''ووٹ کسی اور کا‘‘... یہ جملہ ایک نوجوان کے منہ سے یونہی نہیں نکلا۔ یہ کسی وقتی ابال کا نتیجہ نہیں۔ یہ برسوں سے رگوں میں گھلتی ہوئی مایوسی کا اظہار ہے‘ ایک ایسی کیفیت کا اعلان جو اَب فقط دلوں میں نہیں بلکہ زبانوں پر آ چکی ہے۔ وہ رات کوئی غیر معمولی نہ تھی جب ایک نوجوان ہاتھ میں موبائل کیمرہ لیے ایک بااثر وزیر کے سامنے کھڑا تھا۔ وزیر صاحب بڑے اطمینان سے اپنی کارکردگی کے قصے سناتے رہے‘ لیپ ٹاپ دیے‘ سکول اَپ گریڈ کیے‘ کچھ یونیورسٹیوں کی عمارتوں پر رنگ روغن کیا گیا‘ چند سیمینارز ہوئے‘ چند نئے پروجیکٹس کے افتتاح ہوئے۔ وزیر صاحب کے خیال میں یہ سب کافی تھا کہ نوجوان جھک کر کہہ دے گا کہ حضور! ووٹ تو آپ ہی کا بنتا ہے۔ مگر نوجوان کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ تھی‘ جو اعتراف بھی تھی اور انکار بھی ''جی لیپ ٹاپ ملا تھا... مگر امید مر چکی ہے!‘‘ جب وزیر صاحب نے آخری تیر چھوڑا کہ ''تو پھر ووٹ؟‘‘ تو اس پر نوجوان نے بغیر ہچکچاہٹ کے جواب دیا: ووٹ کسی اور کا! یہ جملہ اس وقت پورے پنجاب میں گونج رہا ہے۔ یہ صرف ایک فرد کا اعلان نہیں‘ ایک نسل کا فیصلہ ہے۔ نسل تب قائل ہوتی ہے جب سڑک پر‘ سکول میں‘ گھر میں اور ہسپتال میں تبدیلی دکھائی دے۔ صرف تقریریں‘ اشتہار نما پروجیکٹ اور سیاسی پوسٹر مستقبل کا فیصلہ نہیں بنتے۔
پنجاب کا گورننس ماڈل کاغذات پر بہت حسین ہے مگر حقیقت میں پہلا ہی قدم ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے گڑھوں میں دھنس جاتا ہے۔ بارش ہو تو شہر دریا بن جاتے ہیں‘ سیوریج ادھر اُدھر سے ابلنے لگتا ہے۔ صوبہ بھر میں ایک کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں‘ یہ محض ایک عدد نہیں‘ ایک کروڑ خوابوں کی بے کفنی ہے۔ اساتذہ فریاد کر رہے ہیں کہ ان کی روزی کے فیصلے فائلوں کے کھیل نے تباہ کر دیے ہیں جبکہ سپریم نعرہ یہ ہے کہ ''تعلیم ہماری ترجیح ہے‘‘۔ اگر یہ ترجیح ہے تو پھر ہر روز اس ترجیح کا جنازہ کیوں اٹھتا ہے؟ لوگ سوال کرتے ہیں: ہماری جیب میں کیا آیا؟ ہماری روٹی کیوں چھن رہی ہے؟ یہ سوالات مزید تلخ ہو جاتے ہیں جب منڈی کا احوال سامنے رکھیں۔ ایک دن ٹماٹر 800 روپے‘ دوسرے دن پیاز 200 روپے‘ دودھ دہی کی قیمتیں روز نئی بلندیوں کو چھوتی ہیں‘ گوشت متوسط طبقے کے لیے خواب و خیال ہو چکا ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ سب ٹھیک ہے۔سب ٹھیک کا مطلب کیا صرف حکمرانوں کا پروٹوکول اور تام جھام ہے؟ لوگ پوچھتے ہیں (اور شدید غصے میں) کہ اربوں روپے کا بجٹ کہاں گیا؟ یہ سوال اس وقت مزید سخت ہو جاتا ہے جب رپورٹس یہ بتاتی ہیں کہ صرف ایک مالی سال میں ایک ہزار ارب روپے کے آڈٹ اعتراضات کھڑے ہوئے۔ یہ اعتراضات کس صفحے میں دفن ہیں؟ فائلیں کیوں بند ہو گئیں؟ کسے فائدہ پہنچا؟ سوالات بے شمار ہیں مگر جواب نہیں ملتے‘ اور جب جواب نہ ملیں تو نوجوان کا فیصلہ مزید مضبوط ہو جاتا ہے... ووٹ کسی اور کا۔
مالی نظم اور شفافیت کی کہانی میں ایک دلچسپ باب ہے ٹھیکوں کی منڈی۔ پنجاب کے ایک ضلع میں ایسا بھی ہوا کہ ایک کمپنی‘ جس کے مالیاتی کاغذوں پر سوالیہ نشان تھے‘ کروڑوں روپے کا ٹھیکہ اسے ملا وہ بھی جعلی بینک سٹیٹمنٹ پر۔ سی ای او بلدیہ‘ متعلقہ ڈپٹی کمشنر سب کے علم میں تھا لیکن سب خاموش! پھر آواز اُٹھی تو فوراً اپنا بچائو شروع کر دیا۔ کیا ضلع کے سربراہ کو ہٹایا گیا؟ نہیں! بلکہ کمپنی کو پورے بارہ ٹھیکے دے دیے گئے۔ بات صرف ٹھیکوں کی نہیں‘ معاملہ یہ ہے کہ ان سب ٹھیکوں کی شرح ''ایک جیسی‘‘ تھی۔ ٹینڈر ایسے جیسے ایک ہی ہاتھ سے نقل ہوئے! جیسے کسی نے کہا ہو کاپی پیسٹ کر دو‘ عوام کو کیا پتا لگنا ہے۔ نگرانی کرنے والے غالباً چھٹی پر تھے یا یوں کہہ لیں کہ نگرانی سے زیادہ سمجھوتا اہم تھا۔ جب معاملہ سامنے آیا تو متعلقہ افراد چھٹی لے کر منظر سے غائب‘ انکوائری کے نام پر خانہ پُری‘ خاموش سمجھوتے اور سب کچھ حسبِ سابق جاری۔ عوام سوال کرتے ہے کہ کیا یہ سب ''میرٹ‘‘ ہے؟ یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ تعیناتیاں بھی کسی فلمی سکرپٹ سے کم نہیں۔ سیلاب نے لاہور کے در و دیوار ہلائے تو انتظامیہ کہاں تھی؟ لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر محصور کھڑے مدد کے لیے پکارتے رہے مگر اس دوران اچانک متعلقہ ٹائون میں ایک اہم افسر کی تعیناتی ہوئی۔ سوال یہ نہیں کہ وہ کون تھا۔ سوال یہ کہ وہی کیوں تھا؟ کس کا ہاتھ سر پر تھا؟ کس نے کہا تھا کہ یہ وہ بندہ ہے جو یہاں ٹھیک بیٹھے گا؟ لوگ چہ مگوئیاں کرتے ہیں: پہلے کسی کا دستِ راست تھا‘ عہدہ خدمت کے لیے نہیں تعلقات کے عوض ملا ہے۔ کہانی زبانوں پر آ چکی مگر نام اب بھی دبے ہوئے ہیں۔ یہاں میرٹ پر سوال پوچھنا بھی سیاست سمجھا جاتا ہے۔
محکمہ صحت کا سارا زور بھی صرف کاغذوں تک محدود ہے۔ ہسپتالوں میں بیڈز کی شدید کمی ہے‘ عملہ تھکا ہوا ہے اور مریض بے بس۔ آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے مگر محکمہ آبادی کو ہی پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ جیسے حکومت نے کہہ دیا ہو کہ یہ مسئلہ ہم نہیں‘ قدرت ہی حل کرے گی۔ اسی لیے نوجوان کہتا ہے: اب بس! اب بات سیاسی نعرے سے آگے بڑھ چکی ہے۔ آج کا نوجوان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے ہمیں مستقبل دو‘ ماضی کے وعدے نہیں! یہی وہ لمحہ ہے جب حکمرانوں کے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے۔ جب ایک وزیر ایک نوجوان کو قائل نہ کر سکے تو سوچیں پوری قوم کو کون قائل کرے گا؟ اگر واقعی کارکردگی شاندار ہے تو بلدیاتی انتخابات کا خوف کیوں؟ آئینی تاویلات اور تاخیری حربے کس ڈر کا اعتراف ہیں؟ شفاف انتخابات تو حقیقت کا آئینہ دکھاتے ہیں۔
آگے بڑھتے ہیں! لاہور کی ایک تازہ سانحہ خیز کہانی یہ ہے کہ ''محفوظ بسنت‘‘ کے نام سے ہونے والے اجلاس کی کارروائی کی سیاہی ابھی سوکھی نہ تھی کہ کٹی پتنگ کی ڈور لاہور میں ایک جان لے گئی۔ تفریح کے وعدے میں موت کی پرچی کیوں؟ سوال یہ ہے کہ اس 'قتل‘ کے مقدمے میں ملزم ''نامعلوم‘‘ کیوں لکھا گیا؟ جب ریاست ذمہ داری چھپاتی ہے تو نوجوانوں کی زبان پر یہ جملہ مہر بن کر ٹھہر جاتا ہے: ووٹ کسی اور کا۔ بات بہت سیدھی ہے! جب اصل مالک یعنی عوام کی رائے کو دبایا جاتا ہے‘ جب نظام خود اپنی ناکامی کو چھپاتا ہے‘ جب مستقبل بے یقینی کی قید میں ہو تو ووٹ بدل جاتے ہیں۔ یہ جملہ ''ووٹ کسی اور کا‘‘ کسی جلسے کا نعرہ نہیں‘ یہ نئی نسل کا مقدمہ ہے۔ اس قوم کے روشن دماغوں کی اجتماعی سوچ ہے۔ یہ وارننگ بھی ہے اور امید بھی۔ یہ انکار بھی ہے اور اثبات بھی۔
یہ اعلان حکمرانوں کے لیے آخری الارم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر پھر بھی نہ جاگے تو تاریخ کی عدالت تو اپنا فیصلہ سنا کر ہی رہتی ہے۔ اللہ اس قوم کی حالت پر رحم کرے کہ اس کے نوجوان بے باکی سے سچ بول رہے ہیں‘ انصاف مانگ رہے ہیں‘ مستقبل چاہتے ہیں مگر اختیارات اب بھی کچھ بند دروازوں کے پیچھے بند ہیں۔ تاہم ایک حقیقت طے ہے کہ جب نوجوان برسر عام یہ کہنے لگیں کہ ''ووٹ کسی اور کا‘‘ تو سمجھ لیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے‘ ہوائوں کا رخ بدل چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved