پاکستان اور افغانستان کے مابین مذاکرات کی ناکامی اور اس کے بعد دونوں ملکوں کی خطرناک دھمکیوں کے بعد سمجھ نہیں آرہی کہ موجودہ صورتحال پر رویا جائے یا ہنسا جائے۔ کیا کریں بات ہی کچھ ایسی ہے۔ چالیس سال تک ہمارے دفاعی تجزیہ کار‘ کالم نگار‘ اینکرز اور دانشور یہ سودا بیچتے رہے بلکہ یوں کہیں کہ یہ فتوے دیتے رہے کہ یہ افغان اور طالبان ہمارا اثاثہ اور ہماری جنگی حکمت عملی کا اہم جزو ہیں۔ جنرل ضیا ہوں یا بینظیر بھٹو‘ دونوں نے اپنے اپنے ادوار میں طالبان پیدا کیے۔ جنرل ضیا انہیں مجاہدین کہتے تھے جبکہ بینظیر بھٹو دور (1996ء میں) وہ طالبان کے نام سے مشہور ہوئے۔ نام کوئی بھی ہو لیکن دونوں سے کام ایک ہی لینا تھا کہ بہر صورت افغانستان پر پشتو سپیکنگ لیڈر کی حکومت ہو۔ ہمیں افغانستان میں تاجک‘ ازبک یا ہزارہ گروپ یا قومیت نہیں چاہیے تھی۔ صرف افغان پشتون ہی ہمیں قابلِ قبول تھے اور ہم نے پاکستان کو ان افغانوں کیلئے کھول دیا۔
اس سارے قصے میں مزے کی بات یہ ہے کہ جو اثاثے ہم نے مشکل وقت میں بھارت کے ساتھ جنگ کیلئے تیار کیے تھے‘ انہیں بھارت لے اُڑا ہے۔ طالبان کا وزیرخارجہ نئی دہلی میں جے شنکر کے ساتھ کھڑا ہو کر پریس کانفرنس کرتا ہے۔ اس سارے دھندے میں ہمیں کیا ملا ؟ اپنا ملک تباہ کرا لیا‘ اپنا معاشرہ ہائی جیک کرا لیا۔ 1970ء کی دہائی تک جو ملک کسی حد تک اعتدال پسند تھا‘ اسے ایک مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں دھکیل دیا گیا۔ پورے معاشرے میں وہ گھٹن پیدا کر دی گئی کہ اب سانس لینا تک مشکل ہوچکا ہے اور ان سب کے تانے بانے جنرل ضیا کی افغان پالیسی سے ملتے ہیں۔ کلین چٹ بھٹو کو بھی نہیں دی جاسکتی کیونکہ انہوں نے ہی وزیراعظم کی حیثیت سے افغانستان کو اس کی زبان میں جواب دینے کا فیصلہ کیا تھا‘ اور پاکستان میں پڑھنے والے افغان طالب علموں کو پراکسی جنگ کیلئے تیار کیا گیا جن میں حکمت یار بھی شامل تھے۔ بھٹو نے یہ جوابی کارروائی کابل حکومت کی پاکستان میں پراکسی جنگ شروع کرنے کے بعد کی تھی۔ یوں پاکستان اور افغانستان کے مابین باقاعدہ پراکسی جنگوں کا ماحول بھٹو دور میں بنا۔ افغانستان نے پاکستان میں کچھ گروپوں کو اسلحہ‘ پیسہ اور دیگر مراعات دے کر ہمارے خلاف لڑائی شروع کرائی اور جواباً یہی کام بھٹو نے جنرل نصیر اللہ بابر کے ذریعے افغانستان میں شروع کرا دیا۔ افغان حکمران خیبرپختونوا اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کرنے لگے تھے بلکہ بہت سارے پشتون اور بلوچ رہنما پاکستان سے جلاوطنی میں کابل گئے اور وہاں سے انہوں نے کارروائیاں شروع کیں اور پاکستان کیلئے بہت مسائل پیدا کیے۔ اگرچہ بعد میں کچھ بلوچ رہنمائوں کو واپس لایا گیا لیکن حالات نہ بدل سکے اور آج تک نہیں بدلے۔
جنرل ضیا کو پکی پکائی دیگ مل گئی تھی‘ جب 1979ء میں روس کابل پر اپنی حمایت یافتہ حکمران جماعت بچانے کیلئے حملہ آور ہوا۔ یوں جنرل ضیا اور ان کے ساتھیوں کو ایک موقع مل گیا جس کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ امریکہ اس وقت تک اس کھیل میں شریک نہیں ہوا تھا۔ جب امریکیوں نے دلچسپی ظاہر کی کہ وہ یہ کنٹریکٹ پاکستان کو دینے کو تیار ہیں اور مالی امداد کا بھی اعلان کیاتو جنرل ضیا نے امریکی صدر جمی کارٹر کو تاریخی جملہ کہا کہ جو امداد آپ ہمیں دینا چاہتے ہیں وہ تو مونگ پھلی کے برابر بھی نہیں۔ جنرل ضیا کا یہ جملہ بہت مشہور ہوا۔ دراصل جمی کارٹر کا تعلق امریکی ریاست جارجیا سے تھا اور ان کے مونگ پھلی کے کھیت تھے۔ یوں وہ کھیل شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اُس وقت کہا گیا کہ یہ جہاد ہے اور پاکستانی کی بقا اور سلامتی کیلئے ضروری ہے۔ بعد میں پتا چلا وہ سب جنرل ضیا کی اپنی سلامتی اور بقا کی ضرورت تھا۔ ہم نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ روس اور افغانوں کا اپنا مسئلہ ہے اور اس میں ایسے کودے کہ روس‘ امریکہ اور یورپ تو اس جنگ سے کب کے نکل چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک دھنسے ہوئے ہیں۔ جس روس کو نکالنے ہم گئے تھے وہ تو 1989ء ہی میں نکل گیا تھا لیکن ہم آج تک کابل سے نہیں نکلے۔ ہم نے افغانستان کو ہی اپنی سٹریٹجک ڈیپتھ بنایا بلکہ یوں کہیں کہ اپنے دفاع کا بنیادی نکتہ بنا لیا اور پورا ملک اس کام پر لگا دیا گیا کہ پاکستان کی سلامتی افغانستان میں تلاش کرنا ہوگی۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ روس کے جانے کے بعد افغانستان میں بھارت اور پاکستان کے درمیان مقابلہ شروع ہوگیا تھا کہ کابل پر ان کی مرضی کاحکمران ہواور وہ یہ خطہ چلائیں گے۔ ہم نے طالبان پر زیادہ سرمایہ کاری کررکھی تھی جبکہ بھارت اور خطے کے دیگر ممالک نے شمالی اتحاد کے ساتھ تعلقات بنائے اور یوں افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ ہم نے سوچ لیا کہ اب روس کے جانے کے بعد میدان خالی ہے لہٰذا کابل اور قندھار اب ہمارے ہیں۔ دنیا کی بڑی طاقتیں تو چلیں ایک طرف‘ اس خطے کے دیگر ممالک‘ جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں‘ وہ کب چاہیں گے کہ پاکستان کا اثر و رسوخ افغانستان میں ہو اور پاکستان ہی سب فیصلے کرے۔ مگر ہم خود کو یہی سمجھاتے رہے اور تھپکی دیتے رہے کہ ہم نے روس جیسی پاور کو شکست دی ہے۔
جب امریکی نائن الیون کے بعد افغانستان میں آئے تو ہم نے سوچا کہ اب ہم ایک اور سپر پاور کو یہاں شکست دلوائیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے برطانوی اخبار دی گارجین کو ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ انہوں نے ہی طالبان کو اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ جب تورا بورا پر امریکہ نے بمباری شروع کی تو وہ پاکستان کی طرف بھاگے۔ امریکی کہہ رہے تھے کہ آپ اپنی سرحد بند کریں اور ہمیں سب کا صفایا کرنے دیں لیکن بقول پرویز مشرف‘ ہمارا مفاد اس میں تھا کہ ہم ان طالبان کو بچا لیں اور کل کو امریکہ کے جانے کے بعد ہمیں ان کی ضرورت پڑے گی۔ یوں ہم نے نائن الیون سے پہلے مُلا عمر کی حکومت کے فیصلوں سے کچھ نہیں سیکھا کہ وہ کیسے پوری دنیا کیلئے تباہ کن ثابت ہوئے۔ ہم نے الٹا انہی طالبان کو ایک بار پھر اکٹھا کر لیا‘ انہیں اپنے ہاں رکھا‘ ان کے خاندان کوئٹہ‘ پشاور ‘ کراچی اور اسلام آباد کے رہائشی علاقوں بارہ کہو اور کھنہ پل کے قریب آباد کیے کہ کسی دن یہ ہمارے کام آئیں گے۔ طالبان لیڈرز سیف ہائوسز میں سیون سٹار سہولتوں کے ساتھ پاکستانی قوم کے ٹیکسوں پر پلتے رہے اور ہم نے ان طالبان کو گڈ طالبان کا نام دے کر پوری قوم کو گمراہ کیا۔ اس گمراہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2021ء میں کابل پر طالبان حکومت آتے ہی ایک طرف اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اپنے آل ٹائم پسندیدہ ہیروز طالبان کو مبارکبادیں دے رہے تھے تو دوسری طرف ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید فوراً کابل پہنچ گئے تاکہ دنیا کو یہ پتا چل سکے کہ طالبان تو ہمارے بچے ہیں‘ ہم ان کے گاڈ فادر ہیں۔ تیس پینتیس ہزار طالبان ہم افغانستان سے واپس سوات اور مالاکنڈ لے آئے اور پھر ایک دن پتا چلا کہ ہمارے 'اچھے بچے‘ اب بڑے اور سمجھدار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو ٹف ٹائم دیا۔ ٹی ٹی پی نے کابل کے گڈ طالبان سے حوصلہ پکڑا کہ اگر افغان طالبان امریکہ سے کابل کا قبضہ لے سکتے ہیں تو وہ اسلام آباد کیوں نہیں لے سکتے۔ یوں ان چار سالوں میں ٹی ٹی پی نے ہزاروں پاکستانیوں کو شہیدیا زخمی کر دیا ہے۔ اب ہم اپنے ''اچھے بچوں‘‘ سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہی بچوں سے جنہیں چالیس سال تک اثاثہ سمجھا گیا۔ اب پتا چلا کہ ہماری چالیس سالہ محنت کا اثاثہ بھارت اُڑا لے گیا ہے۔ ہمارے دفاعی تجزیہ کار‘ دانشور‘ صحافی اور کالم نگار اب غائب ہیں جنہوں نے انہیں بانس پر چڑھا کر قوم کو گڈ طالبان کے نام پر بیچا تھا۔ بھارت دور بیٹھا مسکرا رہا ہوگا کہ ''گڈ طالبان‘‘ کو کابل لانے پر محنت تم نے کی لیکن اب وہ کام ہمارے آرہے ہیں۔ وہی کہاوت یاد آگئی کہ دکھ اٹھائے فاختہ بی‘ انڈے کھائیں کوے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved