تحریر : افتخار احمد سندھو تاریخ اشاعت     01-11-2025

فلسطین‘ احتجاج اور بائیکاٹ

فلسطین میں جنگ ہو رہی تھی تو پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ملکوں میں اس حوالے سے احتجاج جاری تھا مگر بحیثیت قوم ہماری نفسیات باقی دنیا سے کچھ مختلف ہے۔ ہم ہر کام شدت سے کرنا چاہتے ہیں۔ احتجاج کے نام پر ملک گیر ہڑتالیں‘ مارکیٹوں کی بندش‘ دفاتر کی تالا بندی شروع کر دی جاتی ہے‘ جس سے ملکی خزانے کو روزانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ان افراد یا ملکوں کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچتا جن کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے مگر اپنے ملک کو شدید معاشی دھچکا لگتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ صرف پُرامن احتجاج کی بات ہو رہی ہے‘ احتجاج کے نام پر جو کچھ یہاں ہوتا ہے اس کا تو قصہ ہی الگ ہے۔
ہمارے ہاں ہر ایشو کو سیاست زدہ کر دینے کی روایت پائی جاتی ہے۔ فلسطین کا ہی ایشو لے لیں‘ اس معاملے کو زیادہ تر ان جماعتوں نے اچھالا‘ قومی سیاست میں جن کا وزن نہ ہونے کے برابر ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس ایشو کے دم پر اپنی مردہ سیاست کے تن میں نئی روح پھونکنا چاہتی ہیں۔ اس سے کچھ وقتی پذیرائی تو مل جاتی ہے مگر حتمی نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہتا ہے۔ لہٰذا ہر دوسرے مہینے انہیں ایک نیا ایشو چاہیے ہوتا ہے ۔ روز روز کی ہڑتال ملکی معیشت کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے لیکن یہ نام نہاد رہنما عوام کے جذبات سے کھیلنے سے باز نہیں آتے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ غزہ کی مظلومیت کے نام پر پاکستان میں عوام سے چندے وصول کئے گئے‘ حالانکہ کسی تنظیم کی طرف سے کوئی امدای سامان اسرائیل نے فلسطینیوں تک پہنچنے نہیں دیا کیونکہ اسرائیلی فوجیوں نے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا تھا۔ یہاں تک کہ دنیا بھر سے امداد لے کر آنے والے فلوٹیلا کو بھی فلسطینیوں تک پہنچنے نہیں دیا گیا بلکہ ان کشتیوں میں موجود امدادی سامان اور ادویات کو ضبط کر لیا گیا اور اس میں سوار سماجی کارکنوں کو گرفتار کر کے ان کے ممالک ڈیپورٹ کر دیا گیا۔ فلسطین ہی کے ایک صحافی جلال الفراء نے ایک پاکستانی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ کے نام پر پاکستان کی مختلف جماعتوں‘ فاؤنڈیشنوں اور تنظیموں نے 150 ارب روپے جمع کیے لیکن غزہ میں ایک سوئی تک نہیں پہنچی۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ ہے کہ معاملے کی حقیقت کو سمجھنے کے بجائے لوگ جذباتی ہو کر سوال اٹھانے والے ہی کے درپے ہو جاتے ہیں۔ کیا ہمیں ایک ذمہ دار شہری کے طور پر یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے کہ فلسطین کے نام پر پاکستان بھر میں کتنا چندہ اکٹھا کیا گیا؟ اس دوران کتنے نئے گروپ اور کتنی نئی جماعتیں سامنے آئیں؟ کیا اس جمع کردہ رقم کے آڈٹ کا کوئی سسٹم موجود ہے؟ کیا ان پیسوں کا آڈٹ نہیں ہونا چاہیے؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب موجود نہیں اور جواب ملنے تک ہمیں یہ سوالات اٹھاتے رہنا چاہیے۔
اسی طرح ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہر دوسرے‘ چوتھے مہینے ملک میں غیر ملکی پروڈکٹس کو یہودی پروڈکٹ قرار دے کر ان کے بائیکاٹ کی مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر‘ خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ ان غیر ملکی مصنوعات کے مقابلے میں ہم نے کون سی بین الاقوامی معیار کی پروڈکٹس تیار کی ہیں جن کو امت مسلمہ یا پاکستانی عوام استعمال کر سکتے ہیں۔ ملاوٹ اور ناجائز منافع خوری میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ہم تو دودھ جیسی بچوں کی خوراک میں بھی انتہائی خطرناک اور مضرِ صحت کیمیکل ملا دیتے ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دودھ کے نام پر کیمیکل ہی بیچا جاتا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ آئے روز متعلقہ اتھارٹیز کی جانب سے سینکڑوں من گوشت اور سینکڑوں ٹن دودھ تلف کرنے کی خبریں اخبارات کا حصہ بنی نظر آتی ہیں۔ ہم تو مرچوں میں بھی لکڑی کا برادہ پیس کر شامل کر دیتے ہیں۔ جعلی مشروبات تیار کرکے لوگوں کو دھڑلے سے اور دھڑا دھڑ پلائے جاتے ہیں۔ الغرض کوئی بھی کھانے پینے والی چیز ایسی نہیں جس میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی‘ معاشرتی اخلاقیات کا یہ عالم ہے کہ زندگی بچانے والی ادویات اور بچوں کے سیرپ تک میں ملاوٹ اور ناجائز منافع خوری کا دھندہ جاری ہے۔ اس ملاوٹ کی وجہ سے لوگوں کے گردے‘ جگر فیل ہو رہے ہیں‘ وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں مگر حرص و ہوسِ زر میں مبتلا افراد کو صرف دولت اکٹھی کرنے سے غرض ہے۔ کیا ہم سے بہتر وہ مغربی معاشرے نہیں جو کھانے پینے کی اشیا میں کسی بھی قسم کی ملاوٹ کا سوچ بھی نہیں سکتے؟ اسی لیے تو ہمارے ہاں اپنے ملک کی تیار کردہ مصنوعات کو چھوڑ کر غیر ملکی مصنوعات پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ شوق سے کریں مگر پہلے خود کو اس قابل تو بنا لیں۔ جب ہم بطور انسان انسانیت کے مرتبے کو سمجھیں گے اور انسانی جانوں سے کھیلنے کے مکروہ دھندے سے باز آ جائیں گے‘ تب جا کر ہمارے منہ سے غیر ملکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بات اچھی لگے گی۔
یہاں سوال یہ بھی ہے کہ غیر ملکی پروڈکٹس کے بائیکاٹ سے نقصان کس کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں جتنے بھی غیر ملکی مصنوعات کے ادارے کام کر رہے ہیں‘ ان میں کام کون کرتا ہے؟ ظاہر ہے ان میں ملازمت ہمارے ہم وطن ہی کرتے ہیں۔ ہزاروں‘ لاکھوں پاکستانی ان اداروں کی وجہ سے باعزت روزگار کما رہے ہیں۔ ان اداروں کی وجہ سے ملکی معیشت کو کروڑوں روپے بطور ٹیکس ملتے ہیں لیکن بائیکاٹ سے ان اداروں کو معاشی دھچکا پہنچتا ہے‘ ادارے بند ہوتے ہیں تو اس سے لاکھوں افراد بھی بیروزگار ہو جاتے ہیں۔ ملکی معیشت کو بھی اربوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔اس لیے جذبات اور جوش سے نہیں‘ ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں خود کو تعلیم وتحقیق کے میدان میں منوائیں‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی مثال قائم کریں‘ ایسی مصنوعات تیار کریں جن کا دنیا بھر میں کوئی ثانی نہ ہو‘ پھر ہم بائیکاٹ کی بات کریں گے تو دنیا اس کو تسلیم بھی کرے گی۔ اس حوالے سے چین ہی کی مثال لے لیں۔ چند مہینے قبل چین میں مغربی برانڈز کے خلاف جب کمپین چلی تو چین نے صرف بائیکاٹ کے ٹرینڈز نہیں چلائے بلکہ نہایت سستے داموں عالمی معیار کی مصنوعات تیار کر کے صارفین کی توجہ حاصل کی۔ بدقسمتی سے ہم ان کاموں میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ کسی بھی چیز کا محض اس وجہ سے بائیکاٹ کرنا کہ یہ غیر ملکی ہے‘ کسی طور بھی مناسب نہیں۔ پہلے اس سے بہتر یا کم از کم اس کے معیار کی چیز تو تیار کر لیں۔ خدارا! جذباتیت کی زد میں آکر اپنے ہی بہن بھائیوں کی روزی روٹی کو لات نہ ماریں بلکہ اپنی اعلیٰ اخلاقی روایات اور اپنے علم و ہنر سے اپنے دشمن کو شکستِ فاش دیں۔ ہم جنہیں اپنا دشمن قرار دیتے ہیں ایمانداری اور راست گوئی میں وہ ہم سے بہت بہتر ہیں۔ علامہ اقبال نے ''ساقی نامہ‘‘ میں برمحل کہا تھا:
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
جس دن ہم نے بھی ایسے اطوار اپنا لیے کہ ہمارا دشمن انہیں کھلے دل سے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے‘ وہ دن ہماری حقیقی فتح کا دن ہوگا۔ جذبات کے بہائو میں اپنے ہاتھوں سے ملکی معیشت اور اپنے غریب ہم وطنوں کی روزی کا سلسلہ بند کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کریں۔ ہمارے حریف اگر اعلیٰ معیار کی اشیا تیار کر رہے ہیں تو ہمیں بھی ایسی ہی مثال قائم کرنا ہو گی۔ تعلیم‘ تجارت‘ ثقافت غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں انہیں مات دینا ہو گی۔ اعلیٰ اخلاقی اصولوں کو فراموش کرنے ہی کی وجہ سے یہ تنزلی و پسپائی ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے۔ علامہ اقبال درست فرماتے ہیں:
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا‘ خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved