دنیا کے جمہوری ملکوں اور معاشروں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو وہاں جمہوریت کے تسلسل کی بڑی وجہ جمہوریت کے ثمرات عوام تک پہنچانا ہے۔ ان ملکوں یا معاشروں کے عوام سمجھتے ہیں کہ جمہوریت ہی ان کے مسائل اور مشکلات کے حل کی ضمانت ہے یعنی وہاں جمہوریت اور ان کا جمہوری نظام ڈِلیور کرتے نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ حقیقی جمہوری ملکوں میں پارلیمنٹ کی اپنی اہمیت و حیثیت ہے لیکن بنیادی طور پر وہاں مقامی حکومتیں عوام الناس کے اصل مسائل کا حل پیش کرتی اور بنیادی جمہوریت کی راہ پر عمل پیرا نظر آتی ہیں۔ وہاں مقامی حکومتوں کا نظام ہر حوالے سے بااختیار اور مؤثر ہوتا ہے۔ اس میں تسلسل موجود ہوتا ہے اور کوئی اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتا‘ بلکہ مقامی حکومتوں کے نظام کو وقت کے ساتھ مزید مؤثر بنانے کیلئے اصلاحات کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ مغرب میں پولیس اور ٹریفک کا نظام بھی مقامی حکومتوں کے تابع ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں بھی بلدیاتی ادارے ہی امن و امان اور ٹریفک کا نظام کنٹرول کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے ہمارے ہاں بڑا سیاسی المیہ یہ رہا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور میں اقتدار میں آنے کی صورت میں بلدیاتی نظام کو‘ کہیں مقامی حکومتوں کا نظام اور کہیں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم قرار دیتے ہوئے‘ بااختیار اور مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں‘ اور وہ اپنے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے معاملات اور مفادات میں اس حد تک مست ہو جاتی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات ان کی ترجیح میں شامل نہیں رہتا اور پھر جب الیکشن کمیشن کی طرف سے اس حوالے سے سیاسی جماعتوں پر دباؤ ڈالا جاتا ہے‘ یا عدالت کی طرف سے بلدیاتی اداروں کی آئینی ضرورت کے تحت انتخابی عمل پر عمل درآمد کیلئے احکامات جاری کیے جاتے ہیں تو صوبائی حکومتوں کو چار و ناچار بلدیاتی انتخابات کرانا پڑتے ہیں۔ ماضی میں زیادہ تر بلدیاتی انتخابات الیکشن کمیشن اور عدالت کی مداخلت سے ہی ممکن بن پائے۔
پنجاب میں نئے بلدیاتی ایکٹ کی منظوری کے باوجود بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک معمہ بنا ہوادکھائی دے رہا ہے۔ آٹھ اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے پنجاب میں دسمبر کے آخری ہفتے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پنجاب میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2022ء کے تحت بلدیاتی انتخابات کرا ئے جائیں‘ جس کے بعد پنجاب حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025ء منظور کر لیا اور عندیہ دیا کہ وہ جلد ہی بلدیاتی انتخابات کی طرف عملی پیش رفت کرے گی۔ لیکن اب تک کی صورتحال کے مطابق رواں سال کے اختتام تک پنجاب میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے کا امکان نہیں۔ یہ سلسلہ اگلے سال مارچ‘ اپریل تک جاتا نظر آ رہا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت ضرور ہونی چاہیے۔
گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ دیکھنے میں آئی کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی جس میں آئین پاکستان میں مقامی حکومت کے حوالے سے ایک اضافی باب شامل کرنے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ صوبوں کو بلدیاتی انتخابات کا تسلسل یقینی بنانے کا پابند بنایا جا سکے۔ مذکورہ قرارداد احمد اقبال چودھری اور سید علی حیدر گیلانی کی جانب سے پیش کی گئی تھی جس میں پاکستان میں بلدیاتی نظام خصوصاً مقامی حکومتوں کے تسلسل پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ آئین میں ایک نیا باب مقامی حکومتوں کے عنوان سے شامل کیا جائے تاکہ مقامی حکومتوں کو قومی و صوبائی حکومتوں کی طرح ریاستی ادارے کے طور پر تحفظ حاصل ہو اور وہ صوبائی حکومتوں کے زیر اثر نہ رہیں۔ مذکورہ قرارداد میں زور دیا گیا کہ آرٹیکل 140(اے) میں ایک ترمیم کر دی جائے تاکہ بروقت انتخابات‘ مربوط انتظامی ڈھانچہ‘ مؤثر حکمرانی کا نظام اور ایک مقامی خدماتی لیڈر شپ کو یقینی بنایا جا سکے۔ مذکورہ قرارداد کی متفقہ حمایت کو بلدیاتی اداروں کی اہمیت‘ حیثیت اور خصوصاً بلدیاتی انتخابات کی جانب پیش رفت کے اعتبار سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی طرف سے یہ قرارداد قومی اسمبلی اور سینیٹ کو بھجوا دی گئی ہے.اگرچہ کسی بھی اسمبلی میں پاس ہونے والی قرار داد کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں ہوتی لیکن اسے پارلیمنٹ کی رہنمائی کا ذریعہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پنجاب اسمبلی میں موجود جماعتوں کی اس مشترکہ قرار داد پر پارلیمنٹ کوئی پیش رفت کرتی ہے یا نہیں۔اس سے پتا چل سکے گا کہ سیاسی جماعتوں کی بلدیاتی نظام اور انتخابات کے حوالے سے کمٹمنٹ کتنی ہے۔ اس حوالے سے پہلے بھی ایک قانونی بل ایم کیو ایم کی جانب سے پارلیمنٹ میں موجود ہے جس میں بلدیاتی نظام کو فعال بنانے اور انتخابی عمل کو آئینی تحفظ دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ بھارت میں مرکزی اور ریاستی اسمبلیوں کے ساتھ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو بھی آئینی حیثیت حاصل ہے اس لیے وہاں مقامی حکومتوں کا نظام مستقل بنیادوں پر کام کرتا نظر آ رہا ہے۔ پنجاب اسمبلی سے پاس ہونے والی قرارداد کے بعد گیند اب پارلیمنٹ کی کورٹ میں ہے اور یہ سیاسی قوتوں کیلئے بڑا امتحان ہے کہ وہ اس ضمن میں آگے بڑھیں۔ اگر آئین میں یہ ترمیم ہو جاتی ہے تو ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات کا راستہ روکا نہیں جا سکے گا۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پنجاب اسمبلی نے بلدیاتی انتخابات کے تسلسل کیلئے آئین میں ترمیم کی قرار داد تو منظور کر لی ہے لیکن کیا پنجاب حکومت صوبے میں بلدیاتی انتخابات کروائے گی؟ یقینا اس حوالے سے حلقہ بندی اہم مرحلہ ہے اور اسی بنا پر پنجاب حکومت الیکشن کمیشن سے وقت مانگتی نظر آ رہی ہے۔
دوسری جانب گورننس کے مسائل کی وجہ سے ملک بھر میں نئے صوبوں کی تجویز باقاعدہ تحریک بنتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات اور عوامی سطح پر پیدا شدہ رجحانات اور سلگتے مسائل اس امر کے متقاضی ہیں کہ اب مرکزیت سے نکلتے ہوئے غیر مرکزیت کی طرف بڑھا جائے اور گڈ گورننس کو یقینی بنانے کیلئے انتظامی یونٹس میں اضافہ کیا جائے تاکہ جوابدہی بھی یقینی بنے اور مسائل کا حل بھی ہو۔ یہ تحریک سیاسی جماعتوں میں بھی زور پکڑتی نظر آ رہی ہے۔ اراکین اسمبلی بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگر دنیا میں یہ تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ہے تو ہمارے ہاں اس پر پیش رفت کیوں نہیں ہو رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس راہ میں بڑی رکاوٹ ملک کی سیاسی اشرافیہ اور صوبائی حکومتیں ہیں جو اپنے اختیارات اور مفادات پر زد نہیں آنے دینا چاہتیں‘ جس کی ایک بڑی مثال 18ویں آئینی ترمیم ہے جس میں صوبوں نے وفاق سے تو وسائل میں بڑا حصہ وصول کر لیا لیکن اپنے اختیارات اور وسائل کو نیچے تک نہیں پہنچایا۔ اس ترمیم میں صوبائی فنانس کمیشن کی طرز پر ضلعی فنانس کمیشن کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے‘ لہٰذا اب یہ سیاسی قوتوں کیلئے امتحان ہے کہ وہ اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک تقسیم میں سہولت کار بنتی ہیں یا اختیارات کو اپنی ذات تک مرکوز رکھنے والوں کا سہارا بنتی ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں اور اس کی لیڈر شپ کے پاس کسی بڑے مکالمے کیلئے وقت کم اور غلطی کی گنجائش بالکل نہیں ہے۔ اگر اب بھی مقامی حکومتوں کے نظام اور بروقت بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے صوبائی حکومتوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کیں تو پھر نئے صوبوں کے قیام کی تحریک مزید مضبوط ہو گی۔ خصوصاً گڈ گورننس‘ جو ہمیشہ ایک خواب رہی ہے‘ اسے حقیقت بنانے میں کیلئے اب سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ گڈ گورننس صرف انتظامی فیصلوں میں شفافیت کا نام نہیں بلکہ یہ مہنگائی‘ کرپشن‘ لوٹ مار اور بد انتظامی کے خاتمے اور اس کے سدباب میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گڈ گورننس کا عمل تبھی حقیقت بنے گا جب اختیارات نچلی سطح تک تقسیم ہوں گے اور ذمہ داران کو جوابدہ بنایا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved