تحریر : سلمان غنی تاریخ اشاعت     31-10-2025

پاک افغان مذاکرات کی ناکامی

حالیہ دنوں پاکستان اور افغانستان کے مابین قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں مذاکرات کے دو دور منعقد ہوئے‘پہلا دور دوحہ اور دوسرا استنبول میں ہوا۔ یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہوئے جب پاکستان اور افغانستان کے مابین نہ صرف کشیدگی تھی بلکہ اعتماد سازی کا بحران بھی موجود تھا۔ اس کشیدگی کی وجہ یہ تھی کہ افغان سرزمین مسلسل پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہو رہی ہے۔ پاکستان متعدد عالمی فورمز پر شواہد پیش کر چکا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کر رہی ہے ۔ اس کے باوجود افغانستان میں طالبان رجیم کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بھی طرز کی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی جس سے دونوں ممالک تعلقات میں بد اعتمادی پیدا ہوئی۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ مذاکراتی ادوار میں دونوں ملک مل کر کوئی ایسا راستہ نکال لیں گے جو دونوں کیلئے نہ صرف قابلِ قبول ہوگا بلکہ اس سے دہشت گردی کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ لیکن مذاکرات کے دونوں ادوار افغان وفد کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ناکام رہے۔ طالبان رجیم نے ان مذاکرات میں پاکستان کیساتھ یہ تحریری معاہدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا کہ وہ مستقبل میں افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف کسی بھی قسم کی دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ طالبان کی اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے قطر اور ترکیہ بھی پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے کوئی یقین دہانی نہیں کرا سکے۔
پاکستان نے ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد اپنی خود مختاری اور سلامتی کیلئے دہشتگردوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا۔کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کے دوران فریقین تین بار معاہدے کی کامیابی پر پہنچے لیکن کابل سے آنے والی فون کالز سے معاملات بگڑتے رہے۔ یہ بات بھی واضح ہو چکی کہ کابل میں بیٹھے لوگ براہِ راست بھارت سے ڈکٹیشن لے رہے تھے۔اس رویے سے نہ صرف پاکستان بلکہ ثالث ممالک بھی پریشان ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کی خرابی میں بھارت کا بڑا کردارہے جو کابل کو استعمال کرکے پاکستان میں بدامنی پھیلانا چاہتا ہے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کی وجہ سے پاکستان کو بیک وقت مشرقی اور مغربی سرحدوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کی ایک ہی شرط تھی کہ افغان طالبان پاکستان کو اپنی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دینے کی تحریری یقین دہانی کرائیں‘ لیکن افغان وفد کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ پاکستان افغانستان کو مسلسل اپنے تحفظات سے آگاہ کرتا رہا ہے مگر افغانستان کی حکومت ان معاملات میں نہ تو سنجیدگی دکھاتی ہے اور نہ ہی عملی اقدامات کرنے کیلئے تیار نظر آتی ہے۔
افغان رجیم کی اس ہٹ دھرمی کی بڑی وجہ اس کو بھارت سے ملنے والی شہ ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان حالات مزید کشیدہ ہوں گے کیونکہ بھارت کی پشت پناہی کے بعد افغان سرزمین بدستور پاکستان کیخلاف دہشت گردی میں استعمال ہوگی۔ افغان وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ بھارت کے بعد سے طالبان بھارت کو اپنا نیا سٹریٹجک پارٹنر سمجھنے لگے ہیں۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ مذاکرات کے پہلے دو ادوار کی ناکامی کے بعد کیا دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کی ایک اور میز سج سکے گی؟ اس کا جواب ہاں ہے کیونکہ پاکستان میزبان ملک ترکیہ کی درخواست پر افغان طالبان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامند ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے لیکن دشمنوں کو پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری ہر گز نہیں سمجھنا چاہیے۔ اُدھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کشیدگی ختم کرا سکتے ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں امریکہ اس ضمن میں کوئی اہم کردار ادا کرتا دکھائی دے۔ بالفرض اگر تمام تر کوششوں کے باوجود دونوں ملکوں میں ڈیڈ لاک برقرار رہتا ہے تو کیا پھر پاکستان کے پاس جنگ کے سوا کوئی اور آپشن نہیں ہو گا؟ ہم پہلے ہی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مصروف ہیں ۔ اس صورتحال میں افغانستان کیساتھ حالات کی خرابی مزید کئی خرابیوں کی وجہ بن سکتی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف واضح کر چکے ہیں کہ افغانستان پاکستان دشمن سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن اپنے طرزِ عمل پر کسی بھی طرح کی نظر ثانی کیلئے تیار نہیں ہے۔ ان حالات میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی خرابی خطے کے امن کیلئے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ طالبان رجیم ہر حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہا ہے۔ پاکستان نہ صرف افغانستان کیساتھ براہِ راست بارہا اس معاملے کو اٹھا چکا ہے بلکہ عالمی برادری سے بھی یہ اپیل کر چکا ہے کہ افغان عبوری حکومت کو پاکستان کے بارے میں مثبت طرزِ عمل اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے لیکن پاکستان کی لاکھ کوششوں کے باوجود اس حوالے سے کوئی عملی اقدام نظر نہیں آتا اور طالبان رجیم کی شہ پر کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان کیلئے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ پاکستان افغانستان کے ساتھ بہترتعلقات کا حامی ہے ‘ لیکن باہمی تعلقات کی یہ تالی یقینی طور پر دونوں ہاتھوں سے بجے گی۔ اگر ان تمام کوششوں کے باوجود طالبان رجیم پاکستان کے تحفظات دور کرنے کیلئے تیار نہ ہواتو ایسے حالات میں پاکستان کے پاس افغانستان کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر افغانستان نے اپنے طرزِ عمل میں کوئی مثبت تبدیلی نہ دکھائی تو پھر ان کو انہی کی زبان میں‘ یعنی طاقت کے استعمال سے جواب دیا جائے گا۔اسلئے پاکستان اور افغانستان کے مابین مستقبل کے تعلقات کا دارومدارافغان رجیم کے طرزِ عمل پر ہے۔اگر افغان سرزمین بدستور پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہوتی رہی تو پھر پاکستان کو بھی سخت عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بھارت اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا جو نیا دور شروع ہوا ہے اور جس طرح سے افغان وزیر خارجہ نے نئی دہلی کا دورہ کیا ہے‘ اس سے افغان رجیم کے پاکستان کیخلاف عزائم واضح ہو جاتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات میں پاکستان کو افغانستان کے حوالے سے مزید چوکنا اورخبردار رہنا ہوگا۔
پاکستان کو طالبان رجیم سے نمٹنے کیلئے اپنے اندرونی حالات کو بھی درست کرنا اور سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا تاکہ ہم مل کر ملک دشمن عناصر کا مقابلہ کر سکیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت جو بھی گروہ پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے‘ اس کا خاتمہ ہماری اولین قومی ترجیح ہونا چاہیے۔ اس عمل میں حکومت کو تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے باہمی سیاسی اختلافات کو بھول کر ریاست کے مفاد میں اکٹھے ہوں اور جو کوئی ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ پاکستان نے دہائیوں تک افغانستان کا ہر مشکل میں ساتھ دیا ہے‘ جس کی پاکستان کو اپنی اندرونی سیاست میں ایک بڑی قیمت بھی ادا کرنا پڑی ہے‘لیکن ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کو افغانستان سے سرد ہواؤں کی ضرورت ہے‘ اس کا منفی کردار پاکستان کیلئے مسلسل خطرات پیدا کر رہا ہے۔ اس لیے اگر آنے والے دنوں میں افغانستان کے خلاف کوئی سخت کارروائی کی جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری طالبان رجیم پر ہو گی۔ پاکستان کسی بھی حوالے سے افغانستان سے کشیدگی نہیں چاہتا لیکن جب کوئی پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو پھر اس کا مقابلہ کرنے کیلئے جنگی حکمت عملی اختیار کرنا پاکستان کا حق ہے۔عالمی برادری بھی سمجھتی ہے کہ اس وقت افغانستان کا کردار پاکستان کے حوالے سے مثبت نہیں اور افغانستان کا منفی طرزِ عمل پورے خطے کیلئے نئے خطرات پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved