جس دن راولپنڈی کا ہولناک واقعہ پیش آیا اس سے اگلے دن یعنی 16 نومبر کو برداشت \"Tolerance\" کا عالمی دن منایا گیا۔ یہ دن 1996ء سے باقاعدہ ہر سال منایا جاتا ہے اور اس کا مقصد دنیا بھر کے انسانوں کو عدمِ برداشت کے نقصانات سے آگاہ کرکے باہمی اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر محبت اور تعاون کے ماحول میں رہنے پر آمادہ کرنا ہے۔ اس موقعہ پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے بیانات جاری کیے جاتے ہیں اور ہر ملک میں معاشرتی امن کی خاطر قوتِ برداشت کی اہمیت کو واضح کرنے کیلئے خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ پہلے کی طرح اس سال بھی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ایک بیان جاری کیا جس کا ایک فقرہ خصوصی طور پر قابل غور ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے قوموں کے درمیان فاصلے سمٹ رہے ہیں لیکن انسان ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ مختلف عقیدوں، مذاہب کے حامل اور ایک دوسرے سے الگ زبانیں بولنے والے لوگوں کا ایک دوسرے سے میل جول بڑھ رہا ہے، لیکن اخوت کم ہو رہی ہے اور ہر طرف عدم برداشت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سانحہ راولپنڈی کے خلاف ردعمل کے طور پر ملک کے دیگر مقامات پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک اللہ اور ایک قرآن پر ایمان رکھنے کے باوجود پاکستان میں مسلمانوں کے درمیان عدمِ برداشت میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے۔ مختلف حلقوں کی جانب سے اس مذموم اور تباہ کن واقعہ کی مختلف توجیحات پیش کی جا رہی ہیں۔ کوئی اسے انتظامیہ کی نااہلی اور ناکامی کا نتیجہ قرار دیتا ہے، کسی کو اس کے پیچھے فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش نظر آرہی ہے اور کوئی اسے پاکستان دشمن بیرونی طاقتوں کی طرف سے ملک کو غیرمستحکم کرنے کی عالمی سازش کا حصہ قرار دے رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بروقت اور موثر اقدامات سے اس قسم کی صورتحال کو خطرناک حد تک بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔ امن و امان کے قیام کی ذمہ داری چونکہ بنیادی طور پر حکومت پر عائد ہوتی ہے اس لیے لوگ انتظامیہ کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں‘ لیکن شواہد یہ بتاتے ہیں کہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے یا بین الاقوامی سازش کا نتیجہ نہیں، بلکہ عدم برداشت کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کا نتیجہ ہے جو ہمارے معاشرے میں آہستہ آہستہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ ایک معمولی سا واقعہ بھی بہت بڑے سانحہ کا باعث بن جاتا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں مختلف عقیدوں کے حامل لوگ نہ رہتے ہوں۔ کرہ ارض پر رہنے والے لوگ نہ تو ایک زبان بولتے ہیں اور نہ ہی ان کی ثقافت ایک جیسی ہے لیکن ان سب کو ایک عالمی برادری کی حیثیت سے اکٹھے رہنا ہے۔ اس میں ان کی بھلائی، ترقی بلکہ بقا کا راز مضمر ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ پیغام جو ہمارے مذہب اسلام کا بھی پیغام ہے، پاکستان کے مسلمانوں پر اثرانداز کیوں نہیں ہوتا۔ ہر سال محرم الحرام کے موقع پر ممکنہ تصادم کو روکنے کیلئے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ پولیس اور نیم فوجی دستوں کے علاوہ فوج کو بھی ڈیوٹی پر مامور کیا جاتا ہے اس کے باوجود تشدد اور تصادم کے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جیسا کہ راولپنڈی کا واقعہ پیش آیا۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات ایک انتظامی مسئلہ نہیں اور نہ ہی انہیں محض انتظامی اقدامات سے روکا جا سکتا ہے‘ بلکہ یہ واقعات ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کا شاخسانہ ہیں اور اس کے پیچھے ان عناصر کا ہاتھ ہے جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے ایک عرصے سے معاشرے میں نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے عناصر کو بے نقاب کیا جائے اور انہیں اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے معاشرے کو زہر آلود بنانے سے روکا جائے۔ پاکستان میں گزشتہ تقریباًَ تین دہائیوں سے فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں لیکن ہر بار انہیں محض انتظامیہ کی ناکامی یا بین الاقوامی سازش کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے حالانکہ اب ہمیں حتمی طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ یہ واقعات نہ تو کسی اتفاقی حادثے کے باعث رونما ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہیں۔ حقیقت میں ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں کیونکہ عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے ان پر نہ تو سابق حکومتوں نے توجہ دی اور نہ ہی موجودہ حکمران ان کی طرف توجہ دینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس نفرت، عدم برداشت اور تشدد کا پرچار کرنے والی تنظیموں اور عناصر کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ سیاسی مصلحتوں کی خاطر نہ صرف ان کی مذمت کرنے سے گریز کیا جاتا ہے بلکہ انہیں اپنی صفوں میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اسلام میںفرقوں کی موجودگی شروع سے ہے لیکن فرقہ وارانہ تشدد اور جنگجوئی (Militancy) ماضی قریب کے ادوار کی پیداوار ہے۔ پاکستان میں 1980ء کی دہائی سے قبل فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد پر مسلح تصادم یا تشدد کے واقعات رونما نہیں ہوتے تھے۔ اس کی ابتدا جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہوئی جس نے غیرآئینی اور غیرقانونی طریقے سے حاصل کردہ اقتدار کے تحفظ کی خاطر فرقہ وارانہ تنظیموں کی سرپرستی کی۔ علما حتیٰ کہ مدرسوں کے طلبا کی بھی ایک بڑی تعداد کو فوجی آمر نے اس مقصد کیلئے استعمال کیا جس کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی مرتبہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ (Target Killing) اور مذہبی عبادت گاہوں، جلسوں اور جلوسوں پر مسلح حملوں کا آغاز ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں روسی مداخلت کے خلاف افغانستان میں جہاد کے نام سے مزاحمتی تحریک شروع ہوئی۔ اس میں حصہ لینے والوں کیلئے پیسہ اور ہتھیار تو امریکہ نے فراہم کیے لیکن اس امداد کی ترسیل اور تقسیم کا سارا انتظام پاکستان کے ہاتھ میں تھا‘ جسے چلانے کیلئے جنرل ضیاء نے نہ صرف فوج کو استعمال کیا بلکہ ملک کی مذہبی‘ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا۔ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد دراصل اس ’’افغان جہاد‘‘ کی بائی پروڈکٹ (By-Product) ہے کیونکہ دس برس تک جاری رہنے والی اس جنگ میں انتہاپسند گروپوں کو عسکری تربیت حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوئے اور جب طالبان افغانستان میں برسرِاقتدار آئے تو ان تنظیموں کو افغانستان میں نہ صرف اڈے اور تربیتی کیمپ قائم کرنے کی اجازت دی گئی بلکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد اور ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کی کارروائیاںکرنے کے بعد ان تنظیموں کے اراکین بھاگ کر افغانستان میں پناہ حاصل کرتے تھے۔ جنرل مشرف کے دور میں اس مسئلے نے اس قدر تشویشناک صورت اختیار کر لی تھی کہ حکومتِ پاکستان کو کابل کی طالبان حکومت سے فرقہ وارانہ دہشت گردوں کے ان تربیتی کیمپوں کو بند کرنے اور پاکستان میں قتل کی وارداتوں میں ملوث افغانستان میں پناہ لینے والے افراد کی واپسی کا مطالبہ کرنا پڑا۔ اب بھی طالبان‘ خواہ ان کا تعلق پاکستان سے ہو یا افغانستان سے‘ اور پاکستان کی انتہاپسند فرقہ وارانہ تنظیموں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ وہ اپنی کارروائیوں کیلئے ایک دوسرے سے رابطہ رکھتی ہیں اور امداد بھی حاصل کرتی ہیں لیکن پاکستان کے حکمران اور سیاسی رہنما اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں بلکہ جس طریقے سے ہزاروں معصوم شہریوں اور فوج، پولیس کے سپاہیوں کے قاتل حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت پر ہماری سیاسی قیادت، بشمول حکومت نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، اس سے ملک میں تشدد اور دہشت گردی کی طرف رجحان میں اضافہ نہیں ہو گا تو کیا ہو گا؟ اگر ہمارے حکمران تشدد اور دہشت گردی میں ملوث عناصر کی اس طرح حوصلہ افزائی کرتے رہے تو راولپنڈی کی نوعیت کے مزید واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved