تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     29-10-2025

علم کی نعمت

عبداللہ بن عبدالرزاق نبراس انسٹیٹیوٹ بنگلہ دیش کے ترجمان ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے طول وعرض میں بہت سے مدارس اور سکول چلا رہے ہیں۔ ان کے والد گرامی عبدالرزاق بن یوسف نبراس انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین اور بنگلہ دیش کی جانی پہچانی علمی شخصیت ہیں۔ عبدالرزاق بن یوسف صاحب کے دروس‘ لیکچرز اور خطابات بنگلہ دیش کے طول وعرض میں جاری رہتے ہیں۔ عبداللہ بن عبدالرزاق بھی انتہائی پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ انہوں نے بھارت‘ بنگلہ دیش‘ سعودی عرب اور برطانیہ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے انہیں عربی‘ انگریزی‘ اردو اور بنگالی زبانوں پہ کامل عبور ہے۔ انہوں نے فقط 31 برس کی عمر میں اپنی علمی‘ تقریری اور تحریری صلاحیتوں کا لوہا دنیا بھر میں منوایا ہے۔ بنگلہ دیش کے طول وعرض میں ہونے والے مختلف دینی‘ سماجی اور اہم اجتماعات میں وہ شرکت کرتے رہتے ہیں۔ رواں سال فروری میں دورۂ بنگلہ دیش کے موقع پر میری ان سے خصوصی نشستیں ہوتی رہیں۔ چند ہفتے قبل انہوں نے مجھ سے دوبارہ رابطہ کیا اور دعوت دی کہ میں دو ہفتوں کے لیے بنگلہ دیش آئوں اور وہاں نبراس ایجوکیشن سسٹم کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مختلف اجتماعات سے خطاب کروں۔ ان کے خلوص اور محبت کو دیکھتے ہوئے میں نے ان کی دعوت کو قبول کر لیا۔
24 اکتوبر کی صبح لاہور سے روانگی ہوئی اور سوا تین گھنٹے بعد طیارہ دبئی پہنچا۔ چند گھنٹے قیام کے بعد دبئی سے پرواز اڑی اور پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد ڈھاکہ اتر گئی۔ ایئر پورٹ پر عبداللہ بن عبدالرزاق اپنے رفقا کے ہمراہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ رات ڈھاکہ میں قیام کیا اور اگلے دن ظہر کی نماز کے بعد نبراس انسٹیٹیوٹ کے سالانہ پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ اس موقع پر طلبہ نے جس انداز میں دینی‘ دنیاوی اور سائنسی علوم کے حوالے سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا‘ وہ میرے دماغ پر نقش ہو گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس تعلیمی نیٹ ورک کو چلانے والے دوستوں کو جزائے خیر دے کہ جو اپنے تعلیمی اداروں میں دینی اور دنیاوی علوم کو بیک وقت لے کر چل رہے ہیں۔ اس تقریب سے مختلف دانشوروں اور بنگلہ دیش کی ممتاز شخصیات نے خطاب کیا اور علم وفکر اور تحقیق کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ مجھے بھی اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا جس کو میں کچھ کمی بیشی کے ساتھ اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ کے انسانوں پر بے شمار احسانات ہیں اور نعمتیں اَن گنت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل وفہم سے نوازا‘ ہمیں روزگار دیا اور ہمیں پہچان دی۔ اس نے ہمیں گھر بار سے نوازا اور ہمیں اپنی ہی جنس میں سے شریک حیات سے بھی نوازا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت یہ بھی ہے کہ اس نے ہمیں علم سے نوازا۔ اگر ہم غور کریں تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ علم انسانیت کو دیے گئے اللہ تعالیٰ کے عظیم ترین انعامات میں سے ہے۔ قرآن مجید نے علم کی اہمیت کو بارہا اجاگر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ طہٰ کی آیت: 114 میں نبی اکرمﷺ پر وحی کا نزول فرمایا ''اور دعا کرو! اے میرے پروردگار مجھے زیادہ علم عطا فرما‘‘۔ یقینا انسان کی عظمت کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب وہ علم ہے جو انسان کو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے اور اسے اپنے خالق اور زندگی کے مقصد سے روشناس کراتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو فرشتوں اور جنات کے بعد پیدا کیا گیا لیکن اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کا یہ فضل تھا کہ آدم علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا۔ قرآن مجیدکی سورۃ البقرہ کی آیات: 31 تا 32 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور اللہ نے آدم کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتائو۔ان سب نے کہا: اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا ہی علم ہے جتنا تونے ہمیں سکھا رکھا ہے‘ پورے علم وحکمت والا تو تُو ہی ہے‘‘۔ اسی وجہ سے آدم علیہ السلام کو فرشتوں اور جنات پر فوقیت دی گئی۔ چنانچہ اولادِ آدم کو بھی علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمیں اپنے علم کو بڑھانے کے لیے محنت کرنی چاہیے اور اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سے مدد بھی طلب کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو حکمت‘ حکومت اور سلطنت سے نوازا لیکن قرآن مجید کی سورۃ النمل کی آیت: 15 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم نے یقینا دائود اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا‘ اور دونوں نے کہا: تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے‘‘۔
اس موقع پر میں نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ آج میں اُن طلبہ کے ساتھ بات کر رہا ہوں جو ان شاء اللہ کل کے مفکر‘ دانشور اور علما بنیں گے۔ اسی طرح میں نے بھائی عبداللہ بن عبدالرزاق کو مبارک باد پیش کی کہ انہوں نے ایک ایسا ادارہ قائم کیا ہے جو بیک وقت دینی اور دنیاوی علم فراہم کر رہا ہے۔ جب ہم ایسے ادارے قائم کرتے ہیں جہاں بیک وقت دین ودنیا کا علم دیا جاتا ہو تو یہ حقیقت میں معاشرے کی بہت بڑی خدمت اورلوگوں کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ایسے ادارے دنیا بھر میں قائم ہونے چاہئیں تاکہ طلبہ کو بیک وقت دینی اور دنیاوی علم فراہم کیا جائے اور ان کی برکت سے انہیں معرفت بھی حاصل ہو سکے اور معاشرے میں باوقار زندگی گزار نے کے مواقع بھی میسر آ سکیں۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غیر مسلموں سے ممتاز کیا ہے اور فرمایا کہ غیر مسلم صرف دنیا کے علم سے واقف ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الروم کی آیت: 7 میں ارشاد فرماتے ہیں ''وہ دنیاوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں‘ مگر آخرت سے غافل ہیں‘‘۔ اس کے برعکس ایک مومن اگرچہ دنیاوی علم بھی حاصل کرتا ہے لیکن اس کا اصل ہدف آخرت کی زندگی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبیﷺ نے مومنوں کو حکم دیا کہ وہ دعا کیا کریں: ''اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا‘‘۔ اس عظیم دعا کو رکنِ یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان پڑھا جاتا ہے جس سے اس دعا کی اہمیت واضح ہوتی ہے لہٰذا ہمیں دنیاوی اور اخروی زندگی سے متعلق علم کے حصول کیلئے بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ علم حاصل کرنا یقینا بہت بڑی کامیابی ہے جیسا کہ عربی کا مشہور شعر ہے: ''یقینا ہم جبار کی تقسیم پر راضی ہیں کہ اس نے ہمارے لیے علم اور جاہلوں کے لیے مال کو منتخب کیا‘‘۔ جن لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے علم کی نعمت سے نوازا ہے انہیں اللہ کے حضور شکر گزار ہونا چاہیے۔
اس موقع پر میں نے شیخ عبدالرزاق بن یوسف اور عبداللہ بن عبدالرزاق کو مبارک باد دی اور ان کی تحسین کی کہ وہ ہمیشہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے پیغام کو عام کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور پوری لگن وجذبے کے ساتھ دینی اور دنیاوی علم کی نشر واشاعت میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی طرح میں نے والدین‘ اساتذہ اور طلبہ کے سامنے یہ بات بھی رکھی کہ وہ دینی اور دنیا وی علوم میں مہارت حاصل کرنے کی کوشش کریں تاکہ دنیا اور آخرت میں سربلند ہو سکیں۔ اس تقریب میں موجود اساتذہ‘ والدین اور طلبہ نے بہت توجہ کے ساتھ مقررین کی گفتگو کو سنا۔ نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو اسناد اور تحائف پیش کیے گئے۔ طلبہ اور ان کے والدین اس کامیابی پر انتہائی مطمئن اور مسرور نظر آ رہے تھے۔ میں بھی ان کو مسرور دیکھ کرخوشی سے لبریز ہوگیا اور اس موقع پر میرے لبوں پر بے اختیار یہ دعا آ گئی کہ اے اللہ ہم سب کی اولادوں کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور دنیا و آخرت میں کامیاب وکامران فرما‘ آمین!
یوں یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved