تحریر : ذوالفقار علی مہتو تاریخ اشاعت     01-11-2025

تخت پشاور بمقابلہ فاٹا بطور صوبہ

افغانستان کے ساتھ جاری سرحدی تناؤ بلکہ محدود پیمانے کی اس جنگ کے دوران ایک بار پھر یہ بات ثابت ہوگئی کہ سابق فاٹا کی سات ایجنسیوں اور 6 فرنٹیئر ریجنز کے عوام مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں تو ٹی ٹی پی سمیت کوئی درانداز پاکستان پر یلغاراور بین الاقوامی سرحد ڈیورنڈ لائن کے اندر قدم رکھنے کی جرأت تک نہیں کرسکتا۔آج سے کئی سال پہلے لاہور کے صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ اس وقت کے (ن) لیگی وزیر اعلیٰ مہتاب عباسی کی دعوت پر طورخم بارڈر پر گئے۔ اس موقع پر صوبائی حکومت کے ایک افسر نے بتایا کہ قائداعظم محمد علی جناح بھی قبائلی لیڈروں سے ملنے یہاں آچکے ہیں۔ آج یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ برصغیر کے اس عظیم لیڈر نے ان پہاڑوں کا سفر کیوں کیا تھا۔ قائداعظم کی بصیرت افغانستان کی سرزمین سے ہندوستان کی ممکنہ سازشوں کو بھانپ چکی تھی اور اس کا حل ان کی نظر میں قبائلی عوام کی شکل میں وہ دیوار تھی جس کو آج اگر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی سوچ سے منسلک کریں تو بنیانٌ مرصوص کہنا نہایت مناسب ہو گا۔
خیبرپختونخوا میں صوبہ ہزارہ کا مطالبہ بابا حیدر زمان اور دیگر بڑے عرصے سے کرتے آ رہے ہیں لیکن 2018ء میں چھوٹے صوبوں کے جدید تصور پر آگے بڑھنے کے بجائے الٹی گنگا بہا دی گئی اور فاٹا کے علاقوں کو صوبے کی شکل میں خودمختاری دینے کے بجائے تختِ پشاور کے ماتحت کردیا گیا۔ وفاق سے ترقیاتی گرانٹس سمیت دیگر وعدے بھی پورے نہیں ہوئے جو 25ویں ترمیم کے وقت ان علاقوں کی قسمت بدلنے کیلئے کیے گئے تھے۔ سینیٹ کی ایک انکوائری رپورٹ‘ جو سینیٹر ہدایت اللہ خان نے کی (جن کو جولائی 2024ء میں بم دھماکے میں شہید کردیا گیا)‘ سابق فاٹا کے علاقوں میں غیرقبائلی یا غیرمقامی وزرائے اعلیٰ کی بے اعتنائی کے شکوؤں سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے جنوری 2023ء کو سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا کہ وفاق کی جانب سے25ویں آئینی ترمیم کے وقت قابلِ تقسیم محاصل کا جو تین فیصد بطور فاٹا ترقیاتی گرانٹس کیلئے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ موجودہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی بھی یہی شکوہ کررہے ہیں۔
سیاستدانوں کے دعوؤں اور وعدوں کا زمینی حقائق اور دستاویزات کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں۔ خیبرپختونخوا کے نئے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی فاٹا کے علاقوں سے اس عہدے پر فائز ہونے و الے پہلے سیاستدان ہیں۔ سہیل آفریدی نے اسی ہفتے خیبر میں قبائلی امن جرگے سے خطاب میں اعلان کیا کہ امن کیلئے ریاست اور سکیورٹی فورسز کا ساتھ دیں گے۔ سرحدی علاقوں میں امن کیلئے انہوں جو مطالبات کیے ان میں پہلا یہ تھا کہ فاٹا انضمام کے وقت ترقیاتی مد میں وفاق نے 10 سال کیلئے سالانہ 100 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا‘ اس مد میں 550 ارب کے بقایا جات ادا کیے جائیں‘ دوسرا یہ کہ نیشنل فنانس کمیشن کا اجلاس فوری بلایا جائے کیونکہ نئے ایوارڈ کی منظوری سے خیبرپختونخوا کا قابلِ تقسیم محاصل میں حصہ 350 ارب روپے بڑھ جائے گا اور تیسری شرط یہ کہ تربیلا ڈیم اور خیبرپختونخوا میں واقع دیگر پن بجلی گھروں کے نیٹ ہائڈل منافعوں کی مد میں 2200 ارب روپے کے بقایا جات ادا کیے جائیں۔ ان مطالبات پر ہم نے جو تحقیقات کیں وہ اس طرح ہیں کہ 25ویں آئینی ترمیم میں ضم شدہ فاٹا اضلاع کیلئے کسی قسم کی مالی گرانٹ کا کوئی ذکر نہیں ملتا‘ مگر وزارتِ خزانہ کے بعض شواہد میں اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے قابلِ تقسیم محاصل کا تین فیصد وفاقی سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے ذریعے دینے کا وعدہ ضرور ملتا ہے‘ تاہم 100 ارب سالانہ کا ذکر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ آفریدی اور سابق وزیراعلیٰ امین گنڈاپور کس بنیاد پر 100 ارب روپے سالانہ کا دعویٰ کرتے ہیں؟ یہ بات ہم نے اس بنیاد پر لکھی ہے کہ خیبرپختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اس سال پہلی بار ہم نے فاٹا کے حصے کا 100 فیصد وفاقی حکومت سے وصول کیا اور اس کے ساتھ انہوں نے 100 نہیں 70 ارب روپے کا فگر بتایا۔
وزرائے اعلیٰ سابق فاٹا کا حصہ مارنے کا شکوہ کرتے ہیں مگر وزارتِ خزانہ اور خیبرپختونخوا کے محکمہ خزانہ کی بجٹ بکس ان کا منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 27 اپریل کو اپنا آخری بجٹ منظور کیا تو وفاقی ترقیاتی پروگرام میں فاٹا کیلئے 10 سالہ پیکیج کی مد میں 10ارب اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے متوقع 24 ارب 50 کروڑ روپے کی بلاک ایلوکیشن سمیت 27 ارب 76 کروڑ روپے مختص کیے۔ اس پروگرام کا ایک اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ الیکشن کے مد نظر اگلی حکومت کے نئے منصوبوں کیلئے 100 ارب روپے رکھ دیے گئے۔ اگست میں جب عمران خان وزیراعظم بنے تو نئی حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے 18 ستمبر کو نظرثانی شدہ بجٹ پیش کردیا اور اس بجٹ میں (ن) لیگ حکومت کے 850 ارب کے ترقیاتی پروگرام پر 225 ارب روپے کا کٹ لگا کر اس کا حجم 575 ارب روپے کردیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس نظرثانی شدہ بجٹ میں سابقہ فاٹا کے تین فیصد حصے کے وعدے پر عمل کرتے ہوئے میرٹ پر ایڈجسٹمنٹ کی جاتی لیکن اسد عمر نے (ن) لیگ کے فاٹا بجٹ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس سال کے قابلِ تقسیم محاصل کے حجم کو دیکھیں (جس کی بنیاد پر تین فیصد حصے کا تعین ہونا تھا) تو یہ 2509 ارب روپے تھے‘ جس کا تین فیصد 75 ارب 27 کروڑ بنتے ہیں۔ اگر سہیل آفریدی کے 100 ارب سالانہ کے مطالبے کا ماضی کی کتابوں سے پوسٹ مارٹم کریں تو پی ٹی آئی حکومت نے اپنے دوسرے بجٹ 2020-21ء میں فاٹا کیلئے 48 ارب روپے اور 2021-22ء کے بجٹ میں 54 ارب منظور کیے‘ البتہ بجٹ میں یہ نہیں لکھا گیا کہ منظور کیے گئے ان فنڈز میں سے خرچ کتنے ہوئے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے فاٹا کی مد میں 55 ارب روپے مختص کیے جبکہ اگلے مالی سال میں یہ حجم 57 ارب کردیا گیا۔ فروری 2024ء کے بعد بننے والی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں فاٹا کیلئے 70 ارب روپے منظور کیے جو 25ویں آئینی ترمیم کے سال قابلِ تقسیم محاصل کے تین فیصد سے بھی دو ارب روپے زیادہ تھے‘ اور یہی وہ رقم ہے جس کے بارے میں مزمل اسلم نے کہا کہ پہلی بار وفاقی حکومت سے فاٹا کا پورا حصہ موصول ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نے رواں مالی سال میں فاٹا کیلئے 65 ارب 44 کروڑ مختص کررکھے ہیں جو اصل حصے سے دو ارب 56 کروڑ کم ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ فاٹا کے حقوق کی علمبردار کے پی حکومت ان کے ساتھ کیا کررہی ہے تو رواں سال کے 547ارب روپے کے صوبائی ترقیاتی پروگرام میں سے 139 ارب 60 کروڑ روپے مختص کیے ہیں اور اگر وفاق سے ملنے والے 64 ارب 44 کروڑ نکال دیے جائیں تو خیبرپختونخوا کے خالصتاً وسائل سے فاٹا کو 75 ارب 16 کروڑ دیے گئے ہیں جو 463 ارب کے خالص صوبائی ترقیاتی پروگرام کا 16.2 فیصد ہے‘ لیکن سابق فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کی 2025ء میں آبادی کا محتاط تخمینہ 71 لاکھ ہے‘ جو خیبرپختونخوا کی موجودہ آبادی کا 17.3 فیصد ہے‘ تو بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی وفاق سے گلے شکوے کرنے کے بجائے پہلے صوبائی وسائل میں فاٹا کے حق پر ڈاکا رکوائیں یا پھر ان علاقوں کو صوبہ بنانے کے نظریے کی سٹڈی کرائیں تاکہ ان کو خود اور ضم شدہ علاقوں کے عوام کو پتا چل سکے کی تختِ پشاور کے بجائے جب فاٹا صوبے کی شکل میں اورکزئی‘ خیبر‘ باجوڑ‘ مہمند‘ کرم اور وزیرستان کے مقامی سیاستدانوں کو اقتدار منتقل ہو گا تو وفاقی گرانٹس سمیت نئے این ایف سی میں بقول سہیل آفریدی جو 350 ارب روپے کا حصہ ملنا ہے‘ وہ فاٹا صوبے کو ملے گا اور اس کی حکومت کے پاس 400 ارب روپے سالانہ کے وسائل ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved