تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     02-11-2025

دو قومی نظریہ اور فکر کے دائرے

ایک خطۂ زمین پر دو قوموں کا تشکیل پانا کوئی عجیب بات نہیں۔ اور اس امر کی بنیاد پر اس خطۂ زمین کا بٹوارا ہو جانا یہ بھی کوئی انوکھی بات نہیں۔ ایسی کتنی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ لیکن ایسی تقسیم کی بنیاد پر نفرت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا پیدا ہونا‘ یہ منفرد بات ضرور ہے۔ بابائے قوم نے تو کہا تھا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات ایسے دیکھتے ہیں جیسا کہ امریکہ اور کینیڈا کے آپس میں۔ تقسیم ہو گئی‘ دو مختلف ممالک معرضِ وجود میں آ گئے اور بابائے قوم کو کوئی عار محسوس نہیں ہوتا تھا‘ ہندوستانی وزیراعظم جواہر لال نہرو کو خط لکھنے میں۔ پنجاب لہو لہان ضرور ہوا لیکن اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ تقسیمِ ہند کا فیصلہ ہوا تو دونوں طرف سے لیڈر تقسیمِ پنجاب کیلئے تیار نہ تھے اور حالات ایسے بنے کہ دونوں طرف سے قتلِ عام ہونے لگا۔
وجۂ عناد تو کچھ سمجھ میں آئے۔ تقسیم ہو گئی تو وجۂ عناد رہنی نہیں چاہیے تھی۔ یہ کہنا کہ ہندوستان نے پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا‘ بیکار کی باتیں ہیں۔ ہم نے بنگلہ دیش کے قیام کو دل سے قبول کیا تھا؟ لیکن بنگلہ دیش معرضِ وجود میں آ گیا اور آج تک قائم ہے۔ جب اس ملک کے باسی ایسی باتیں کرتے ہیں تو ان کی خود اعتمادی پر سوال اٹھتا ہے۔ اس ضمن میں کشمیر کا ذکر کرنا بھی بات کو الجھانے کے مترادف ہے۔ کشمیر دو قومی نظریے کی بنیاد نہیں ہے۔ کشمیر کا مسئلہ بعد میں اٹھا‘ دو قومی نظریے کا تصور ہندوستانی تاریخ کے نشیب و فراز میں پنہاں ہے۔ پاکستان تحریک جب اپنے زوروں پر تھی کشمیر کا ذکر کہاں ملتا ہے؟ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے تو ایک تقریر میں کشمیر اور حیدرآباد دکن کے تبادلے کی بات کی تھی لیکن اس وقت کے ہمارے قائدین کی دلچسپی حیدرآباد دکن میں زیادہ تھی۔ کشمیر کا مسئلہ تو ذرا بعد میں پیدا ہوا۔ نئی ریاستِ پاکستان کی یہ تاریخی کوتاہی بھی یاد رہے کہ وسط اگست 1947ء سے لے کر اکتوبر 1947ء کے آخر تک کشمیر نہتا پڑا ہوا تھا۔ جو جنگِ کشمیر بعد میں چھڑی کچھ پہلے ہمارے اکابرین چھیڑ دیتے تو ایک بٹالین فوج سری نگر پر قبضہ کرنے کیلئے کافی تھی۔ قبائلی لشکر ضرور گیا لیکن بارا مولا اور گردو نواح میں لوٹ مار کی وجہ سے اس سے تاخیر ہو گئی اور چند سو پر مشتمل ہندوستانی دستہ سری نگر ایئر پورٹ پر پہلے پہنچ گیا۔ یہ بھی اکتوبر 1947ء کے آخری دنوں میں۔ ڈیڑھ دو ماہ تک سری نگر کسی بھی طرف سے قبضے کا منتظر رہا۔ ہندوستان نے پہل کر دی اور ہم آج تک کشمیر کے جانے کا رونا رو رہے ہیں۔
سیاچن کی کہانی بھی کافی ملتی جلتی ہے۔ 1947ء لے کر 1984ء تک سیاچن پاکستان کی ملکیت سمجھا جاتا تھا لیکن عملی قبضہ پاکستان کا تھا نہ ہندوستان کا۔ پرانے فوجیوں سے پوچھ لیجئے‘ 1984ء میں ہلکا پھلکا فیصلہ ہوا کہ آئندہ بہار میں پیش قدمی کرکے قبضہ کر لیا جائے گا۔ سردیوں کا موسم گزرا تو ہندوستانی فوج سیاچن پر پہلے پہنچ گئی۔ 1985ء سے لے کر آج تک اور بیچ میں کارگل کا معرکہ بھی آیا‘ ہم زور لگاتے رہے لیکن سیاچن پر قبضہ ہندوستان کا ہی رہا۔
یہ تو ہم کہیں اور چل دیے‘ بات تو دو قومی نظریے کی تھی۔ دو قومی نظریے کی حقیقت بہت سے وہاں کے دانشور بھی مانتے ہیں۔ لیکن بات پھر وہی کہ صدیوں کی اونچ نیچ کے بعد دو آزاد ریاستیں تشکیل پا گئیں۔ بھائی چارے کو چھوڑیے‘ ریاستو ں کے مابین بھائی چارے کی کیفیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لیکن تنازعۂ کشمیر کے باوجود‘ پنجاب میں خونریزی کے باوجود‘ نارمل تعلقات تو قائم ہو سکتے تھے۔ لیکن اس کی جگہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلۂ نفرت اور دشمنی کا‘ جس کا جواز ڈھونڈیں بھی تو آسانی سے نہیں ملتا۔ مزیدار بات یہ کہ شروع شروع میں تعلقات اتنے خراب بھی نہ تھے۔ تصویریں موجود ہیں وزیراعظم جواہر لال نہرو اور دیگر وزرا سفارت خانۂ پاکستان میں بیٹھے ہوئے۔ 1955ء میں ہندوستان کے ریپبلک ڈے پر مہمانِ خصوصی ہمارے گورنر جنرل غلام محمد تھے۔ آج کے تناظر میں کوئی سوچ سکتا ہے کہ ایک دوسرے کے قومی دنوں پر مہمانِ خصوصی دوسری طرف سے آئے؟
سارا مسئلہ 1965ء کی جنگ سے شروع ہوا۔ کوئی خاص وجہ نہ تھی اور دونوں ممالک آنکھوں پر پٹی باندھے برسرِپیکار ہو گئے۔ 17دن بعد سکتِ جنگ ٹھنڈی پڑ گئی اور روس کی مداخلت پر جنگ بندی ہو گئی۔ لیکن نفرت کے بیج ایسے بوئے گئے کہ دشمنی اٹل ہو گئی۔ یہاں کیلئے میڈم نور جہاں کے نغمے ہی کافی تھے‘ سحر اتنا کہ یہ سوال ہی نہ اُٹھا کہ پہل کس کی تھی۔ حملے کی صورت میں ہندوستانی واردات ستمبر میںہوئی لیکن اس سے پہلے کا بھی ایک سلسلہ تھا جس کے بارے میں پاکستان میں زیادہ سوال نہیں اٹھتے۔ بہرحال جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکمرانی پر گرفت کمزور ہوئی۔ دوسرا نتیجہ یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک پبلک ہیرو کے طور پر ابھرے۔ یو این سکیورٹی کونسل میں دھواں دار تقریر کی جو خاصی مقبولِ عام ہوئی اور پھر پاکستانی پبلک کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ وہ معاہدۂ تاشقند کے خلاف تھے۔ اس نکتے پر بھٹوصاحب کی ایکٹنگ بھرپور رہی لیکن پاکستانی قوم اس بات سے بے خبر رہی کہ آخر معاہدۂ تاشقند میں کون سی قابلِ اعتراض شق تھی؟ اس معاہدے کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ ہندوستان اور پاکستان اپنے مسائل کا پُرامن حل تلاش کریں گے۔
بہت دیر ہو چلی‘ اب تو قوم سمجھ جائے کہ دشمنی کے پرچار کے سبب پاکستان کبھی نارمل ریاست نہیں بن سکتا۔ یہاں جمہوریت اتنی کمزور کیوں ہے؟ ہماری تاریخ میں طالع آزماؤں کا آنا اور ان کے طویل ادوارِ حکمرانی کی وجہ کیا ہے؟ کھوج لگائیں تو اور وجوہات کے ساتھ ایک بڑی وجہ ٹکراؤ اور دشمنی کا پرچار ہے۔ اس کیفیت اور اس سے اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے ہمارے سیاسی اور معاشی نظام کا توازن متاثر ہوتا ہے۔ کن امیدوں کو پالے 1973ء کا آئین تیار ہوا۔ طالع آزما ئی کا راستہ روکنے کیلئے آرٹیکل چھ میں کتنی سخت زبان استعمال کی گئی لیکن کیا اس سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے؟ آئینی زبان جتنی مرضی ہم سخت کر لیں اگر بنیادی ڈھانچے میں عدم توازن رہے تو آئینی شقوں کا کوئی اثر نہیں رہتا۔ کیفیت ایسے بنے کہ جنگ کے ڈھول پیٹنے کی ضرورت نہ رہے‘ دشمن کا لقب کسی ہمسائے پر نہ چپکایا جائے‘ اور خوا مخواہ کے للکارنے سے اجتناب کیا جائے‘ تب ہی نارمل کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ جمہوریت کی نشوونما بھی تب ہوتی ہے کہ بے جا کے للکروں کا بخار ذرا کم ہو۔ جمہوریت کسی ایڈونچر کا نام نہیں‘ جمہوریت نارمل حالات کا تقاضا کرتی ہے۔
یہاں نظریاتی بحثوں نے کیا کیا قیامتیں ڈھائیں (کیا پنجاب کی خونریزی اور آپس کی مسلسل دشمنی آفتوں سے کم ہیں؟) اور انگریزوں کو دیکھیے جو برملا کہتے ہیں کہ ہماری یونائٹڈ کنگڈم چار قوموں کا مجموعہ ہے: انگریز‘ سکاٹش‘ ویلش اور آئرش۔ اسے کہتے ہیں اعتماد۔ سکاٹ لینڈ ریفرنڈم کا تقاضا کرتا ہے اور ایمرجنسی کے کوئی بِگل نہیں بجتے۔ کینیڈا میں کیوبک علیحدگی کا مطالبہ کرتا ہے اور کینیڈا کی فوج حرکت میں نہیں آتی۔ یہاں عوامی لیگ واضح اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آتی ہے اور قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں بلایا جاتا۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے‘ غیروں کے ہاتھوں ملک دولخت ہو جاتا ہے لیکن سبق سیکھا جاتا ہے نہ روشیں بدلنے کا نام لیتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved