تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     05-11-2025

ایسٹ انڈیا کمپنی او ر مرہٹہ مزاحمت … (2)

رگھو ناتھ راؤ نے پیشوا نارائن کو قتل کرنے کے بعد خود پیشوا بننے کا اعلان کر دیا تھا لیکن مرہٹہ سرداروں نے اسے پیشوا ماننے سے انکار کر دیا اور نارائن راؤ کے نومولود بیٹے سوائی مادھو راؤ کو پیشوا بنانے کا اعلان کر دیا۔ نانا فر نویس کی سربراہی میں مرہٹوں کی ایک کونسل تشکیل دی گئی جس میں نانا فر نویس کے علاوہ گیارہ مرہٹہ سردار تھے جو ریاستی فیصلہ سازی میں شریک ہوتے۔ اس کونسل کو بارہ بھائی کونسل کا نام دیا گیا۔ رگھو ناتھ راؤ کیلئے یہ صورتحال ہرگز قابلِ قبول نہ تھی۔ دوسری طرف نئے پیشوا سوائی مادھو راؤ کو عام لوگوں کی حمایت حاصل تھی اور اس کی پشت پر مرہٹوں کے بارہ ممتاز سردار کھڑے تھے۔ اب رگھو ناتھ راؤ کے شاطرانہ ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے مدد طلب کی جائے اور ان سے کچھ شرائط کے عوض اپنی گدی بچائی جائے۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے مذاکرات شروع کر دیے۔ یہی وہ وقت تھا جس کا ایسٹ انڈیا کمپنی کو انتظار تھا۔ کمپنی نے رگھو ناتھ کو یقین دلایا کہ اس کی حمایت کیلئے 25 ہزار سپاہیوں کی فوج بھیجی جائے گی‘ لیکن اس کے بدلے میں اسے Salsetteاور Basseinکے علاقے ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کرنا ہوں گے‘ اور سورت اور کچھ دیگر علاقوں سے حاصل ہونے والا ریونیو بھی کمپنی کو دینا ہو گا۔ رگھو ناتھ نے یہ شرائط بخوشی قبول کر لیں۔ ان شرائط کو ایک معاہدے کی شکل دی گئی جسے 1775ء کا معاہدہ سورت کہا جاتا ہے۔ معاہدے کی ایک نقل ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنگال کونسل کو بھجوائی گئی جو بمبئی اور مدراس کونسل کی نگران کونسل تھی۔
اب رگھو ناتھ راؤ کو نہ صرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاسی حمایت حاصل تھی بلکہ کمپنی کے پچیس ہزار سپاہی کرنل کیٹنگ (Keating) کی قیادت میں رگھو ناتھ کی فوج کے ہمراہ پیشوا پر حملے کیلئے تیار تھے۔ ادھر مرہٹوں کو خبر ملی کہ رگھو ناتھ راؤ ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجیوں سے مل کر ان پر حملہ کرنے آرہا ہے۔ تو بارہ بھائی کونسل کے باہمی مشورے سے مرہٹہ سردار ہری پنت کی سربراہی میں مرہٹہ فوج مقابلے کیلئے نکلی۔ ہری پنت عسکری داؤ پیچ کا ماہر تھا‘ اس نے فیصلہ کیا کہ روایتی جنگ کے بجائے رگھو ناتھ کی فوج کو سرپرائز دیا جائے۔ علاقے کی جغرافیائی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس نے اپنی فوج کو چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا اور رگھو ناتھ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی مشترکہ فوج پر مختلف مقامات پر حملہ آور ہوا۔ یہ گوریلا جنگ سٹرٹیجی تھی جس کیلئے رگھو ناتھ اور کمپنی کی فوج تیار نہ تھی۔ انہوں نے جنگ کا یہ انداز پہلے نہیں دیکھا تھا۔ رگھو ناتھ اور کمپنی کی مشترکہ فوج کے بیشتر سپاہی اس جنگی پلان کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور انہیں پسپا ہونا پڑا۔ ہری پنت کی فوج مسلسل ان کے تعاقب میں تھی اور انہیں بھاری جانی نقصان پہنچا رہی تھی۔ یہ صورتحال ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے ہرگز خوش آئند نہیں تھی۔ رگھو ناتھ کی حمایت میں فوج بھیج کر اب وہ پچھتا رہے تھے۔ اس ساری صورتحال کا بنگال کونسل بغور جائزہ لے رہی تھی۔ یاد رہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال کونسل کو ایسٹ انڈیا بمبئی اور مدراس کونسلز کی براہ راست نگرانی کے اختیارات حاصل تھے۔ انہی اختیارات کو بروئے کار لارتے ہوئے وارن ہیسٹنگز (Warren Hastings) نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور رگھو ناتھ کے مابین دستخط شدہ سورت معاہدے کو ماننے سے انکار کر دیا اور بنگال کونسل کو ہدایت کی کہ فوری طور پر سوائی مادھو راؤ کے خلاف جنگ بند کرے۔ دوسری طرف ہیسٹنگز نے کرنل اُپٹن (Col Upton) کو اپنے نمائندے کے طور پر مرہٹوں کے پاس بھیجا اور انہیں صلح کی پیشکش کی۔ مرہٹوں نے جنگ بندی کیلئے اپنی شرائط پیش کیں۔ ان میں مرکزی شرط یہ تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی سوائی مادھو راؤ کو پیشوا کے طور پر تسلیم کرے گی۔ یوں ایسٹ انڈیا اور سوائی مادھو راؤ کے مابین 1776ء میں معاہدہ پورندر (Purandar) ہوا جس کے مطابق طے ہوا کہ (1): ایسٹ انڈیا کمپنی سوائی مادھو راؤ کو بطور پیشوا تسلیم کرے گی۔ (2): ایسٹ انڈیا کمپنی مادھو راؤ کے کسی دشمن کا ساتھ نہیں دے گی۔ (3): ایسٹ انڈیا کمپنی مرہٹوں کے مفتوحہ علاقوں کو واپس کر دے گی۔ (4): رگھو ناتھ راؤ اگر اپنی فوج کو ختم کر دے گا تو اسے پچیس ہزار روپے پنشن ملے گی۔
اس معاہدے کے بعد جنگ بندی ہو گئی۔ معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی سوائی مادھو راؤ کے کسی دشمن کا ساتھ نہیں دے گی‘ لیکن معاہدے پر دستخطوں کے بعد بھی ایسٹ انڈیا کمپنی نے درپردہ رگھو ناتھ راؤ سے رابطہ رکھا۔ یہ رابطہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ آنے والے وقتوں میں کبھی اس کی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ رگھو ناتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے ایک ایسا مہرہ تھا جسے ایسٹ انڈیا کمپنی ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ معاہدے کے بعد سوائی مادھو راؤ کی حامی بارہ بھائی کونسل نے فیصلہ کیا کہ ریاست کو عسکری طور پر مزید مضبوط کیا جائے تاکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو آئندہ حملہ کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اس کیلئے فرانس سے رابطہ کیا گیا۔ یاد رہے جس طرح انگلستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں کام کر رہی تھی اسی طرح فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنی بھی اپنے تجارتی مفادات کیلئے ہندوستان میں سرگرم تھی۔ دونوں کمپنیاں ایک دوسرے کی حریف تھیں۔ مرہٹوں نے فرانس سے معاہدہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے‘ اس معاہدے پر 1777ء میں دستخط ہوئے۔ معاہدے کی رو سے طے پایا کہ مرہٹوں کو مدد کیلئے اڑھائی ہزار فرانسیسی سپاہی دیے جائیں گے اور مرہٹہ فوج کے دس ہزار سپاہیوں کو فرانسیسی معیار کی جدید تربیت دی جائے گی۔ ان مراعات کے عوض فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغربی ساحل پر ایک بندرگاہ دینے کا وعدہ کیا گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی تک اس معاہدے کی اطلاعات پہنچیں تو ان کا سخت ردِ عمل سامنے آیا۔ مرہٹوں اور فرنچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا اتحاد ان کے مستقبل کے عزائم کیلئے خطرناک تھا۔ معاہدے کے ردِ عمل کے طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے مرہٹوں پر ایک بڑا حملہ کر دیا۔ مرہٹوں کی طرف سے ان کا نامور سردار شندی مقابلے پر آیا۔ وہ ایک ذہین جرنیل تھا جو عسکری داؤ پیچ سے خوب واقف تھا۔ اس نے انگریزوں کی فوج کو گھیر لیا اور انہیں سخت جانی نقصان پہنچایا۔ انگریزوں کی فوج کو رسد پہنچانے کیلئے خوپولی (Khopoli) میں ایک کیمپ قائم کیا گیا تھا۔ مرہٹوں نے اس کیمپ پر حملہ کرکے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ انگریز کی بھیجی گئی فوج اب پسپا ہوتی ہوئی وڈ گاؤں پہنچی۔ مرہٹے ان کے استقبال کیلئے یہاں بھی موجود تھے۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس صلح کی درخواست کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ جنگ بندی کے ایک معاہدے پر فریقین نے دستخط کیے جس کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی 1775ء کے بعد کے تمام مفتوحہ علاقے مرہٹوں کو واپس کر دے گی۔ یہ مرہٹوں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ انگریز فوج کا ہتھیار ڈالنا ان کیلئے خفت کا باعث تھا۔ وڈ گاؤں کے اس معرکے میں انگریز فوج کے ہمراہ رگھو ناتھ کے سپاہی بھی تھے۔ ہتھیار ڈالنے والوں میں رگھو ناتھ بھی شامل تھا جو پیشوا بننے کیلئے ایسٹ انڈیا کمپنی کیلئے ایک مہرے کے طور پر کام کر رہا تھا۔ مرہٹوں نے رگھو ناتھ کو گرفتار کر لیا اور اس کے سامنے پیشکش رکھی کہ اگر وہ باقی زندگی خاموشی سے گزارنے کا وعدہ کرے تو اسے نہ صرف جان کی امان بلکہ پنشن بھی دی جائے گی۔ رگھوناتھ راؤ نے کہا کہ وہ ایسا کرنے کو تیار ہے لیکن اس کی بھی ایک شرط ہے کہ اس کے بیٹے باجی راؤ کو مرہٹوں کی انتظامیہ میں کوئی عہدہ دیا جائے۔ مرہٹوں نے اس شرط کو مان لیا۔ یوں وڈ گاؤں میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور مرہٹوں کے درمیان 1779ء میں وڈ گاؤں معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بظاہر جنگ بندی ہو گئی لیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا‘ ایسٹ انڈیا کمپنی سازشوں کا ایک جال بُن رہی تھی اور ایک نیا طوفان مرہٹو ں کی طرف بڑھ رہا تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved