تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     31-10-2025

سورۂ لقمان اور کوانٹم سائنس

اللہ تعالیٰ اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں ساری انسانیت کو ماضی کے وہ دن یاد کراتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے کعبۃ اللہ کی بنیادوں کو نئے سرے سے بلند کیا اور اللہ کے حضور دعا کی کہ ہم دونوں باپ بیٹے کا یہ عمل قبول فرما لے‘ ہم دونوں کو مسلمان بنا دے اور ہماری اولاد میں سے بھی لوگوں کو مسلمان امت بنا کر کھڑا کر۔ اس کے بعد آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کے لیے دعا کی '' اے ہمارے رب! ان لوگوں میں انہی کے اندر سے (یعنی عربوں میں سے) ایک ایسا رسول بھیج دے جو ان کے سامنے تیری آیات سنائے۔ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ ان (کے اندر) کو پاک صاف کر دے‘‘ (البقرہ: 129)۔ یاد رہے حکمت کا ایک اہم معنی سائنس ہے۔
حضور اکرمﷺ عربوں میں تشریف لے آئے۔ دعوت کا آغاز فرمایا تو مشرکین مکہ نے مشکلات کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ لقمان نازل فرمائی۔ سورت کا نام بھی ''لقمان‘‘ ہے اور اس سورت کے اندر دو مرتبہ حضرت لقمان علیہ السلام کا نام لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت: 10 تا 11 میں اپنی تخلیق کے مناظر کا تذکرہ فرمایا اور اگلی ہی آیت میں فرمایا ''ہم نے لقمان علیہ السلام کو حکمت عطا فرمائی تھی کہ (اس فضل پر) اللہ کا شکر ادا کرتے رہو‘‘ (لقمان: 12)۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید میں حکمت کا لفظ سائنسی پس منظر کا حامل ہے۔ اس کے بعد حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحتیں کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک جامع نصیحت کا قرآن مجید یوں تذکرہ کرتا ہے۔ فرمایا ''اے میرے بیٹے! (حقیقت یہ ہے کہ) نیکی اور برائی کا وزن اگر رائی کے دانے برابر بھی ہو پھر وہ دانہ کسی چٹان میں یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو تو اللہ اس (رائی کے دانے برابر عمل) کو بھی لا کر سامنے (وزن) کرے گا۔ کیا شک ہے کہ اللہ انتہائی لطیف اور خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ (لقمان: 16)
یاد رہے! شرک کے بعد جو سب سے بڑا گناہ ہے وہ لوگوں کا حق غصب کرنا ہے۔ اب دانوں میں جو سب سے چھوٹا دانہ یا بیج ہے وہ رائی کا ہے۔ جو رائی کے دانے برابر کسی کا حق لے اڑے گا تو اس کا وزن بھی ہو گا۔ یہ رائی کا دانہ کسی کھیت میں بویا جائے گا اس کھیت کی فصل پر قبضہ‘ کھیت یعنی زمین پر قبضہ‘ فصلوں سے جو رقم حاصل ہو اس کا مکان بنایا جائے تو اس پر قبضہ‘ اس فصل کی کمائی سے خریدا گھوڑا چوری کر لیا۔ آج کے زمانے میں گاڑی یا زیور چرا لیا۔ الغرض! رائی برابر برائی کا بھی مثقال یعنی وزن ہوگا۔ قرآن میں لفظ 'اگر‘ نے بات مزید واضح کر دی کہ رائی سے چھوٹی کوئی چیز ہوئی تو اسے بھی وزن میں رکھا جائے گا کیونکہ وزن کی مقدار کو ''مثقال‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی چھوٹی سے چھوٹی چیز کا ایک ایسا مرحلہ بھی آئے گا کہ جہاں تمہارے ہاتھوں سے مثقال چھوٹ جائے گا۔ اس وقت کسی مادی شے کو وزن ملے گا تو وہ وزن صرف اللہ دے گا۔ یہ وہ مقام ہے جو شکر کا مقام ہے۔
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے الہامی کتاب کے بعد جس حکمت کی بات کی تھی وہ سائنس کا علم ہے۔ انسانی بیماریوں کا علاج کرنے والے کو حکیم کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔ یہ تو سائنس کا صرف ایک شعبہ ہے جسے ''بیالوجی‘‘کہا جاتا ہے جبکہ سائنس کے بہت سارے دیگر شعبے ہیں۔ حضرت لقمان کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکمت دینے کی بات کی تو اس کا مطلب سائنسی علوم بھی ہیں‘ یعنی حضرت لقمان اپنے دور کے ''پی ایچ ڈی‘‘ تھے۔ اللہ کی توحید اور شکر کی دعوت دینے والے تھے تو ایک ماہر طبیب اور ڈاکٹر بھی تھے۔ معاشرتی بیماریوں کے ساتھ ساتھ جسمانی امراض کا بھی علاج کرتے تھے۔ عرب میں وہ مشہور تھے۔ عرب لوگ ان کا ایک رسالہ بھی رکھتے تھے۔ شعرا اپنے شعروں میں ان کا تذکرہ کرتے تھے۔ سیرت ابن ہشام اور ''اسد الغابہ‘‘ میں یہ تذکرے موجود ہیں۔ جی ہاں! اللہ تعالیٰ سورۂ لقمان نازل فرما کر اہلِ عرب کو بتا رہے ہیں کہ اب ایک کامل ضابطہ حیات آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کے پاس ہے لہٰذا میرے رسولﷺ اور ان پر نازل ہونے والے قرآن کو تسلیم کر لو‘ مسلمان بن جائو!
فزکس کا نوبیل پرائز 2025ء جن تین شخصیات کو ملا ہے وہ میشل ایچ ڈیورٹ (Michel Henri Devoret) ہیں‘ جو کیلیفورنیا یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ جان کلارک اور جان مارٹینیز ہیں۔ وہ بھی اسی یونیورسٹی سے متعلق ہیں۔ فزکس میں ذروں کو قابلِ مشاہدہ اور قابلِ استعمال سطح پر لانے کے لیے جو غیر معمولی کارنامے سرانجام دیے ہیں‘ اس پر ان تینوں کو مشترکہ طور پر فزکس کا نوبیل انعام دیا گیا ہے۔ فزکس میں اب تک جو سب سے چھوٹا ذرہ ہے‘ وہ ذرہ بھی ہے اور لہر (wave) بھی ہے۔ پچھلی ایک صدی سے اس ذرے پر محنت جاری تھی کہ اسے قابو میں لایا جائے مگر یہ کنٹرول میں نہیں آ رہا تھا۔ آخرکار مندرجہ بالا تین سائنسدانوں نے اسے قابو کر لیا۔ قرآن مجید میں اس کارنامے کو تسخیر کا نام دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جگہ جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کائنات میں موجود نعمتوں کو تمہارے قابو میں کر دیا ہے؛ یعنی تمہارا مسخر کر دیا ہے۔ قابو کرنے کی صلاحیت تمہارے اندر رکھ دی ہے۔ اب قابو کرتے چلے جائو اور میرا شکر ادا کرتے چلے جائو۔ اس ذرے یا ویو کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ہر قسم کی مضبوط سے مضبوط دیوار یا رکاوٹ کو پار کر جاتا ہے۔ اس کی یہ بھی خاصیت ہے کہ لاکھوں کروڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر یہ دو ذرے یا لہریں موجود ہوں تو ایک کے اندر تبدیلی واقع ہو تو دوسرا اس کے مطابق تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کو وزن یعنی مثقال کیسے ملتا ہے‘ سائنسدان کی سوچ سے ابھی باہر ہے۔ جی ہاں! اس کو وزن دینے والا وہی خالق ہے جس نے نور‘ روشنی یا انرجی سے مادی کائنات بنائی ہے۔
ہماری جو عام بجلی ہے جسے انگریزی میں الیکٹریسٹی کہتے ہیں‘ یہ الیکٹران سے الیکٹرک ہے مگر یہ جو نئے ذرے یا ویو کی انرجی ہے‘ یہ موجودہ الیکٹریسٹی جیسی ہے۔ موجودہ بجلی کا بہائو تانبے وغیرہ کی تاروں میں ہوتا ہے مگر ذرے یا ویو کا بہائو ایک نئے طریقے سے ہوگا مندرجہ بالا نوبیل سائنسدانوں نے اس کے سرکٹ تیار کر دیے ہیں۔ اس کے لیے الگ سے خاص دھاتیں استعمال میں لائی جائیں گی۔ اس علم کو کوانٹم سائنس یا کوانٹم فزکس کہا جاتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ اب دنیا یکدم ایک نئے میدان میں آن کھڑی ہوئی ہے۔ سائنسدانوں نے کہا ہے:
Quantum computing breakthrough push 2025 in to a new era
یعنی 2025ء میں کوانٹم سائنس کا میدان ایک نئے زمانے کی جانب دنیا کو دھکیل کر لے جائے گا۔ اب کمپیوٹر بھی کوانٹم بنیں گے جو موجود کمپیوٹرز سے کروڑوں گنا زیادہ تیز ہوں گے۔ کوانٹم سائنس فار بزنس تیار ہوگی‘ کوانٹم AI چلے گی‘ انڈسٹری بھی کوانٹم بنے گی۔ الغرض ایک کوانٹم معاشرہ بنے گا۔ عالمی کمپنیاں اور حکومتیں ملٹی بلین ڈالرز اسی پر انویسٹ کرنے جا رہی ہیں۔ 2035ء تک 100 ارب ڈالر کوانٹم ٹیکنالوجی پر خرچ ہو گا۔ کوانٹم کمپیوٹنگ پر 72 ارب ڈالر خرچ ہو گا‘ کمیونیکیشن پر 15 ارب ڈالر خرچ ہو گا۔ سینسنگ پر دس ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ 2040ء تک مارکیٹ کھربوں ڈالر تک جا پہنچے گی اور آج کا دور تب ایک پرانا اور فرسودہ دور دکھائی دے گا۔ قارئین کرام! حکمت اور سائنس کے اس نئے دور میں ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ آئیے! اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے نئے دور میں قدم رکھیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام کی طرح اپنی اولاد کی تربیت کرنا نہ بھولیں۔ معاشرے کو مہذب بنانے میں کردار ادا کریں۔ سچے مسلمان‘ پکے پاکستانی بن کر انسانیت کے لیے مفید بنیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved