حضورسب کچھ پہلے ہی آپ کا ہے۔ کس چیز کی کمی ہے کہ مزید قانون سازی کی ضرورت پڑ رہی ہے؟ سیاسی نظام فارم 47 کے تابع‘ مخصوص معیار پر جو پورا اترے مختلف حکومتوں میں ان کی بھرتی ہو گئی۔ حکومتوں اور پارلیمان کی فرمانبرداری میں کوئی کمی محسوس ہو رہی ہے؟ عدلیہ کے ساتھ جو کچھ ہو ا اس کو بھی کیا دہرانا ۔ بے توقیری ایک بے معنی لفظ ہوکر رہ گیا ہے۔
ستائیسویں آئینی ترمیم‘ جس کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور جس کے لیے امداد پیپلز پارٹی سے مانگی جا رہی ہے‘ اس کی ضرورت کیا ہے؟ کون سا امر مانع ہے کہ دل میں کوئی خلش پیدا ہو اور مداوا نہ ہو۔ اختیارات کا ایسا ارتکاز تو کبھی نہ دیکھا تھا‘ جو مرضی مزاجِ یار میں آئے وہ ہو رہا ہے۔ ارادہ ظاہر کرنے کی دیر ہوتی ہے اور اشاروں پہ کام ہو جاتا ہے۔ کہیں پڑھ رہا تھا کہ مجوزہ ترمیم کا اصل ہدف آئین کی شق 243 سمیت بعض شقیں ہیں جن میں تبدیلی مقصود ہے۔ پتا نہیں چل سکا کہ ان شقوں میں کون سی نئی چیز ڈالی جا رہی ہے لیکن کچھ لاچاروں کی بھی سن لی جائے کہ اب تو بات اشاروں کنایوں میں بھی قوم نے چھوڑ دی ہے‘ پھر فکر کاہے کی۔ پورے پارلیمانی سیٹ اَپ نے اپنی فرمانبرداری کا ثبوت واضح طور پر سپوتِ ملت جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے وقت مہیا کر دیا تھا۔ خان صاحب کی حکومت تھی‘ اوروہ توسیع کے حق میں تھے۔ کسی ناگہانی طریقے سے مسئلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سپریم کورٹ تک پہنچا تو چیف جسٹس نے فرمایا کہ توسیع کا تو کوئی قانون موجود نہیں‘ خان صاحب کی حکومت کو تو کہنا چاہیے تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی دس سالہ آمریت‘ جنرل یحییٰ خان کی اڑھائی سالہ پیوند کاری‘ جنرل ضیا الحق کا ساڑھے گیارہ سال کا کھلواڑ اور جنرل مشرف کی ساڑھے آٹھ سالہ روشن خیالی کے لیے کس قانون کی ضرورت تھی؟ لیکن خان صاحب کی حکومت نے یہ سوال نہ اٹھایا اور باقاعدہ قانون سازی کی تیاریاں ہو گئیں۔ باجوہ اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ مجوزہ قانون کے لیے محض خان صاحب کی حمایت میسر ہو رہی ہے‘ ان کی خواہش تھی کہ چونکہ مسئلہ اہم ہے تو قانون کے پیچھے سارے سیاسی ریوڑ کی حمایت ہونی چاہیے۔ پیچھے سے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو پارلیمان میں موجود ساری سیاسی پارٹیاں قانون کی حمایت میں کھڑی ہو گئیں۔
سیاسی لوگوں کی نفسیاتی کیفیت کی یہ حالت ہو تو مزید کسی کو انگوٹھا چھاپ بنانے کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟ اس وقت پاکستان کے تمام سیاسی نظام کا بنیادی اصول فرمانبرداری ہے۔ لہٰذا التماس ہے کہ جب ہر طرف مرضی چل رہی ہو تو مزید قانونی اور آئینی ضمانتوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ بہرحال اتنا پھر بھی کہیں گے کہ جو جی میں آئے ایسا ہی ہونا چاہیے ‘ ہم کون ہیں انکار کرنے والے۔یعنی جو ہمارے بس میں ہے وہ حاضر ہے۔ ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ شدت پسند کمبخت ہوش کے ناخن لیں‘ دہشت گردی کا سلسلہ بند کریں‘ اورکسی سے کیا کہہ سکتے ہیں اور کچھ کہیں بھی تو کسی نے ہماری کہاں سننی ہے۔ ان پُرخار راستوں میں ہمارا کچھ نہیں چلتا ‘ یہاں دعا ہی کر سکتے ہیں کہ انہیں کچھ عقل آئے اور خونریزی کا رستہ ترک کر دیں۔ اس سلسلے میں البتہ اتنا خیال ضرور اٹھتا ہے کہ 40 سال سے ہمارے بڑوں نے جو افغان جہاد اور افغان دوستی کا وزن اٹھایا ہوا تھا‘ اب جو اس ساری پالیسی کا جنازہ اٹھ چکا ہے کوئی تو ماضی کے گاڈ فادروں سے سوال جواب کرے کہ عقل کی کون سی لات آپ کو لگی تھی کہ وہاں کے تندور میں چھلانگ لگانا آپ کو اتنا اچھا لگا۔ لیکن ان بڑوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بڑوں سے ایسے سوال کرنا‘ روایت ہی یہاں نہیں بنی۔71 ء کا سانحہ ہو یا نام نہاد افغان جہاد‘ وقت کے گاڈ فاردر جو کرتے رہے وہی ریاستی پالیسی بنی اور حب الوطنی کے پیمانے بھی انہی پالیسیوں کو دیکھ کر تشکیل پاتے رہے۔ یعنی 70 ء کے انتخابات کے نتائج نہ مانے گئے اور عوامی لیگ پر چڑھائی ہوئی تو اس وقت تقاضا وہی ٹھہرا۔ افغانستان کے جھمیلوں میں پاکستانی قوم کو ڈال دیا گیا تو اعلیٰ قومی مفاد اسی کو سمجھا گیا۔ لیکن اب بات جب ترکیہ اور قطر کی سفارتی کوششوں تک جا پہنچی ہے‘ کوئی تو پوچھے کہ اکابرینِ ملت چالیس سال تک جو جھک افغانستان میں مارتے رہے اس کا جواز کیا تھا؟ لیکن جیسے عرض کیا‘ کون پوچھے ایسے سوال اور کس نے یہاں جواب دینا ہے۔
ہاں‘ کوئی غلطی یا کوتاہی کسی مقبولِ عام عوامی رہنما سے ہو جائے تب سوال جواب کا طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور معافی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھٹو کو راستے سے ہٹانا ضروری تھا اس لیے نہیں کہ کسی کا انہوں نے قتل کرایا تھا بلکہ اس لیے کہ وہ سیاسی خطرہ بن گئے تھے۔ مقدمے میں جو ہیرپھیر ہو سکتا تھا وہ کیا گیا کیونکہ فیصلہ بھٹو کے خلاف لانا ضروری تھا۔ ہماری عدلیہ کو بھی دیکھیں‘ پینتالیس سال بعد فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ مقدمہ ٹھیک طریقے سے نہیں چلایا گیا تھا۔ بنیادی نکتہ قوم کے سامنے ہے‘ذوالفقار علی بھٹو جیسے شخص کے لیے کوئی معافی نہیں اور جنہوں نے طالبان کو ایک طاقت کے طور پر کھڑا کیا‘ انہیں دودھ پلایا‘ ان سے کوئی سوال نہیں پوچھا جا سکتا۔ دہرا معیار نہیں کہنا چاہیے‘ بس اتنا کافی ہے کہ یہاں کا دستور یہی ہے۔
وکلا برادری کو داد دینا بنتی ہے۔ عملیت پسندی کے ایسے معیار مرتب کیے جا رہے ہیں کہ ذہن پر زور دینا پڑتا ہے کہ ایک بھولے بسرے زمانے میں کوئی وکلا تحریک بھی اٹھی تھی۔ کیا جوش تھا اور کیا نعرے۔ کہا جاتا تھا کہ آزاد عدلیہ ہو گی تو ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ کئی سرکردہ وکلا سے پوچھا جاتا کہ معاشی مسائل کا کیا حل ہو گا تو فرماتے کہ عدلیہ بحال ہوئی تو معاشی مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ مگرپھر چُوری اور مکھن کی روایت پڑ گئی‘اور قانون کی حکمرانی اور آئینی تقاضے کسی گم گشتہ سکرپٹ کا حصہ لگتے ہیں۔ لہٰذا ہر طرف امن و شانتی ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے مہنگائی نے وہ بھرکس نکالا ہے کہ رات کی ہانڈی کا خیال باقی چیزوں کو بھلا دیتا ہے۔ احتجاج نام کی چیز کا تصور پاکستانی سیاست سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے کشمیریوں نے ایک راز بھانپ لیا ہے کہ جو ضابطے باقی ملک میں کارفرما رہ سکتے ہیں کشمیر کی حساسیت کی وجہ سے وہاں ناممکن ہو جاتے ہیں۔
خطرناک مسئلے دو ہی رہ جاتے ہیں‘ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سے محاذ کچھ زیادہ ہی کھلے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے دل کبھی بوجھل ہو جاتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved