کی سازش کا شکار ہو گیا۔
ہندوستان میں مغل سلطنت برُی طرح لڑ کھڑا رہی تھی۔ ہندوستان میں طاقت کے اس خلا میں مرہٹوں نے اپنے آپ کو منظم کیا اور ایک مضبوط طاقت کی صورت میں سامنے آئے۔ ادھر ایسٹ انڈیا کمپنی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت قدم بہ قدم ہندوستان کے مختلف حصوں پر اپنا تسلط جما رہی تھی۔ کمپنی کی فوج نے بنگال‘ بہار اور اڑیسہ پر اپنا تسلط جمانے کے بعد اب میسور اور مرہٹوں کی طرف رُخ کر لیا تھا۔ مرہٹوں کی بڑھتی طاقت کوکنٹرول کرنا اس لیے بھی ضروری تھا تاکہ کمپنی کو تجارتی راستوں پر تسلط حاصل ہو سکے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی مناسب وقت کی تلاش میں تھی جب مرہٹوں کی طاقت پر ضرب لگائی جا سکے۔ گورنر جنرل ہیسٹنگز نے کمپنی کے مفادات کو بڑھاوا دینے کے لیے ہندوستان کے مختلف علاقوں کو زیرِ تسلط لانا شروع کر دیا تھا۔ جلد ہی اسے یہ موقع مل گیا جب پونا میں اچانک حالات نے کروٹ لی۔ اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔ 1761ء کی پانی پت کی جنگ میں احمد شاہ درانی کے ہاتھوں مرہٹوں کی شکست نے ان کی طاقت کو سخت دھچکا پہنچایا۔ مرہٹوں کے پیشوا بالا جی باجی راؤ کا ایک بیٹا‘ دو بھائی اور کئی مرہٹہ سردار اس جنگ میں ہلاک ہو گئے۔ اس جنگ نے مرہٹہ سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا۔ کل تک ہندوستان کی اہم طاقت مانی جانے والی یہ سلطنت پانی پت کی جنگ کے بعد تنکوں کی طرح بکھر گئی۔ مرہٹوں کے پیشوا بالا جی باجی راؤ کے لیے یہ ایک جاں لیوا صدمہ تھا اور اسی صدمے نے اس کی جان لے لی۔ یوں پانی پت کی جنگ کے چند ماہ بعد ہی مرہٹے اپنے پیشوا سے بھی محروم ہو گئے۔
پانی پت کی جنگ نے پہلے ہی مرہٹوں کی کمر توڑ دی تھی‘ ایسے میں ان کے پیشوا باجی راؤ کی موت نے ان کو بے جان کر دیا۔ یہ مرہٹوں کیلئے ایک انتہائی نازک وقت تھا‘ سب کی نگاہیں پیشوا کی خالی مسند کی طرف تھیں۔ بالا جی باجی راؤ کے بھائی رگھو ناتھ راؤ کو یقین تھا کہ مرہٹوں کا نیا پیشوا وہی ہو گا لیکن اس کی تو قعات کے برعکس بالا جی باجی راؤ کے سولہ سالہ بیٹے کو نیا پیشوا بنا دیا گیا۔ یوں رگھوناتھ راؤ کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ لیکن اسے یقین تھا کہ مادھوراؤ کم سن ہے اور وہ ریاستی معاملات نہیں چلا سکے گا لیکن مادھو راؤ نے اپنی انتظامی مہارت اور معاملہ فہمی سے سب کو حیران کر دیا۔ اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج مرہٹوں کی بکھری ہوئی طاقت کو متحد کرنا اور ان کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنا تھا۔ مادھوراؤ نے اس مقصد کیلئے عملی اقدامات کیے اور حیرت انگیز طور پر دس سال کے عرصے میں مرہٹوں کی کھوئی ہوئی توقیر بحال کر دی اور مرہٹہ طاقت ایک بار پھر ہندوستان کے نقشے پر ایک اہم قوت بن کر اُبھری۔ مادھوراؤ نہ صرف ایک اچھامنتظم تھا بلکہ وہ غیرمعمولی سیاسی سوجھ بوجھ کا بھی مالک تھا۔ اس نے مرہٹوں کے سرداروں سے خوشگوار تعلقات رکھے اور گوالیار‘ اندور‘ پونا‘ ناگپور اور برودا کے مرہٹہ سرداروں کو فیصلہ سازی میں شریک گیا۔
ادھر مر ہٹہ سیاست کی بحالی کا سفر جاری تھا اور دوسری طرف مادھوراؤ کا چچا رگھو ناتھ راؤ سازشوں کے جال بُن رہا تھا کہ کس طرح مادھوراؤ کو ناکام بنایا جا ئے اور وہ خود پیشوا کی مسند پر بیٹھ سکے۔ مادھو راؤ ا پنے چچا کے عزائم سے بے خبر نہ تھا۔ شروع شروع میں تو اس نے رگھو ناتھ کی سرگرمیوں کو نظر انداز کیا لیکن جب پانی سر سے گزرنے لگا تو اس نے سخت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا اور رگھو ناتھ راؤ کو اس کے گھر میں نظر بند کر دیا اور اس کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی۔ مرہٹہ سلطنت کا ترقی کا سفر جاری تھا کہ مادھو راؤ کو ایک جان لیوا بیماری نے آلیا اور وہ 1772ء میں اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکا۔ یوں مادھوراؤ کا دس سالہ کامیاب دور اختتام کو پہنچا۔ مادھوراؤ کے بعد ایک بار پھر اس کے چچا نے پیشوا بننے کی امید لگا لی لیکن اس بار بھی اس کا خواب پورا نہ ہو سکا اور مادھوراؤ کے بھائی نارائن راؤ کو نیا پیشوا بنا دیا گیا۔ نارائن راؤ مادھو راؤ کے برعکس ایک ناکام منتظم ثابت ہو‘ا اس نے اپنے چچا رگھو ناتھ راؤ کی ہمدردیاں جیتنے کیلئے اس کی نظر بندی ختم کر دی۔ نارائن کا خیال تھا کہ اس خیر سگالی کے اقدام کے نتیجے میں رگھو ناتھ اس کا شکرگزار ہو گا لیکن یہ اس کی خوش فہمی تھی۔ رگھو ناتھ کے اندر پیشوا بننے کی خواہش اب مزید شدت اختیار کر گئی تھی۔ انتظامی امور پر کمزور گرفت کے باعث نارائن کے دوسرے مرہٹہ سرداروں کے ساتھ تعلقات بھی خوشگوار نہ تھے۔ ادھر رگھوناتھ نے پیشوا نارائن کے گرد گھیرا تنگ کر دیا تھا۔ نارائن کے دربار میں رگھوناتھ کے کارندوں نے اپنی راہ بنا لی تھی اور آخر ایک روز موقع پا کر انہوں نے پیشوا نارائن کو قتل کر دیا۔
نارائن کا کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے رگھوناتھ کو پیشوا بننے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ اس نے خود ہی اپنے پیشوا ہونے کا اعلان کر دیا۔ جلد ہی لوگوں میں یہ خبر پھیل گئی کہ پیشوا نارائن کا اصل قاتل رگھوناتھ راؤ ہے جو اَب مرہٹوں کا پیشوا بن گیا ہے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ دنوں بعد خبر ملی کہ نارائن راؤ کی بیوی گنگا بائی نے ایک بیٹے کو جنم دیا ہے۔ مرہٹہ سردار نانا فرنویس نے گیارہ سرکردہ مرہٹہ سرداروں کو جمع کیا اور ان سے مشورے کے بعد اعلان کر دیاکہ مرہٹوں کا نیا پیشوا نارائن کا بیٹا سوائی مادھو راؤ ہوگا جس کی عمر اس وقت صرف چالیس دن تھی۔(جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved