جنگوں میں مسلمانوں کے حسنِ سلوک کے واقعات کو پڑھتے اور لکھتے ہوئے فوراً توجہ دنیا کے درندہ صفت لوگوں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے جو خود کو مہذب کہتے ہیں مگر غزہ وفلسطین کے بچے اور خواتین ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں ظلم ودرندگی کے ساتھ شہید کر دیے جاتے ہیں۔ عافیہ صدیقی کا نام ہی ان کے تعارف کیلئے کافی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسلمان آج بھی ان درندوں کے مقابلے پر ہزار درجے بہتر اخلاق کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ غزہ کے جنگی قیدی جو مختلف اوقات میں رہا ہوئے‘ خود ان کی گواہیاں ریکارڈ پر موجود ہیں کہ مجاہدین نے انتہائی بھوک پیاس اور بے بسی کے ماحول میں بھی ان کو آرام پہنچانے کی کوشش کی۔
نرم دمِ گفتگو‘ گرم دمِ جستجو؍ رزم ہو یا بزم ہو‘ پاک دل و پاک باز
نبی اکرمﷺ نے اپنے جن صحابہ کی بہادری کی تعریف کی ہے ان میں حضرت ابودجانہؓ کا نام سرفہرست ہے۔ جب آپﷺ احد کی جنگ کے بعد مدینہ واپس آنے پر حضرت فاطمہؓ کے گھر میں تشریف لائے تو حضرت علیؓ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ آپﷺ نے اپنی تلوار اپنی بیٹی کو دی اور فرمایا: فاطمہ اسے دھو ڈالو۔ اس تلوار سے آج ابودجانہ کے ہاتھوں بہت سے دشمنوں کی گردنیں کاٹی گئیں۔ حضرت علیؓ نے بھی اپنی تلوار حضرت فاطمہؓ کو دی اور کہا: اس خون آلود تلوار کو دھو کر صاف کر دو‘ اس نے آج جنگ میں حق ادا کر دیا ہے۔ اس پر آنحضورﷺ نے پھر فرمایا کہ ابودجانہ کی تلوار نے بھی آج بہت بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے ہیں۔
حضرت ابودجانہؓ نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہر معرکے میں حصہ لیا۔ غزوۂ خندق کے مشکل مرحلوں میں آپ اپنے محاذ پر شدید سردی کے باوجود ڈٹے رہے۔ پھر صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں بھی آپؓ نے پورے جوشِ ایمانی کے ساتھ حصہ لیا۔ یہودِ مدینہ کے خلاف جنگوں غزوۂ بنو قینقاع‘ غزوۂ بنو نضیر‘ غزوۂ بنو قریظہ اور خیبر کے معرکوں میں دشمنانِ اسلام کے مقابلے پر آپ بہادری سے لڑے۔ غزوۂ بنو نضیر میں کامیابی کے بعد نبی اکرمﷺ نے آپ کو ایک انعام سے نوازا جس پر آپ اور آپ کے اہل و عیال ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے۔ یہ انعام بنو نضیر کی زمینوں میں سے ایک زرعی زمین تھی‘ جو بعد میں باغِ ابن خرشہ کے نام سے جانی گئی۔ یہ حضرت ابودجانہؓ اور ان کے خاندان بنی خرشہ کے پاس ایک بہت بڑا خزانہ تھا۔ نبی اکرمﷺ کی حیات میں حضرت ابودجانہؓ نے دل سے عہد کیا تھا کہ کسی بھی معرکے میں پیچھے نہیں رہیں گے۔ چنانچہ اس عہد کو پوری طرح نبھایا۔ فتح مکہ اور اس کے بعد غزوۂ حنین میں بھی وہ ان صحابہ میں شامل تھے جنہوں نے مشکل گھڑیوں میں آگے بڑھ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ جب معرکۂ تبوک کی مشکل منزل آئی تھی تو جن اہل ایمان نے سب سے پہلے اس کی تیاری کی‘ ان میں ابودجانہ کا نام بھی ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر آنحضورﷺ کے ساتھ آپؓ چالیس دن تبوک کے مقام پر مقیم رہے۔ قیصر روم اپنی فوجوں کی کثرت کے باوجود آنحضورﷺ کے رعب سے خوفزدہ ہو کر پہلے ہی وہاں سے بھاگ گیا تھا۔
اس جنگ میں لڑائی کے بغیر اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ایک بڑی قوت پر مدینہ کی اسلامی ریاست کو فتح مبین عطا فرمائی۔ آپﷺ نے پیش گوئی فرما دی تھی کہ قیصر وکسریٰ کا مقدر ہزیمت وموت ہے اور اسلام کی تقدیر میں فتح ونصرت ہے۔ آنحضورﷺ نے حجۃ الوداع کے سفر پر روانہ ہونے سے قبل حضرت ابودجانہؓ کو مدینہ منورہ میں قائم مقام امیر مقرر فرمایا۔ یہ آپؓ پر حضورﷺ کے اعتماد کی مثال ہے۔ حضرت ابو دجانہؓ نے اپنے آقاﷺ کے ساتھ صلح حدیبیہ اور اس کے بعد اگلے سال عمرہ القضا میں شرکت فرمائی تھی۔ آپؓ کی خواہش تھی کہ حج میں بھی حضور اکرمﷺ کی معیت کا شرف حاصل کریں مگر جب دربارِ رسالت سے دوسری ذمہ داری سونپ دی گئی تو آپ حج کے لیے نہ جا سکے۔ (بحوالہ سیرت ابن ہشام القسم الثانی)
اس جنگ سے واپسی اور حجۃ الوداع کے چند مہینوں بعد ہی آپﷺ کا وصال ہو گیا۔ آپﷺ کے وصال سے قبل عرب بھر سے سینکڑوں وفود مدینہ منورہ آتے گئے اور لاکھوں افراد حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ حضرت ابودجانہؓ جب کسی وفد کی آمد کی خبر پاتے تو مسجد نبوی میں حاضر ہو جاتے اور مہمانوں سے گھل مل کر باہمی تعارف کا اہتمام کرتے۔ حضور اکرمﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر اور اس کے علاوہ کئی دیگر نشستوں میں صحابہ کرامؓ کو اشارات دے دیے تھے کہ آپ رفیق اعلیٰ یعنی اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کے پاس جانے والے ہیں۔ دیگر صحابہ کی طرح ابودجانہؓ بھی اس تصور سے دلبرداشتہ اور غمزدہ ہو جاتے تھے۔ آخر وہ لمحہ آن پہنچا۔ آپﷺ کی رحلت کے موقع پر جو صحابہ دیر تک پھوٹ پھوٹ کر روتے رہے ان میں حضرت ابودجانہؓ بھی شامل تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ایمان افروز خطاب کے بعد صحابہ سنبھل گئے تاہم حضرت ابودجانہؓ حضور اکرمﷺ کو یاد کرکے کئی دنوں تک روتے رہے۔
اس پروانۂ شمع نبوت کے دل میں خیال آتا تھا کہ آنحضورﷺ کے دور میں شہادت پا جانے والے صحابہ کتنے خوش قسمت تھے کہ آنحضورﷺ نے ان کے مناقب بیان کیے اور ہم لوگ ابھی انتظار میں ہیں نہیں معلوم کہ کب بلاوا آئے گا۔ اللہ نے یہ طلب صادق اور تمنائے دل پوری کرنے کا فیصلہ فرما دیا۔ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے مقابلے پر خلیفۃ الرسول نے خلافت سنبھالنے کے بعد فوری طور پر فوج روانہ کی۔ اس فوج کے سپہ سالار حضرت خالدؓ بن ولید تھے اور اس میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ شامل تھے۔ ان صحابہ میں حفاظِ قرآن کی تعداد بھی سینکڑوں میں تھی۔ حضرت ابودجانہؓ اس لشکر میں بڑے جوش وجذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔ آپؓ کے دل میں تمنا تھی کہ گستاخِ رسول کو قتل کرکے شہادت پا جائیں اور رسالت مآبﷺ کے سامنے جب پیش ہوں تو آپ کا دل خوش ہو جائے۔
مسیلمہ کذاب نے بڑی فوج جمع کر رکھی تھی اور اپنے قلعے میں بند تھا۔ مسلم لشکر جب وہاں پہنچا تو دشمنوں نے قلعے کے اندر سے تیر اندازی شروع کر دی۔ صاحب الرائے صحابہ نے مشورہ کیا کہ کسی طرح قلعے کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو جائیں۔ قلعے کی دیواریں بہت اونچی تھیں اور تیز اندازوں کے تیر بڑی تیزی کے ساتھ اسلامی فوج کو زخمی کر رہے تھے۔ حضرت ابودجانہؓ نے اس روز بھی سرخ عمامہ سر پر پہن رکھا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ کسی طرح سے مجھے دیوار کے اوپر چڑھا دو‘ میں لڑتا بھڑتا دروازہ کھول دوں گا۔ اسی سکیم کے مطابق آپ کو دیوار پر چڑھایا گیا‘ آپ نے وہاں سے چھلانگ لگائی تو آپ کا پائوں ٹوٹ گیا۔ آپ نے اس کی پروا نہیں کی اور دشمنوں سے لڑتے ہوئے دروازے تک پہنچ گئے۔ عین اسی لمحے ایک دوسرے صحابی حضرت براءؓ بن مالک بھی دیوار کو عبور کرکے وہاں آ پہنچے اور دونوں انصاری صحابہ نے مل کر دروازہ کھول دیا۔ اسی دوران حضرت ابودجانہؓ کی شہادت واقع ہو گئی۔ قلعے کا دروازہ کھل جانے کے بعد مسلم فوج نے یلغار کی اور دشمن کو عبرتناک شکست دینے کے ساتھ جھوٹے مدعی نبوت مسلیمہ کذاب کو بھی اس کے انجام تک پہنچا دیا۔ یوں دفاعِ ختم نبوت میں سچے محب رسول ابودجانہؓ نے دیگر سینکڑوں شہداء کے ساتھ اپنی جان قربان کر دی۔ آپؓ کی تمنا پوری ہو گئی۔ اس جنگ میں حضرت ابودجانہؓ کے بچپن کے دوست حضرت ثابتؓ بن قیس نے کفن کی چادریں زیب تن کر رکھی تھیں او رجسم کو خوشبو لگا لی تھی۔ آپ کو حضور اکرمﷺ نے خوشخبری سنائی تھی کہ آپ سعادت کی زندگی جئیں گے اور جامِ شہادت پئیں گے اور جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ آپؓ نے بھی اس روز شجاعت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور ثابت قدمی سے لڑتے ہوئے وادیٔ شہادت میں اتر گئے۔ اس جنگ میں بڑی تعداد میں دامن رسالت کے ہیرے کام آئے مگر جھوٹے مدعیانِ نبوت کا فتنہ زمین بوس ہو گیا اور ختم نبوت کا علم تا قیامت سربلند ہو گیا۔ (ختم)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved