تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     03-11-2025

داعی کی ذمہ داریاں

بنگلہ دیش کے دورے میں 25 اکتوبر کی شام نبراس سکول کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بعد ڈھاکہ سے راج شاہی کیلئے روانگی ہوئی۔ راج شاہی ایئر پورٹ پر استقبال کیلئے عبدالرحیم بن عبدالرزاق اپنے رفقا کے ساتھ موجود تھے۔ بتایا گیا کہ 7 نومبر تک پروگراموں کا شیڈول تیار کیا گیا ہے اور پہلی اہم کانفرنس کا انعقاد راج شاہی سے دو گھنٹے کے فاصلے پر چاپائی کے علاقے میں کیا گیا ہے۔ ہم 27 اکتوبر کی شام چاپائی پہنچے۔ جلسہ گاہ میں جانے سے قبل پُرتکلف ضیافت کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ اس علاقے میں سارا سال لذیذ آم دستیاب رہتے ہیں۔ جلسہ گاہ میں پہنچے تو پنڈال میں ہزاروں افراد موجود تھے‘ جنہوں نے انتہائی پُرجوش انداز میں استقبال کیا۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ خیالات امڈ رہے تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایمان کا رشتہ کس قدر مستحکم بنایا ہے کہ ہزاروں میل کے فاصلے کے باوجود لوگ کلمہ طیبہ کی نسبت سے ایک دوسرے سے پیار اور محبت کرتے ہیں۔ اس موقع پر مقررین دعوت کے فضائل کے حوالے سے اپنے اپنے انداز میں اپنی معروضات پیش کر رہے تھے۔ ان کے بعد مجھے بھی اپنی گزارشات سامعین کے سامنے رکھنے کا موقع ملا‘ جنہیں کچھ کمی پیشی کے ساتھ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت ایک عظیم فریضہ ہے‘ جسے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام کو سونپا۔ انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اپنے عہد میں لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور صراطِ مستقیم کی دعوت دیتے رہے۔ اس دعوت کے دوران ان کو بہت سی تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو بہت سی ابتلائوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کو اللہ نے اپنے کلام مبارک کا حصہ بنا دیا۔ سورۂ نوح کی آیات: 5 تا 9 میں ارشادِ ربانی ہے: ''(نوح نے) کہا: اے میرے رب! میں نے اپنی قوم کو رات اور دن بلایا۔ پھر وہ میرے بلانے سے اور بھی زیادہ بھاگتے رہے۔ اور بیشک جب کبھی میں نے انہیں بلایا تاکہ تُو انہیں معاف کر دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں رکھ لیں اور انہوں نے اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور ضد کی اور بہت بڑا تکبر کیا۔ پھر میں نے انہیں کھلم کھلا بھی بلایا۔ پھر میں نے انہیں علانیہ بھی کہا اور مخفی طور پر بھی دعوتِ (حق) دی‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی دعوتِ دین کی وجہ سے بہت سی ابتلائوں کا نشانہ بنایا گیا۔ انہیں راہِ حق کی خاطر بستی والوں اور بادشاہِ وقت کی مخالفت مول لینا پڑی‘ یہاں تک کہ آپ کو دعوتِ توحید کی وجہ سے جلتے ہوئے الائو میں ڈال دیا گیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آگ کو ان کیلئے ٹھنڈا فرما دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی دین کی دعوت کی وجہ سے فرعون‘ قارون اور ہامان کی عداوت کا سامنا کرنا پڑا‘ اپنے وطن سے ہجرت کرنا پڑی اور دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی توحید کے ابلاغ کی وجہ سے مختلف آزمائشوں کا نشانہ بننا پڑا۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کی زندگی میں بھی بہت سی ابتلائیں آئیں۔ آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے‘ آپ کو لہو میں نہلایا گیا‘ سخت تکالیف دی گئیں۔ آپﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا‘ اپنے شہر سے ہجرت کرنا پڑی لیکن ان تمام تکالیف کو سہنے کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیبﷺ دین کی دعوت پر پوری طرح کاربند رہے۔ آپﷺ کے رفقا اور جانثار ساتھیوں نے بھی دعوتِ دین کے حوالے سے بے مثال قربانیاں دیں۔ ان کے بعد آئمہ دین اور علمائے حق دین کی دعوت کے فریضے پر کاربند رہے۔ داعی پر دعوتِ دین کے حوالے سے بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ اللہ سے اجر کی امید: داعی پر پہلی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی دعوت کے بدلے لوگوں سے کسی قسم کے اجر کا طلبگار نہ ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الشعراء میں حضرت نوح‘ حضرت ہود‘ حضرت صالح‘ حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کی بات کو ذکر کیا کہ وہ کہا کرتے تھے۔ ''اور میں تم سے اس پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا‘ میری مزدوری تو بس رب العالمین کے ذمہ ہے‘‘۔ چنانچہ جب بھی دعوت کا کام کیا جائے تو اجر کی طلب مخلوق کے بجائے محض اللہ سے ہونی چاہیے۔
2۔ دعوتِ دین کے دوران صبر کرنا: جب انسان اللہ کے دین کی دعوت دے رہا ہو تو اس کو راہ کی تمام درپیش آزمائشوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ العصر میں ایمان اور عمل صالح کے بعد جہاں حق بات کی تلقین کو کامیابی کا معیار قرار دیا وہیں صبرکی تلقین کو بھی کامیابی کا حصہ قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ العصر میں ارشاد فرماتے ہیں: ''زمانہ کی قسم ہے۔ بیشک انسان گھاٹے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے‘‘۔
3۔ حق کو کھل کر بیان کرنا: داعی کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ حق بات کرے‘ حق کو چھپانا یا باطل کی ملاوٹ کرنا یہ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت: 42 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور سچ میں جھوٹ نہ ملائو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپائو حالانکہ تم جانتے ہو‘‘۔
4۔ حق بات پر عمل کرنا: داعی کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ جب حق بات کی تلقین کرے تو اس پر عمل بھی کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی بڑی شدت سے مذمت کی ہے کہ ایسی بات کی تلقین کی جائے جس پر انسان کا اپنا عمل نہ ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الصف کی آیات: 2 تا 3 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو (وہ) جو تم کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک بڑی ناپسند بات ہے (کہ) جو کہو اس کو کرو نہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بے عمل علما کی تشبیہ علمائے یہود سے دی ہے‘ جو کتابیں تو پڑھتے تھے لیکن ان پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الجمعہ کی آیت: 5 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ان لوگوں کی مثال جنہیں تورات اٹھوائی گئی‘ پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (اس) گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں‘‘۔
5۔ دانائی اور حکمت سے دعوت دینا: داعی کو ہمیشہ دعوت کا کام حکمت اور پیار سے کرنا چاہیے۔ اس عمل کے نتائج بہت ہی مثبت نکلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ النحل کی آیت: 125 میں فرماتے ہیں: ''اپنے رب کے راستے کی طرف دانشمندی اور عمدہ نصیحت سے بلا‘ اور ان سے پسندیدہ طریقہ سے بحث کر‘ بیشک تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے‘ اور ہدایت یافتہ کو بھی خوب جانتا ہے‘‘۔
کانفرنس کے مندرجات کو لوگوں نے نہایت توجہ کے ساتھ سنا اور ان کی بھرپور تائید کی۔ راج شاہی پہنچنے کے بعد اگلے دن علم ہواکہ انڈین میڈیا نے اس جلسے کے بارے میں نہایت منفی پروپیگنڈا کیا اور میرے تعلق کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ سیاست‘ سماج اور علم وتحقیق سے تعلق رکھنے والے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میرا علم وتحقیق اور تبلیغ سے تعلق 25 سال سے زیادہ پرانا ہے لیکن پاکستان کی دشمنی میں اندھے ہونے کی وجہ سے بھارت ہر اُس شخص کی مخالفت کرتا ہے جو اسلام اور پاکستان سے وابستگی رکھتا ہے اور اس سلسلے میں دلیل کے بجائے دھونس کا سہارا لیتا ہے۔ اس بڑے اجتماع اور اس میں ہونے والی تقریر کو انڈین میڈیا کے پروپیگنڈے کی وجہ سے بنگلہ دیش میں مزید اہمیت ملی جس کی وجہ سے بعد میں ہونے والے اجتماعات میں عوام نے زیادہ بڑی تعداد میں شرکت کی اور لوگوں میں علم اور دین کے حوالے سے مزید رغبت پیدا ہوئی۔ یوں یہ سفر تبلیغی اور علمی حوالے سے بنگلہ دیش کے علاوہ پاکستان میں بھی اہمیت اختیار کر گیا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو دین پر چلنے اور دوسروں کو دین کی دعوت دینے کی توفیق دے‘ آمین!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved