گزشتہ دنوں فراغت میں نیویارک ٹائمز میں ایک امریکی سکالر‘ مؤرخ اور فوٹو گرافر لیلیٰ امت اللہ بریان کا عمر ابنِ سعید (Omar ibn Said) کے بارے میں ایک طویل مضمون پڑھنا شروع کیا تو کئی خوابیدہ یادیں دل میں جاگ اٹھیں۔ اُس ملک میں طالب علمی کے زمانے کے کچھ دوست تصویری خبر نامے کی طرح ذہن کی سکرین پر جلوہ گر ہونے لگے۔ سوچنا شروع کردیا کہ ان کے آباؤ اجداد غلامی کے دور میں افریقہ کے مغربی ساحل کے علاقوں سے کس طرح گرفتار کیے گئے‘ کئی ماہ سمندروں میں بھیڑ بکریوں کی طرح تکلیف دہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے یہاں تک کہ غلامی کی منڈیوں میں بولی پر فروخت ہوئے۔ ہم اُس زمانے میں مل کر بیٹھتے تو ایسی باتیں ضرور ہوتیں۔ دنیا کی تاریخ کے اس سیاہ باب میں ہماری دلچسپی بھی اوائل عمر کے زمانے سے ہے۔ بڑے بڑے فاتحین‘ جنگجو جنہیں عام خلقت ''عظیم‘‘ کے القاب سے یاد کرتی ہے‘ سے زیادہ میری دلچسپی ان کے انجام کی کہانی سے ہے۔ کبھی ایسی تاریخ پڑھتے ہوئے دھیان ہمیشہ ان کے ہاتھوں ہوئے ظلم سے زیادہ مظلوموں کی طرف رہتا ہے۔ ان کی مزاحمت ادب‘ شاعری‘ لوک کہانیوں یا جس صورت میں بھی ہو‘ ہمارے لیے قابلِ ستائش ہے۔ ہماری روح اور جدید فتوح‘ مظلوم اور اپنے حق کی راہ میں جدوجہد کا پرچم اٹھائے عام لوگوں کے ساتھ رہتی ہے۔ مذکورہ مضمون کا عنوان اور اس میں لگی ابنِ سعید کی تصویر کچھ ایسی ہے کہ کئی دنوں تک اس کے بارے کچھ مزید پڑھنے اور اس کے خیالوں میں گم رہنے کو جی چاہتا ہے‘ اور ساتھ انسانی تہذیب کے کچھ گہرے المیوں میں بھی دل الجھ جاتا ہے۔
لیلیٰ امت اللہ بریان نے زبردست بات کہی ہے کہ یاد داشت مزاحمت کا ایک طاقتور ہتھیار ہے۔ جتنا اس نکتے پر آپ غور فرمائیں‘ اتنا ہی آپ مظلوموں کی جدوجہد کے اس رنگ کا ادراک کر سکیں گے۔ پہلے کچھ ابنِ سعید کی زندگی کے بارے میں آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کو یہ یاد داشت اور مزاحمت کی بات سمجھ میں آ سکے۔ افریقہ سے لاکھوں نوجوان غلام بنا کر امریکہ کی اس وقت کی کالونیوں‘ جو بعد میں ریاستوں کی شکل اختیار کر گئیں‘ میں لائے گئے اور ان کی خریدو فروخت ہوئی۔ مگر صرف ایک ہی شخص ہے جس نے اپنی سوانح حیات غلامی کے دوران لکھی‘ اور وہ بھی عربی زبان میں۔ ابنِ سعید عالم دین تھے‘ سنیگال کے کسی گاؤں میں ایک دریا کے کنارے ان کا قبیلہ آباد تھا۔ کئی بھائی بہن تھے۔ خوشحال اور آزاد زندگی گزار رہے تھے اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیے جانے سے پہلے انہوں نے 25 سال تک تعلیم حاصل کی اور اپنے علاقے میں عالم مشہور تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک دن کسی لشکر نے ان کے شاد و آباد گاؤں پر حملہ کیا۔ سب کچھ تباہ و برباد کرکے انہیں گرفتار کرکے لے گئے۔ سمندر میں ایک ماہ دس دن کے اذیت ناک سفر کے بعد شمالی کیرولینا کے کسی علاقے میں انہیں غلامی کی منڈی میں فروخت کر دیا گیا۔ پہلا مالک‘ جسے وہ انتہائی ظالم اور برا شخص قراردیتے ہیں‘ کی غلامی سے بھاگ گئے مگر تب کے دستور کے مطابق انہیں کوئی بھی قتل کر سکتا تھا‘ یا پکڑ کر دوبارہ کسی منڈی میں آوارہ گائے بکری کی طرح فروخت کر سکتا تھا۔ انہیں کچھ عرصہ جیل میں بند رکھنے کے بعد دوبارہ فروخت کر دیا گیا۔
جو بات ان کی کہانی میں آج دلچسپی کا موضوع بنی ہوئی ہے‘ وہ اپنے مذہب سے محبت اور استقامت ہے۔ جیل میں‘ جہاں شاید وہ اکیلے ہی بند تھے‘ دیواروں پر قرآنی آیات لکھتے‘ جو بھی صوفیانہ شاعری یاد تھی‘ اسے دہراتے اور عبادت میں مصروف رہتے۔ ان کا دوسرا اور آخری مالک رحم دل انسان تھا۔ ان سے کوئی سخت مشقت نہیں لیتاتھا اور عام غلاموں کی نسبت ان کے ساتھ بہتر سلوک روا رکھتا تھا۔ وہ بڑے لوگ تھے۔ ان کے مالک کا ایک بھائی کیرولینا کا گورنر بنا۔ ان کے بارے میں لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ یہ ایک ''عربی شہزادہ‘‘ ہے جسے غلام بنا لیا گیا ہے۔ اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھنے والے کبھی کبھار ان سے بات چیت کرنے کیلئے بھی آتے تھے۔ ان کے مالکوں نے انہیں مسیحی مذہب اختیار کرنے کیلئے کبھی زور تو نہ ڈالا مگر کوشش کرکے ان کیلئے کہیں سے عربی زبان میں انجیل مقدس ڈھونڈ لائے۔ وہ ان کے ساتھ چرچ میں بھی جاتے اور ہر اتوارکو عبادت بھی کرتے۔ انہوں نے کئی مختصر تحریریں چھوڑی ہیں جن میں انجیل کے کچھ حصوں کا عربی میں ترجمہ بھی شامل ہے۔ لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ جس سے پتا چلے کہ انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہو۔ آخری سانس تک ثابت قدم رہے۔ ایسی غلامی کے دور کی ہزاروں سوانح حیات موجود ہیں‘ مگر وہ تب کے غلاموں نے اپنے علاقوں‘ معاشروں‘ خاندانوں اور قبائل کے بارے بطور راوی لکھوائی ہیں۔ جو بات ابنِ سعید کی کہانی میں منفرد اور مؤرخین کی دلچسپی کا باعث ہے‘ وہ اپنے دین‘ زمین‘ وطن اور اس دریا کے کنارے کی محبت ہے۔
اپنی غلامی کے تقریباً بارہ سال بعد انہوں نے ایک خط لکھا جو شاید اپنے آپ کا مخاطب تھا۔ دل میں حسرت ہے کہ میں اپنے گھر واپس جاؤں۔ لوگ مجھے اپنی سرزمین افریقہ میں دیکھیں‘ جو ایک دریا کے کنارے ہے۔ اِسی سال لیلیٰ امت اللہ بریان ایک مرتبہ سنیگال ابنِ سعید کی کہانی کو دوبارہ سے سمجھنے گئیں۔ اس دریا کے اندر کشتی میں اس کی بڑی تصویر تھامے کھڑی ہوئیں۔ ان کی یہ کاوش بھی اسی طرح معصوم ہے جس طرح ابنِ سعید کی یہ خواہش کہ میں اپنے ملک میں دیکھا جاؤں۔ غلامی نجانے کتنے کروڑ لوگوں کی زندگیوں کو برباد کر گئی۔ سب اس کی گرد میں دب کر سسکیاں لیتے دم توڑ گئے۔ عمر ابنِ سعید کی داستان جتنی دلکش ہے اتنی ہی دلفریب بھی۔ وہ اپنی ماں اُمِ ہانی کو ہمیشہ یاد کرتے اور ان کی جدائی میں عربی میں کچھ پڑھتے رہتے۔ جو لوگ مزاحمت کے عملی میدان سے کوئی واسطہ رکھتے ہیں‘ ان کیلئے ابنِ سعید کی زندگی اور خیالات بہت مسحور کن ہیں۔ کئی دنوں بعد بھی اب تک ان کے خیالوں میں ڈوبا ہوا ہوں۔ ان کی تحریروں میں انصاف‘ زمین پر خدا کی قدرت اور انسانی دنیا کیلئے بھلائی کی دعائیں ہیں۔ ان کی سوانح حیات کے مخطوطے بھی اپنی داستان‘ جس کیلئے یہاں گنجائش نہیں‘ کی ایک قیمتی دستاویز کے طور پر اب مشہور زمانہ امریکی لائبریری آف کانگریس میںموجود ہیں۔ لائبریری نے عمر ابنِ سعید سیکشن قائم کر رکھا ہے جس میں غلامی کے دور کی دستاویزات محققین کے لیے موجود ہیں۔ انسانی تاریخ‘ جغرافیہ اور روحانی دنیاؤں کے درمیان رشتوں کو صرف وہی محسوس کر سکتے ہیں جنہیں جدوجہد‘ شناخت اور حریت کی روح سے کچھ آشنائی اور اس سے مسحور ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہو۔ ابنِ سعید اس کی عملی شکل تھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved