سائل کے لبوں پر شکایت تھی: مسلمان شرق وغرب میں مصائب کا شکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں مگر اُن پر نچھاور ہو رہی ہیں جو اس کے وجود کے منکر اور کفرانِ نعمت کر نے والے ہیں‘ جو ظالم ہیں۔ ہم گناہگار سہی‘ مگر اس کو الٰہ مانتے ہیں‘ اپنا رب جانتے ہیں۔ ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں؟ یہ محرومیاں کیوں؟ وہی بات ہے جو اقبال نے شکوہ میں کہی ہے:
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
میں بھی استاذِ گرامی کی مجلس کے ایک کونے میں بیٹھا‘ سب کے ساتھ گوش بر آواز تھا۔ بہت دنوں بعد کھوئی ہوئی نعمت‘ کچھ دیر کیلئے پھر سے میسر آئی۔ جاوید احمد صاحب غامدی پاکستان تشریف لائے تھے۔ ان کو دیکھنے اور ملنے کیلئے میں بھی پہنچ گیا۔ مجلس برپا ہوئی تو 37برس پہلے کا لاہور آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ کسی خوف کے بغیر فجر کی نماز کیلئے استاد کی معیت میں مسجد جایا کرتے تھے۔ کبھی رات کو ان کے ساتھ مارکیٹ میں بیٹھ کر کباب کھایا کرتے تھے اور کوئی اندیشہ ہم نوالہ نہیں ہوتا تھا۔ پھر کیا لاہور اور کیا پشاور‘ اس ملک کا امن برباد کر دیا گیا۔ گھروں سے نکلنا محال ہو گیا۔ جاوید صاحب کو ملک چھوڑنا پڑا۔ مجلس میں گیا تو ماضی کی یادوں نے ہجوم کیا مگر میں نے زبردستی ان کو جھٹکا اور استاد کی طرف متوجہ ہو گیا کہ وہ سوال کا کیا جواب دیتے ہیں۔
استاد نے کہا: 'آپ نے شاید اپنی ذات پر کبھی غور نہیں کیا جو اس کی نعمتوں کا سب سے بڑا مظہر ہے۔ اس نے آپ کو سننے کی نعمت عطا کی۔ گفتار کا سلیقہ بخشا۔ اعضا کی سلامتی سے نوازا۔ آپ نے آفاق پر بھی نگاہ نہیں کی۔ اس نے جینے کیلئے آکسیجن کو ارزاں کر دیا۔ پینے کیلئے پانی کے وافر چشمے جاری کر دیے۔ آپ گنتے چلے جائیں‘ اس کی نعمتوں کو شمار نہیں کر سکتے۔ میں تو نہیں گن سکا۔ میں روزانہ ان نعمتوں کو دیکھتا ہوں‘ محسوس کرتا ہوں جو اس نے میرے لیے قدم قدم پر بکھیر دی ہیں۔ ان کی گنتی میرے بس میں نہیں۔ میں شمار نہیں‘ صرف شکر کر سکتا ہوں۔ سچ یہ ہے کہ ویسا شکر بھی نہیں کر سکتا جیسا کہ اس کا حق ہے۔ نعمتیں زیادہ ہیں اور عمر تھوڑی‘۔
یہ سوچنے کا ایک مختلف انداز تھا۔ استاد کے چند جملوں سے سوچ کو ایک نیا زاویہ مل گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ مطالبے اور شکایت کی نفسیات نے ہمیں شکر سے محروم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازنے میں کوئی کمی نہیں کی مگر ہم اس طرف دھیان دینے کیلئے آمادہ نہیں۔ ہم نعمتوں کو استحقاق سمجھ کر ان کو نظر انداز کرتے ہیں اور ہمیشہ محرومیوں کا رونا روتے ہیں۔ ایسا آدمی کبھی آسودہ نہیں ہوتا۔ اسے ہمیشہ پریشانی لاحق رہتی ہے۔ وہ اپنے آدھے خالی اور دوسرے کے آدھے بھرے گلاس کو دیکھتا اور مرثیہ خواں رہتا ہے۔
اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سوچنے کا انداز شخصیت پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ زندگی کو کس نظر سے دیکھنا چاہیے؟ عام آدمی اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر سکتا۔ یہ استاد اور راہنما ہے جو اسے سوچنا سکھاتا ہے۔ اس کو ایک زاویۂ نظر دیتا ہے۔ استاد رسمی ہوتا ہے اورغیر رسمی بھی۔ نبوت کے بعد اب استاد شاگرد کا رشتہ ہی باقی ہے۔ فرد کیلئے جو خدمت استاد سرانجام دیتا ہے‘ سماج کیلئے یہ کام لیڈر کرتے ہیں۔ لیڈر صرف سیاست میں نہیں ہوتے۔ والدین‘ استاد‘ مذہبی پیشوا‘ سیاسی راہنما‘ سب اپنے اپنے دائرے میں لیڈر ہوتے ہیں۔ وہ اگر عوام میں درست سوچ پیدا کریں تو قوم سنور جاتی ہے۔ وہ اگر منفی اندازِ نظر کو فروغ دینے والے ہوں تو سماج بگڑ جاتا ہے۔ پھر بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ قوم کی صلاحیتیں منفی مقاصد کی نذر ہو جاتی ہیں۔
ہماری قوم کو جو استاد بھی ملا‘ اس نے انسانی وجود کے منفی پہلو کو اجاگر کیا‘ الّا ماشاء اللہ۔ سیاسی راہنما وہ ملے جنہوں نے قوم کو تصادم کے راستے پر ڈالا۔ مذہبی راہنماؤں نے بھی ایک احتجاجی مزاج پیدا کیا۔ لوگوں کو یہ انذار کرنے کے بجائے کہ وہ خود پر دین نافذ کریں‘ انہیں اس پر لگا دیا کہ وہ دوسروں پر نفاذِ دین کریں۔ یہاں تک کہ دین داری کی بنیاد پر دوسروں کی زندگی اور موت کا فیصلہ کریں۔ اللہ کی محبت پیدا کرنے کے بجائے‘ لوگوں کے دلوں میں اسلام کا خوف بٹھایا۔ سماجی اصلاح کے علمبرداروں نے حقوق کے بارے میں ایسی حساسیت پیدا کی کہ عورت کو مرد کے مقابل لا کھڑا کیا۔ فرائض کا احساس دلانے والا کوئی نہیں۔
یہ سب زاویۂ نظر کی بات ہے۔ اسی سے سماجی رویے بنتے ہیں۔ یہی رویے ہیں جن پر گھر سے لے کر خاندان‘ محلے اور ریاست کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ جہاں لوگ فرائض کے بجائے حقوق کے بارے میں حساس ہوں گے وہاں ایثار کی جگہ خود غرضی لے لی گی۔ جہاں مذہب عصبیت بن جائے گا وہاں خیر وشر کے پیمانے بدل جائیں گے۔ فرقہ وارانہ تعصبات اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے سامنے حجاب بن جائیں گے۔ جہاں شکر کی جگہ شکایت کو دے دی جائے گی‘ سکون وہاں سے رخصت ہو جائے گا۔ پھر اضطراب کا بسیرا اور اس کی رفاقت ہو گی۔ جہاں سیاست تدبر کی جگہ ہیجان کا نام ہو گی وہاں استحکام نہیں آ سکے گا۔ لوگ مسلسل باہم دست وگریباں رہیں گے۔ ریاست پنپ سکے گی نہ سماج۔
جاوید احمد غامدی صاحب نے دین پر غور وفکر کا منہج ہی نہیں بدلا‘ سوچنے کا ایک نیا زاویہ بھی دیا ہے۔ ان کی مجلس میں منفی سوچ کا گزر نہیں ہوتا۔ وہاں فرد نہیں‘ آرا اور نقطہ ہائے نظر زیرِ بحث آتے ہیں۔ وہ فلسفیانہ تصوف کے ناقد ہیں لیکن ان کے اطوار ایک صوفی جیسے ہیں۔ وہ دشنام کا ہدف تو بنتے ہیں لیکن کوئی ان کی زبان سے کسی کیلئے تہذیب سے گرا لفظ نہیں سنتا۔ ان کے بعض شاگردوں کے ہاں ہمیں افراط وتفریط دکھائی دیتی ہے لیکن یہ ان کی افتادِ طبع ہے جس کو استاد سے کوئی نسبت نہیں۔ استاد صرف کہہ سکتا ہے۔ توجہ دلا سکتا ہے۔ وہ بہرحال داروغہ نہیں ہوتا۔ اسی مجلس میں کسی نے ان کے ساتھ اظہارِ محبت میں مبالغہ کیا تو اسے محبت کے ساتھ توجہ دلائی: ایک مومن کی محبت کا اصل مرکز اس کا پروردگار ہے۔ اللہ نے انسان کی فطرت میں محبت رکھی ہے لیکن اس کو خدا سے محبت کے تابع ہونا چاہیے۔
زاویۂ نظر استاد دیتے ہیں۔ اس قوم کو اپنا استاد بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ جنہیں راہنما اور استاد مان کر چلی‘ چند لمحے رک کر یہ سوچنا چاہیے کہ انہوں نے عوام کو کون سا راستہ دکھایا؟ کون سا زاویۂ نظر دیا اور اس سے قوم کو کیا ملا؟ استحکام یا فساد؟ سکون یا اضطراب؟ ٹھیراؤ یا ہیجان؟ دوسری عالمی جنگ کے بعد‘ جاپان کو اچھے استاد ملے اور ان کا مقدر سنور گیا۔ افغانستان کو دیکھ لیں۔ طالبان کو بھی ایک دوسرا موقع ملا تھا کہ وہ اپنے ملک کو ترقی اور استحکام کے راستے پر ڈال سکتے۔ ان استادوں نے مگر اپنی قوم کو کیا دیا؟ ایک نیا بحران جس سے بآسانی بچا جا سکتا تھا۔ دیگر انتہا پسند تنظیموں کو دیکھ لیں۔ ان کے استاد اورراہنما انہیں کہاں لے گئے؟
جاوید صاحب کی مجلس بس ایسے ہی ہوتی ہے۔ ایک شفیق استاد جو علمی عقدے ہی حل نہیں کرتا‘ افرادی اور سماجی رویوں کو بھی نکھارتا ہے۔ جیسے انہوں نے ایک سائل کو شکر کا احساس دلایا۔ ان نعمتوں کی طرف متوجہ کیا‘ جن کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ کاش اس قوم کو ایسا استاد ملے جو اس کا زاویۂ نظر بدل ڈالے۔ اقبال نے بھی اس قوم کیلئے کبھی یہی دعا کی تھی :
تری دعا ہے کہ ہو تیری آروز پوری
مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved