تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     31-10-2025

دائرے سے نہ جائیو آگے!

چیف ایگزیکٹو جسے عرفِ عام میں وزیراعظم کہتے ہیں‘ اس کا مطلب ہے ملک کے اندر تمام انتظامی اتھارٹی کا واحد سربراہ۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ کیونکہ بادشاہ کہلانے سے کوئی سچ مچ کا بادشاہ نہیں بن جاتا۔ اس طرح تو نظام سقہّ بھی بادشاہِ ہندوستان رہ چکا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ احمد شاہ رنگیلا بادشاہ تو کیا شہنشاہِ ہندوستان کہلاتا رہا۔ 1973ء کے دستور میں دیے گئے چیف ایگزیکٹو کے طرحِ مصرع پر آئین کے ذیلی قوانین کے نیچے بھی بے شمار چیف کے عہدے بن چکے ہیں۔ جن میں واپڈا چیف‘ چیف آپریٹنگ آفیسر‘ چیف آف ایئر سٹاف‘ چیف جسٹس سمیت ملک میں چیف سے معنون متعدد عہدے پائے جاتے ہیں۔ دوسرا معروف لفظ جنرل ہے‘ جو کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے جنرل منیجر‘ وفاقی حکومت کا چیف لیگل ایڈوائزر اٹارنی جنرل ہے۔ صوبوں میں سرکاری وکیلوں کو چیف ایڈوکیٹ جنرل‘ پراسیکیوٹر جنرل‘ سولسٹر جنرل کہتے ہیں‘ اور اَن گنت مزید ایسے عہدے ہیں۔ آئین اور قانون میں تیسری اصطلاح پبلک آفس ہولڈر اور پبلک سرونٹ کی ہے۔ پبلک آفیسرز سیاسی لوگ ہوتے ہیں‘ جو یا کسی ایوان کے ممبر بن جائیں یا کابینہ کے رکن‘ انہیں پبلک آفس ہولڈر کہا جاتا ہے۔ پبلک سرونٹ کی کیٹیگری میں وہ تمام سرکاری ملازم آتے ہیں جو صوبوں اور مرکز میں پبلک کی سروس کے لیے تنخواہ پر نوکری کرتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد بادشاہوں کا چارم ختم ہو گیا ہے۔ اسی لیے جب امریکہ بہادر کے شاہی مزاج رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہر اختیارکو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے استعمال کرنا شروع کیا تو اس کے خلاف ''No King‘‘ کی عوامی تحریک چل پڑی‘ جس میں لاکھوں لوگ اڑھائی ہزار سے زیادہ مقامات پر امریکہ کی مختلف ریاستوں میں نکل آئے۔ کچھ بادشاہ برائے نام بھی ہوتے ہیں‘ جس طرح کا انگلینڈ اینڈ ویلز والا موجودہ شہنشاہِ انگلستان چارلس سوم۔ چارلس سوم بادشاہ تو ہے مگر برطانیہ کے سارے اختیارات چیف ایگزیکٹو سر کیئر روڈنی سٹارمر کے پاس ہیں۔ بچہ سقہ‘ کنگ چارلس اور فارم 47 رجیم کے چیف ایگزیکٹوکا حال ایک جیسا ہے۔ اسی لیے پچھلے دنوں جب خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سے چیف ایگزیکٹو نے پوچھا: کوئی اور خدمت؟ جس پہ سہیل آفریدی نے کہہ ڈالا: میری عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کروا دیں۔ شہباز شریف نے ترنت جواب دیا: پوچھ کر بتاتا ہوں‘ مگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو یہ نہیں بتایا کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو ایک قیدی سے وزیراعلیٰ کی ملاقات کروانے کیلئے پوچھے گا کس سے؟ اڈیالہ کے کسی اہلکار سے یا جیل سپرنٹنڈنٹ سے یا پھر پنجاب حکومت سے ؟ ہماری گورننس میں فنِ خوشامد کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یہ جواب کوئی نیا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں آمریت اور Covid-19کسی نہ کسی شکل میں پھیلتے ہی رہتے ہیں۔ اس لیے پوچھ کر بتانے والی رسم کوئی نئی نہیں۔
1947ء کے بعد ایک زمانہ تھا جب جنرل اسکندر مرزا تھا تو جرنیل لیکن بنگال کے گورنر کی حیثیت سے اپنے نام کے ساتھ گورنر جنرل اسکندر مرزا کا ٹائٹل لکھتا تھا۔ جس کا اصل مطلب یہ تھا کہ میں بانیٔ پاکستان کے بعد پاکستان کا دوسرا گورنر جنرل ہوں۔ اسکندر مرزا نے ملک میں پہلا مارشل لاء لگایا تو اپنی کیبنٹ میں اس وقت کے کمانڈر انچیف ایوب خان کو وزیر دفاع بنا دیا‘ جس کی وجہ سے کمانڈر انچیف کو وزیر دفاع کی حیثیت سے پاکستان کی لڑکھڑاتی ہوئی گورننس کو اندر سے دیکھنے کا چشم دید موقع مل گیا۔ راوی کے مطابق کمانڈر انچیف کو اپنے اے ڈی سی نے مشورہ دیا کہ اسکندر مرزا کو جو بھی کام پڑتا ہے وہ کہتا ہے کمانڈر انچیف سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔ اس لیے اسے بتانے کے بجائے آپ خود براہِ راست عزیز ہم وطنوں کی خدمت کیوں نہ شروع کر دیں۔
پھر وقت کا دھارا بدلا اور جنرل یحییٰ خان کا مارشل لاء اہلِ وطن پر نازل ہوا۔ یہ وطن پر گرنے والا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا سکائی لیب تھا۔ ہم سب نے قومی ترانہ والی کہانی تو سن رکھی ہے۔ جب دشمن کی فوجیں ڈھاکہ کے باہر پل پر پہنچ کر فال آف ڈھاکہ کی تیاری کر رہی تھیں‘ تب بھی جنرل یحییٰ ہر بات کے جواب میں کہتا تھا: مشاورت کے بعد پوچھ کر بتاتا ہوں۔ پھر ضیا الحق کا 'دورِ مسعود‘ شروع ہوا۔ بیوروکریسی کو ٹائی کوٹ کے بجائے جیکٹ شیروانی پہنائی گئی تاکہ 'سرکاری اسلام‘ کا پرچار کیا جا سکے۔ ان دنوں ٹینک کی رونمائی کیلئے بھی امریکہ کے جرنیل اور پاکستان میں امریکی سفیرکی تشریف آوری ضروری سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت کابینہ کی آج جیسی ہی حالت تھی۔ ضیا الحق ہمیشہ ہر بات اپنے سب سے بڑے فنانسر امریکہ بہادر سے پوچھ کر بتاتے رہے۔ مثال کے طور پر نور محمد تراکئی کی حکومت سے لڑنے کے لیے کیا کیا جائے‘ پوچھ کر بتاتا ہوں۔ سٹنگر میزائل اوجڑی کیمپ سے بگرام ایئر بیس کیسے پہنچائے جائیں‘ پوچھ کر بتاتا ہوں۔ اب پوچھ کر بتاتے بتاتے پاک افغان کشیدگی کو 1979ء سے لے کر آج 2025ء تک 46سال گزر چکے ہیں۔ مگر ہم اب بھی پوچھ کر بتانے سے باز نہیں آئے۔ اسی تسلسل میں حال ہی میں پاک افغان تازہ کشیدگی سے سال بھر پہلے پاکستان کے قرض والے ڈالروں کی برسات کے ذریعے لابی کرنے والے امریکی مشیر ڈھونڈے گئے۔ امریکی مشیروں نے پوچھ کر پاکستانی حکومت کو بتایا کہ امریکہ بگرام ایئر بیس افغان حکومت سے واپس لینا چاہتا ہے۔ اس لیے آپ دہشت گردی کی جنگ کی پارٹنر شپ کی رام کہانی پھر سے چلا دیں۔ میں نے اس پر اُس وقت آن ریکارڈ لکھا بھی ہے اور آن ریکارڈ بول کر بھی آیا۔ آج سارے منظر نامے کھل کر آپ کے سامنے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس نئی پاک امریکہ پارٹنر شپ کی برکت سے ایک طرف ہم ایک نئی جنگ میں جھونک دیے گئے‘ دوسری جانب امریکہ کے راج دلارے مصر کا صدر سیسی‘ اردن کا شاہ عبداللہ دوم‘ قطر اور سعودی عرب‘ جو سب دفاع کے اعتبار سے امریکہ پہ 100 فیصد انحصار کرتے ہیں‘ وہ پاک افغان کشیدگی میں ''پُرامن ثالثی‘‘ کا کردار ڈھونڈ رہے ہیں۔
شہباز شریف امریکہ سے پوچھ کر ہمیں بتائیں کہ افغانستان یو این چارٹر کے مطابق ایک خودمختار ملک ہے۔ افغانستان کی بگرام ایئر بیس پر دوبارہ قبضہ امریکہ کے لیے کس قانون کے مطابق جائز ہے۔ یاد رکھیے گا‘ جس دن خدانخواستہ پاک افغان باقاعدہ جنگ شروع ہوئی‘ آپ کو سی این این، بی بی سی اور دیگر مغربی میڈیا سے بریکنگ نیوز ملے گی کہ امریکی طیارے بگرام ایئر بیس پر اتر رہے ہیں۔
میں آپ کو کسی سے پوچھ کے نہیں بتاتا‘ ماسوائے شاعرِ عوام حبیب جالب کے‘ جنہوں نے مغرب کا منشور چار مختصر لائنوں میں یوں بیان کیا:
دے دیا سامراج نے منشور
رہیو بس اقتصادیات سے دور
بات پچھلی بڑھائیو آگے
دائرے سے نہ جائیو آگے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved