ایف بی آر نے ٹیکس ریٹرنز فائل کرنے کی تاریخ میں مزید توسیع نہیں کی اور 31 اکتوبر تک ٹیکس ریٹرنز جمع نہ کروانے والے نان فائلر تصور ہوں گے۔حکومتی پالیسیوں کے مطابق نان فائلرز ہونا بہت سی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔اس سال 31 اکتوبر تک تقریباً 59 لاکھ ٹیکس ریٹرنز فائل کئے گئے ‘گزشتہ سال تقریباً 50 لاکھ ریٹرنز جمع کرائے گئے تھے۔ 59 لاکھ فائلرز میں سے تقریباً 36 لاکھ فائلرز نے ٹیکس بھی جمع کرایا جو پچھلے سال سے تقریباً 18.6 فیصد زیادہ ہے۔ انفرادی ٹیکس فائلرز نے پچھلے سال تقریباً 60 ارب روپے ٹیکس جمع کرائے تھے ‘ اس سال تقریباً 69 ارب روپے ٹیکس جمع کرایا گیا۔
رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں ٹیکس کولیکشن کے اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ جولائی تا اکتوبر 2025ء کے دوران 3837 ارب روپے جمع کیے گئے جبکہ مقررہ ہدف 4109 ارب روپے تھا‘جو کہ 272 ارب روپے کے بڑے شارٹ فال کو ظاہر کرتا ہے۔ ایف بی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر کے دوران تقریباً 952 ارب روپے جمع کیے گئے جبکہ ماہانہ مقررہ ہدف 1026 ارب روپے تھا، جو 74 ارب روپے کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ٹیکس شارٹ فال کی متعدد وجوہ بتائی جاتی ہیں مثال کے طور پر بجلی کے بلوں کے سیلز ٹیکس کی وصولی میں کمی‘ کیونکہ سولرائزیشن کے بڑھتے رجحان سے بجلی کی کھپت کم ہوئی ہے اور بجلی کی فروخت کم ہونے سے سیلز ٹیکس بھی تخمینے سے کم وصول ہوا۔ایف بی آر کے اہداف حاصل نہ ہونے سے آئی ایم ایف کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور ممکنہ طور پر جنوری میں موبائل کالز‘ لینڈ لائن کالز اور بینکوں سے کیش نکلوانے کی مد میں ٹیکسوں کی شرح بڑھائی جا سکتی ہے۔ کسٹمز ڈیوٹی کا ہدف 407 ارب روپے تھا مگر ہدف سے 13 ارب روپے زیادہ‘ 420 ارب روپے کسٹم ڈیوٹی وصول کی گئی۔ کسٹم ڈیوٹی میں یہ اضافہ درآمدات میں اضافے کی بدولت ہے۔ کسٹم ڈیوٹی سے ٹیکس کا حصول ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے‘ مگر اصل کارکردگی کا اندازہ اُس وقت ہوگا جب درآمدات بھی نہ بڑھیں اور کسٹم ڈیوٹی کے اہداف حاصل ہو جائیں۔ درآمدات بڑھنے سے ٹیکس وصولی میں اضافہ قابل تعریف نہیں کیونکہ اس سے تجارتی خسارہ بھی بڑھتا ہے‘ ڈالر ذخائر پر بوجھ بڑھ سکتا ہے اور روپے کی قدر کم ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ماضی میں عدم استحکام‘ بے یقینی‘ روپے کی گرتی قدر اور بے لگام مہنگائی نے کاروباری فضا کو ایسے جکڑ رکھا تھا کہ سرمایہ کار پاکستان آنے کا سوچ کر گھبراتے تھے مگر اب حالات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔ اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق اس کے ساتھ منسلک 200 سے زائد غیر ملکی سرمایہ کاروں میں سے تقریباً 73 فیصد اب پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے موزوں ملک سمجھتے ہیں۔ یہ شرح 2023ء میں 61 فیصد تھی۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد میں یہ اضافہ قومی معاشی بیانیے میں ایک بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کیسے دوبارہ پُرکشش نظر آ رہا ہے؟ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ جن میں سرفہرست افراطِ زر میں کمی ہے۔ 2023ء کے وسط میں مہنگائی 37 فیصد تک تھی۔ 2025ء تک یہ شرح چار فیصد پر آ جانا ایک بڑی کامیابی ہے۔ جب قیمتیں قابو میں آتی ہیں تو سرمایہ کاری کے فیصلے آسان ہو جاتے ہیں‘ کاروبار کی لاگت کم اور منصوبہ بندی قابلِ عمل کم ہو جاتی ہے۔ روپے کے استحکام نے بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ ماضی میں جب ڈالر روزانہ کی بنیاد پر اوپر جا رہا تھا تو مارکیٹ سانس روک کر چل رہی تھی۔ اب روپے کی قدر میں استحکام نے کاروباری ماحول کو اعتماد دیا ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ میں بھی بہتری آئی ہے۔ بین الاقوامی ریٹنگ بہتر ہو تو دنیا سمجھتی ہے کہ یہ ملک اب اپنے وعدے نبھا سکتا ہے‘ یہ مارکیٹ محفوظ ہے۔ یہ اشاریے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے بہت اہم ہو سکتے ہیں‘ لہٰذا یہ اعتماد ملکی معیشت کے لیے ایک بڑا موقع ثابت ہو سکتا ہے۔سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول کے باعث امریکہ نے بھی معدنی سپلائی چینز قائم کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
دنیا بدل رہی ہے‘ جنگیں اب صرف ٹینک اور میزائلوں سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ ریئر ارتھ منرلز‘ لیتھیم‘ کوبالٹ‘ نکل اور تانبے سے بھی جیتی اور ہاری جاتی ہیں۔ یہی وہ خام مال ہے جو الیکٹرک گاڑیوں‘ سیمی کنڈکٹرز‘ بیٹریوں‘ مصنوعی ذہانت اور جدید دفاعی سسٹمز بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ چین کی اس میدان پر دہائیوں سے اجارہ داری ہے۔چین دنیا کے تقریباً 70 فیصد سے زائد ریئر ارتھ پروسیسنگ پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اب امریکہ گھبراہٹ میں متبادل تلاش کر رہا ہے اور اسی تلاش نے اہم امریکی شخصیات کو اسلام آباد کا راستہ دکھایاہے۔ امریکی وفد نے پاکستانی حکام‘ خصوصی طور پر وزیر خزانہ سے ملاقات کی ہے تاکہ امریکی صنعتی شعبے کیلئے محفوظ اور شفاف معدنی سپلائی چینز کے امکانات پر بات کی جا سکے۔ اس وفد کی قیادت رابرٹ لوئس سٹرایئر دوم نے کی‘ جو Critical Minerals Forum (CMF) کے سربراہ ہیں۔ امریکہ منرل سپلائی پر چین کی اجارہ داری کم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں 92 معروف معدنیات دریافت ہو چکی ہیں۔ سالانہ معدنی پیداوار کا تخمینہ تقریباً 68.52 ملین میٹرک ٹن ہے۔ معدنیات کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں محض 3.2 فیصد حصہ ہے حالانکہ وسائل خاصے وسیع ہیں۔ پاکستان کے معدنی وسائل کا تخمینہ تقریباً چھ سے آٹھ ٹریلین ڈالر تک ہے۔ ریکوڈک میں تقریباً 5.9 ارب ٹن تانبے اور سونے کے ذخائر ہیں۔ پاکستان کے پاس وسائل تو ہیں لیکن وسائل ہی سب کچھ نہیں ہوتے۔ امریکی وفد کی آمد ایک امکان پیدا کر سکتی ہے مگر اصل کامیابی اُس وقت ہو گی جب حکومتی طریقہ کار میں تبدیلی آئے گی۔ یہ وقت ہے کہ پاکستان نہ صرف معدنیاتی ملک بنے بلکہ معدنیاتی معیشت کا مرکز بھی بنے۔ ماحول کو سازگار بنانے کے لیے مسلسل محنت ناگزیر ہے کیونکہ عملی میدان میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ کے ادارے کی نئی رپورٹ کے مطابق 2025ء کی پہلی ششماہی میں ایف ڈی آئی میں تین فیصد کمی ہوئی ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ ماضی کا تسلسل ابھی جاری ہے۔ایک تشویشناک خبر پاکستان کا سرکاری قرض تاریخی بلند ترین سطح کے قریب پہنچ جانا ہے۔ مالی سال 2025ء میں مجموعی قرضہ 93 کھرب روپے بڑھ کر 848 کھرب ہو گیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے Debt Sustainability Analysis کے مطابق مالی سال 2025ء میں قرض کا بوجھ جی ڈی پی کے لحاظ سے 70.9 فیصد سے بڑھ کر 74.5 فیصد ہوگیا‘ یعنی صرف ایک سال میں 3.6 فیصد کا اضافہ ہوا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ رواں سال اس تناسب کو کم کرکے 70 فیصد تک لایا جائے گا اور 2028ء تک یہ 63.3 فیصد تک آ جائے گا‘ لیکن ماضی کے وعدوں اور عملی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے یہ ہدف حقیقت کم اور خواہش زیادہ معلوم ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved