اس مضمون کا آغاز اس امید سے کرتے ہیں کہ پنجاب کی ہوائی کمپنی قائم کرنے کے منصوبہ کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا۔ اس کی نہ جانے کیوں ضرورت محسوس کی گئی‘ اور نہ جانے حکومت پنجاب بدلی ہوئی معاشی دنیا اور اس کے غالب رویوں کا کیوں ادراک نہ کر سکی جن میں ریاست کا کردار تجارتی کمپنیوں‘ صنعتوں‘ بجلی کی پیداوار اور ترسیل میں‘ یہاں تک اکثر مغربی ممالک میں ریلوے نظام کو چلانے میں بھی اب ختم ہو چکا ہے۔ لیکن یہاں ہم گنگا کی بات تو نہیں کر سکتے کہ یہ دریا ہمارے پڑوسی ملک میں بہتا ہے‘ اس لیے اس محاورے میں قدرے تصرف کرتے ہوئے 'ستلج‘ کو الٹا بہتا دیکھ رہے ہیں۔ اگر کسی کو اعتراض ہے کہ ستلج کو ہم نے دریاؤں کے لین دین میں بھارت کے حوالے کر دیا تھا تو جواب میں گزارش ہو گی کہ ہم اس کے رُخ کو زبردستی موڑنے اور اس کا معاہدہ کیے جانے پر ابھی تک دل گرفتہ ہیں۔ پہلے تو پنجاب پانچ دریاؤں کے بغیر پنجاب ہی نہیں بنتا مگر اب نام تو صوبے کا نہیں بدلا جا سکتا۔ اس کی اپنی خوبصورت اور گہری تاریخ‘ ہماری شناخت‘ ثقافت کے کئی رنگ‘ زبانیں اور اپنا لوک ورثہ موجود ہے‘ جس پر جتنا فخر کیا جائے کم ہے۔
پنجاب کی ثقافت‘ تاریخ‘ ادب اور زبان یا اس کی عمومی شناخت کے لیے نہ تو ہوائی کمپنیوں کو اس نام کی ضرورت ہے نہ ہی کسی بینک کو صوبے کی تحویل میں چلانا لازم ہے۔ لگتا ہے کہ حکومت پنجاب کے تاریخی خطے اور اس کے عوام کے لیے کچھ بڑے کام کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ مگر ہمارے نزدیک ہوائی کمپنی کا پلان گھسی پٹی معاشی اور سیاسی سوچ کی علامت ہے۔ ایک زمانہ تھا‘ تقریباً آج سے 70 سال پہلے کا‘ جب نئی مملکتیں وجود میں آئیں تو بڑے تجارتی کاموں کے لیے‘ یہاں تک کہ بڑی صنعتیں لگانے کے لیے‘ مقامی سرمایہ کار کمزور تھے۔ ایوب خان کا دور یاد ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے ہماری ریاست نے بیرونی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر صنعتیں قائم کیں‘ جو بعد میں نجی تحویل میں فروخت کر دیں۔ وہ زمانہ کب کا گزر چکا۔ اب یہاں نہ داخلی سرمایہ کاروں کی کمی ہے اور نہ باہر کے ملکوں کی کمپنیوں کی۔ نہ جانے ہمارے پنجاب کے حکمران اتنا تجربہ رکھنے کے باوجود صوبے کی اپنی ہوائی کمپنی بنانے پر کیوں مُصر ہیں۔ ہم صرف اس بارے میں قیاس آرائی ہی کر سکتے ہیں۔ اگر عوام کی خدمت مقصود ہے تو ہمارے بیچارے عوام تو بسوں کا کرایہ تک نہیں دے سکتے۔ سفر وہ کرتے ہیں مجبوری میں مگر ہوائی سفر تو اعلیٰ طبقات کے لیے ہے۔ اب ان کی خدمات کے لیے بھی کئی نجی کمپنیاں اور کرم خوردہ قومی ہوائی کمپنی موجود ہے۔ دوسرا کوئی مقصد اگر اس تجارتی کمپنی سے منافع کما کر پنجاب کے عوام کی خدمت کرنا ہے تو اس کے لیے یہ کبھی منافع بخش کاروبار حکومتوں کے لیے نہ ہوا ہے اور نہ اس کا امکان نظر آتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ لگاتار قائم ہونے والی حکومتوں نے قومی ہوائی کمپنی‘ جو کسی زمانے میں دنیا بھر میں اپنی شہرت رکھتی تھی‘ کا کیا حال کیا۔ کون سی منتخب حکومت ہے جس نے اس میں سیاسی بھرتیوں کی بھرمار نہ کی ہو۔ شروعات تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئی تھی‘ جب جیالوں کو ڈھونڈ کر کارخانوں‘ بینکوں‘ مالیاتی اداروں اور یہاں تک کہ نوکر شاہی میں بڑے پیمانے پر بھرتی کیا گیا۔ جو بعد میں آئے انہوں نے بھی بھرتیوں میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
جو کچھ سرکاری تحویل میں کاروباری کمپنیوں نے خسارے کمائے ہیں اس کی مثال شاید دنیا میں نہ ملے۔ تخمینہ یہ ہے کہ ان سب کو ملا کر یہ ملک یعنی ہم عوام‘ سالانہ کئی دہائیوں سے ڈیڑھ کھرب کے لگ بھگ ہرجانہ ادا کر رہے ہیں۔ اور اتنی خطیر رقم کے لیے ہمارے پاس سرمایہ نہیں‘ اس لیے ادھار لے کر ادائیگیاں کر رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے ہماری حکومتیں ملک کی واحد سٹیل مل کو نہ دوبارہ چلا سکی ہیں اور نہ ہی اسے فروخت کر پائی ہیں۔ بہت سے گدھ ادھر اُدھر نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ کسی طرح اس کی زمین قبضے میں آ جائے۔ موجودہ حکمران جماعت کے تضادات دیکھیں کہ ایک طرف پاور کمپنیوں‘ قومی ہوائی کمپنی‘ کچھ سرکاری بینکوں اور دیگر ریاستی اداروں کو فروخت کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی ہوئی ہے اور اپنا معاشی فلسفہ بھی یہی رہا ہے کہ حکومت کا کام بزنس کرنا نہیں مگر دوسری طرف حکومت پنجاب ایک نئی ہوائی کمپنی کو میدان میں لانے کے لیے پر تول رہی ہے۔ ہم گزارش ہی کر سکتے ہیں کہ جلسہ نہ جلوس اور نہ ہی ہڑتال کی کال دے کر تالا بندی کرا سکتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آخر اس ہوائی کمپنی کی ہوا کہاں سے چلی۔ کسی کی نیت پر شک کرنا اچھا نہیں‘ کبھی ایسا کیا نہیں اور نہ اب اس کا ارادہ ہے۔ بس اگر کسی نے اس کا مشورہ دیا ہے تو وہ حکومت کا خیر خواہ ہے اور نہ ہمارے ہرے بھرے پنجاب کا۔ عجیب بات ہے کہ پہلے سرکاری بینکوں کی نجکاری کی‘ پھر دوبارہ سرکاری بینک بنا لیا‘ دیکھا دیکھی سندھ اور خیبر پختونخوا میں بھی بن گئے۔ اب سنا ہے کہ بلوچستان بھی اپنا بینک بنانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ جب کمرشل بینکوں کی نجی شعبے میں کمی نہیں تو سرکاری بینکوں کے لیے کیا جواز بنتا ہے؟ اس بارے میں بھی کسی کی نیت پہ شک کی ضرورت نہیں۔
وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز متحرک ہیں‘ جذبۂ خدمت سے سرشار ہیں اور ان میں کچھ کر دکھانے کا عزم بھی ہے۔ ان تمام خوبیوں کے پیش نظر ہماری درخواست ہے کہ جو اچھے کام پہلے سے شروع ہیں‘ جیسے زمینوں کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن‘ سرکاری اور نجی زمینوں پر ناجائز قبضے چھڑوانا‘ صاف پانی کی فراہمی اور صاف ستھرا پنجاب‘ ان پر توجہ مرکوز رکھیں۔ پنجاب کے ایک کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ایک آرڈیننس لے آئیں کہ والدین کے لیے لازم ہو کہ 18 سال سے کم عمر کے بچے اور بچیاں سکولوں میں لازمی تعلیم کے دائرے میں آ جائیں۔ وسائل پیدا کریں‘ جہاں ضائع ہو رہے ہیں انہیں کم کر کے تعلیم‘ صحت‘ صاف پانی اور دیہات میں سڑکوں کی تعمیر پر خرچ کریں۔ حکومت کے اداروں کی کارکردگی میرے خیال میں موجودہ پنجاب حکومت میں بہتر ہوئی ہے‘ اسے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کی آسانیاں اور ان کے روزمرہ مسائل کا حل کچھ مزید خرچ کیے بغیر بھی ممکن ہے۔ ایک اہم بات پنجاب کے جنگلات کی بحالی کے بارے میں حکومت کے گوش گزار کرنا ضرروی ہے۔ اتنی بڑی نوکر شاہی‘ ملازمین اور بجٹ کے ہوتے ہوئے جنگلات کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور زمینوں پر لوگ ابھی تک قابض ہیں۔ نہری نظام تباہ ہو چکا ہے۔ بطور کاشتکار میرا تجربہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ٹیل پر زمینوں تک پانی کبھی پہنچا ہی نہیں۔ نہری پانی کی چوری‘ ناجائز اور غیر قانونی موگوں سے صرف بڑا زمیندار فائدہ اٹھاتا ہے۔ چھوٹے کاشت کسمپرسی کے عالم میں ہیں۔ یہ ہیں پنجاب حکومت کے کرنے کے کام۔ چھوڑیں ہوائی باتوں کو‘ اصل کاموں پر توجہ دیں‘ ورنہ پھر ہم کیا سمجھیں کہ ارادے آپ کے کیا ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved