تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     31-10-2025

آخری کال!

تعجب ہے! راج نیتی سے لے کر مملکتِ خداداد کے سبھی خاص وعام امور سمیت یونین کونسلز تک اپنا کردار قائم ودائم رکھنے والے سرکاری بابوؤں نے کبھی اس بھید سے پردہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی کہ آخر وہ کونسی افتاد ہے جو سول سروس آف پاکستان کا حصہ بنے افسران کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام پہ مجبور کر ڈالتی ہے۔ توفیق کا فقدان ہے یا ہمت کی کمی؟ خدا جانے مجبوریاں ہیں یا مصلحتیں‘ ایسے دردناک انجام سے دوچار سول سروس کے افسران پر کوئی ریسرچ یا سنجیدہ انکوائری سے گریز ناقابلِ فہم ہے۔ شہرِ اقتدار میں ایس پی عدیل اکبر کی خودکشی سے پہلے آخری کال پر مسلسل دانشوری کے ساتھ ساتھ دور کی کوڑیاں برابر لائی جا رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے ایسے نکات اٹھائے جا رہے ہیں جیسے یہ سبھی کسی تحقیقاتی ادارے کے کرتا دھرتا ہوں جبکہ ایس پی عدیل اکبر کا اپنا محکمہ بڑی مہارت سے اُنہیں نفسیاتی مریض ثابت کرنے کے لیے کئی توضیحات اور جواز مارکیٹ کر چکا ہے۔ خودکشی سے جڑی خبروں اور قیاس آرائیوں کے نکتے ملائیں تو سبھی کی تان اُس آخری فون کال پر ٹوٹتی ہے جو خودکشی سے پہلے ایس پی عدیل اکبر کو موصول ہوئی۔ تعجب ہے! ملک کے سبھی تحقیقاتی اداروں‘ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں سمیت وہ صحافی بھی آخری کال کا سراغ لگانے میں ناکام ہیں جو اندر کی خبریں نکال لانے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ خدا جانے وہ کون سی راکٹ سائنس ہے جو عدیل اکبر کے موبائل فون کا ریکارڈ منظر عام پر لانے میں بدستور حائل ہے۔ فون ریکارڈ تو کسی بھی تفتیش کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
ماضی قریب وبعید میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے شمشیر علی خان‘ سمیع اللہ فاروق‘ جمیل احمد‘ سہیل احمد ٹیپو‘ قاسم محبوب‘ کیپٹن (ر) انعام الحق‘ پولیس سروس کے شوکت علی خان‘ مرزا شکیل بیگ کے علاوہ فارن سروس کے ڈاکٹر حسن اکبر چیمہ سمیت سبھی افسران کی موت آج تک ایک معمہ ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین سروس سے منسلک شاندار کیریئر کے پہاڑ سے کود کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے والوں کو قصۂ پارینہ بنانے کی بدعت کا اگلا شکار ایس پی عدیل اکبر بننے جا رہے ہیں۔ یہ سسٹم کا آسیب ہے یا سفاکی اور بے حسی کہ ان سبھی کو سپردِ خاک کر کے ان کی موت کے اسباب اور وجوہات پر بھی مٹی ڈالی جاتی رہی ہے۔ عدیل اکبر کی موت کا معمہ حل کرنے کے لیے جو انکوائری کمیٹی بنائی گئی ہے اس پر ریٹائرڈ وحاضر سروس اعلیٰ پولیس افسران شدید تحفظات اور خدشات کا شکار ہیں۔ بیشتر افسران نے اس سانحہ پر ایسی بااختیار اور شفاف انکوائری پر زور دیا ہے جو اسلام آباد پولیس کی کمان اور اثر سے کوسوں دور ہو۔ ماضی کی اموات کے اسباب اور وجوہات پر کوئی سنجیدہ انکوائری کرائی گئی ہوتی تو ایسے افسوسناک واقعات اس تواتر سے جاری نہ رہتے۔ یہ چند مثالیں تو سول سروسز آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران کی ہیں جبکہ محکمہ پولیس سے وابستہ ڈی ایس پیز سے لے کر چھوٹے بڑے تھانیداروں اور دیگر ملازمین تک کی خودکشیوں کا ریکارڈ خاصا الارمنگ ہے۔
چند برس قبل ایک پُرجوش پولیس افسر سی سی پی او لاہور تعینات ہوئے تو انہوں نے ماتحت افسران اور فیلڈ فورس کے ساتھ گالم گلوچ اور بدکلامی کو اپنا اضافی اختیار تصور کرتے ہوئے رات گئے میٹنگز کو معمول بنا لیا۔ اس وقت کے آئی جی نے انہیں دفتر بلا کر تاکید کی کہ وہ اپنا رویہ اور طریقہ کار تبدیل کریں۔ ''مجھے جاگتے ہوئے ایس ایچ اوز اور افسران چاہئیں نہ کہ وہ افسران جو ساری رات جناب کی میٹنگ اٹینڈ کرتے رہیں‘ صبح نیند سے بوجھل اور جھومتے نظر آئیں۔ جو فیلڈ فورس رات بھر آپ کے بھاشن سنے گی وہ دن میں ڈیوٹی اور عوام سے کیا انصاف کر پائے گی‘ میٹنگز ایسے اوقات میں کریں جس سے دفتری امور اور سائلین متاثر نہ ہوں‘‘۔
اسی طرح ماضی قریب میں بھی لاہو رکے ایس ایچ او حضرات میٹنگ کے لیے طلب تو شام کو کیے جاتے تھے اور رات گئے شروع ہونے والی میٹنگ پچھلے پہر ختم ہوا کرتی تھی۔ جس کا نتیجہ صفر اور کرائم کا گراف افسر موصوف کے تبادلے تک ان کے قد سے بڑا ہی رہا۔ قبل ازیں موصوف جہاں بھی ضلعی افسر کے طور پر تعینات رہے وہاں یہ سبھی بدعتیں دوام پاتی رہیں۔ ماتحت عملے کی تضحیک اور بدکلامی اکثر اعلیٰ افسران کا مزاج بن چکا ہے جو فیلڈ فورس میں بددلی اور احساسِ تذلیل کو جگائے رکھتا ہے۔ ایسے ماحول میں مسلسل کام کرنے والے ماتحت افسران اور تھانیدار چڑچڑے پن اور جھنجھلاہٹ کا شکار رہتے ہیں‘ جس کا نزلہ عموماً سائلوں ہی پر گرتا ہے اور مخصوص حالات میں خود کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ سول سروس میں کامیاب قرار پانے والے کئی کڑے مراحل سے گزر کر منتخب ہوتے ہیں‘ ان میں سے ایک مرحلہ نفسیاتی جانچ پڑتال کا بھی ہے۔ ابنارمل اور غیر متوازن امیدوار کو کلیئرنس ہی نہیں ملتی‘ تاہم سروس میں آنے کے بعد کسی افسر کو نفسیاتی مریض قرار دینا درحقیقت اصل وجوہات سے بھٹکانے کے مترادف ہے۔ عدیل اکبر کی پرموشن ایک ایسی انکوائری کی وجہ سے رُکی ہوئی تھی جو بوجوہ غیر ضروری طوالت کا شکار تھی جبکہ انکوائری میں بے جا تاخیر ترقی میں رکاوٹ کا باعث نہیں بن سکتی۔ دوسرا یہ کہ ڈینگی بخار میں مبتلا افسر کو چھٹی نہ ملنا بھی نظام اور حکام‘ دونوں ہی کے لیے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ایسے غیر معمولی حالات کے شکار افسر کو آنے والی آخری کال تاحال کیوں اور کیسے نامعلوم ہے؟
مملکتِ خداداد میں بغض اور شخصی عناد کی بھینٹ چڑھنے والے افسران کی فہرست مسلسل طویل ہوتی چلی جا رہی ہے‘ جو سنیارٹی‘ کارکردگی اور پروفائل کی بنیاد پر ترقی کے بجا طور پر حقدار ہیں لیکن پسند ناپسند کا پیمانہ انہیں مسلسل رد کیے ہوئے ہے اور اونچے عہدوں پر نچلے گریڈ کے افسران لگانے کی روایت ماضی کے سبھی ادوار کی طرح آج بھی زوروں پر ہے۔ حکمرانوں کے سر چڑھے اور چاپلوس قسم کے سرکاری بابوؤں نے جہاں سسٹم کو گھن لگا ڈالا ہے وہاں ماتحتوں کو بھی مسلسل آزمائش سے دوچار کیا ہوا ہے۔ حکمرانوں کے ایجنڈوں اور دھندوں کی تکمیل کے لیے ماتحتوں کو جھونکنے سے لے کر بَلی کا بکرا بنانے تک تقریباً سبھی افسران آپے سے باہر ہیں۔ ایسے میں سائبر کرائم ایجنسی کے کرتے دھرتوں نے جو چَن چڑھایا ہے اس نے پورے محکمے کی کارکردگی کو گہنا ڈالا ہے‘ جنہیں ملزم بنا کے مال کھاتے اور میڈیا کی زینت بنے رہے‘ انہی کی مدعیت میں اب خود ملزم بن بیٹھے ہیں۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کون کہاں جھوم رہا ہے۔
تین برس قبل ایک پُراسرار ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے والے اے سی پتوکی قاسم محبوب کے چند الوداعی فقرے پیش خدمت ہیں‘ جو ان کی موت کے بعد وائرل ہوئے: ''تین چار دنوں سے اے سی شپ سے اُکتا گیا ہوں‘ اے سی شپ کہیں پکڑ کا باعث نہ بن جائے۔ جب ہم مر جائیں گے‘ ہم سے ایک ایک عمل کا حساب لیا جائے گا‘ پتا نہیں کتنے لوگوں کا گناہ ہمارے سر پر ہے۔ چھوڑو یہ اے سی‘ ڈی سی شپ یہ سارے ڈرامے ہیں۔ I want peace in life‘‘۔ سول سروس کا یہ سٹار کس دباؤ اور احساسِ جرم کی دلدل میں دھنس کر کس قدر بے بس تھا کہ اس کے سامنے موت کے سوا فرار کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ اس تناظر میں خودکشی کے سبھی واقعات پر ایک بااختیار کمیشن بننا چاہیے جو یہ معمہ تو حل کرے کہ کون سا گھن ہے جو سول سروس کو اندر ہی اندر کھائے چلا جا رہا ہے‘ کب تک جنازے اٹھاتے‘ کونے جھانکتے اور نظریں چراتے رہیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved