تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     05-11-2025

ظہران ممدانی جیتے گا

قوی امکان ہے کہ ظہران ممدانی جیتے گا اور نیو یارک کا میئر بن کر نئی تاریخ رقم کرے گا۔ نیو یارک کی تاریخ میں 34سالہ ممدانی پہلا مسلم اور پوری صدی کا سب سے کم عمر میئر ہو گا۔
پانچ نومبر کی صبح کو‘ جب آپ یہ کالم ملاحظہ کریں گے‘ اس وقت تک ممکن ہے کہ نیو یارک کی میئر شپ کے حتمی انتخابی نتائج منظر عام پر آ چکے ہوں۔ امریکی وقت پاکستان سے 10گھنٹے پیچھے ہے۔ جب پانچ نومبر کو یہاں صبح کے آٹھ بجے ہوں گے‘ اس وقت نیو یارک میں چار نومبر یعنی پولنگ ڈے کو شب کے دس بجے ہوں گے۔ جب یہ کالم چار نومبر بروز منگل‘ شب نو بجے پریس میں گیا‘ اس وقت نیو یارک میں صبح کے 11بجے تھے اور وہاں پولنگ شروع ہو چکی تھی۔ یہ کالم نیو یارک میئر شپ کی اہمیت‘ ظہران ممدانی کی شخصیت اور اس کے بیک گراؤنڈ کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گا۔ نیو یارک سٹی ایک طرح سے ایک ریاست ہی ہے۔ اس کی 51 سٹی کونسلز ہیں۔ اسی طرح نیو یارک سٹی اسمبلی کیلئے بھی 51 ڈسٹرکٹ ہیں‘ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ نیو یارک سٹی کے میئر کے لیے براہِ راست ووٹ دیے جاتے ہیں۔
تین نومبر بروز پیر کوانتخابی سروے نتائج ممدانی کی واضح کامیابی کی نوید سنا رہے تھے۔ ان سرویز کے مطابق ممدانی 43 فیصد ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر تھا‘ سابق گورنر اینڈریو کومو دوسرے نمبر پر اور ریپبلکن یعنی ٹرمپ کا امیدوار کرٹس سلیوا صرف 23 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا۔ نیو یارک امریکہ کا سب سے بڑا شہر اور تجارتی مرکز ہے۔ اسے کھرب پتی یہودی تاجروں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ کمپین کے دوران ممدانی کے ساتھ نیو یارک کے عوامی ووٹروں کا سیلِ رواں ہوتا تھا۔ 90 ہزار رضا کار نوجوان اور مختلف کمیونٹیز کے نمائندے کئی ماہ سے شب و روز ظہران ممدانی کی کامیابی کیلئے ڈور ٹو ڈور‘ سوشل میڈیا پر‘ کارنر میٹنگز میں اور دیگرذرائع ابلاغ کے ذریعے کنونسنگ کر رہے ہیں۔ نیو یارک کے ہزاروں ووٹر اس مسلم امیدوار کو کامیاب کرانے کیلئے خود چل کر جوق در جوق اس کی ریلیوں میں آتے رہے۔ عرب‘ برصغیر اور افریقہ وغیرہ کے مسلمان بھی جوش و خروش سے ممدانی کی انتخابی مہم چلاتے رہے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ ہر مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سفید فام بھی ممدانی کے ووٹر اور سپورٹرز ہیں۔
لبرل سفید فام نوجوان تو آگے آگے تھے۔ میئر سے پہلے ممدانی نیو یارک سٹی اسمبلی کا ممبر تھا۔ نیو یارک کی میئرشپ کیلئے ممدانی کو بھاری تعداد میں نیو یارک کے گوروں اور سیاہ فاموں کی بھاری حمایت کیوں حاصل تھی؟ اس کا سبب ممدانی کا ویلفیئر ایجنڈا ہے۔ وہ نیویارک کے شہریوں کے معاشی و سماجی استحصال کے خلاف ایک نجات دہندہ کے طور پر سامنے آیا تو نیو یارک والوں نے دل و جان سے سمجھا کہ 'میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘۔ ممدانی کے ایجنڈے میں نیو یارک شہر میں فلیٹوں کے کرایوں میں واضح کمی لانا‘ گھروں کے کرایوں کو فریز کرنے کا حکم دینا تاکہ من مانے اضافوں کے کلچر کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ ممدانی نے اگلے دس برس کے دوران دو لاکھ نئے فلیٹ تعمیر کرنے کا قابلِ عمل پلان بھی دیا ہے۔ ان گھروں کا کرایہ کم آمدنی والے لوگوں کیلئے بھی قابلِ برداشت ہو گا۔ ٹرانسپورٹ بھی نیویارک میں بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ممدانی نے بسوں میں فری (نہایت ارزاں) سفر مہیا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ بسیں فاسٹ لین سے گزریں گی تاکہ مسافر کم سے کم وقت میں منزلِ مقصود پر پہنچ سکیں۔
نیویارک میں اکثر خواتین ورکنگ مدرز ہیں‘ ان کیلئے چائلڈ کیئر بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ڈے کیئر سنٹرز بھاری فیس طلب کرتے ہیں۔ ممدانی کا یہ وعدہ بھی ہے کہ چھ ہفتوں کے بچے سے لے کر پانچ سال کے بچے تک کو اس کے والدین کی رہائش کے قریب ترین مرکز میں فری چائلڈ کیئر فراہم کی جائے گی۔ نیو یارک میں مہنگائی بھی بہت زیادہ ہے لہٰذا شہری ملکیت میں چلنے والے گراسری سٹوروں کو مزید وسعت دینے اور نرخ نیچے لانے کا پروگرام بھی دیا گیا ہے۔ کارپوریٹ ٹیکسوں میں معقول اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ممدانی نے سماجی تحفظ کا ایک نیا محکمہ کھولنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ظہران ممدانی نے پہلے روز سے ہی زبردست عوامی حمایت کے ساتھ اپنی انتخابی مہم چلائی ہے۔ میئر نیویارک کے اختیارات چونکہ بڑے وسیع ہوتے ہیں‘ اس لیے ممدانی نے اعلان کر رکھا تھا کہ نیتن یاہو جو ہزاروں اہلِ غزہ‘ جن میں تقریباً 34 ہزار کے قریب بچے اور 250 کے قریب صحافی بھی شامل ہیں‘ کا قاتل ہے اس لیے نسل کشی کے اس مجرم کو نیو یارک ایئر پورٹ پر نہیں اترنے دیا جائے گا۔
پہلے روز سے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ممدانی کی بحیثیت مسلم میئر شدید مخالفت کرتے رہے اور انہیں کمیونسٹ قرار دیتے رہے۔ مگر امریکہ کے نہایت معزز دانشور سینیٹر برنی سینڈرز‘ جو 2007ء سے ریاست ورمونٹ سے مسلسل آزاد سینیٹر منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں‘ انہوں نے ممدانی کی ایک ریلی میں شامل ہو کر پُرجوش خطاب میں ممدانی کی زبردست حمایت کا اعلان کیا۔ اسی طرح ڈیموکریٹ سے تعلق رکھنے والے سابق امریکی صدر براک اوباما نے فون پر ظہران ممدانی کو اپنی اور پارٹی کی بھرپور تائید کی یقین دہانی کرائی۔
ظہران ممدانی کے مسلم والدین کا تعلق انڈیا سے تھا۔ وہ پہلے ہجرت کر کے یوگنڈا گئے‘ جہاں کمپالا میں ظہران پیدا ہوئے۔ سات برس کی عمر میں وہ اپنے والدین کے ساتھ امریکہ آ گئے۔ ان کے والد محمود ممدانی نے پٹسبرگ یونیورسٹی سے گریجوایشن اور ہارورڈ یونیورسٹی سے پولیٹکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی اور اب وہ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں پروفیسر ہیں۔ ان کی والدہ میرا نائر بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ آرٹسٹ ہیں۔ دونوں میاں بیوی نے ظہران کو بہترین ایلیٹ سکولوں میں تعلیم دلائی اور اس کی شاندار تربیت کی۔ ظہران نے افریقن سٹڈیز میں بوڈیو یونیورسٹی امریکہ سے گریجوایشن کی۔ ظہران نے دس گیارہ برس پہلے ایک شامی النسل مسلم امریکن خاتون سے شادی کی۔
نیویارک کے صہیونی آئیڈیالوجی رکھنے والے اخبارات آخری لمحات میں بھی ووٹروں کو بددل کرنے کیلئے ایسا پروپیگنڈا کرتے رہے کہ ظہران ایک نوجوان ہے‘ اس کا زیادہ تجربہ نہیں۔ یہاں کے سرمایہ داروں پر کچھ قدغنیں اور مزید ٹیکس لگیں گے تو وہ نیویارک کے بجائے کہیں اور کا رخ کریں گے۔ یہ محض پروپیگنڈا ہے‘ ظہران کوئی اندھا دھند ٹیکس لگانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کی پالیسیاں غریب نواز اور سفید پوش فرینڈلی ضرور ہیں مگر وہ کارپوریٹ مخالف بھی نہیں۔ وہ اربوں کمانے والوں سے ٹیکس لے کر ان کے ہی نسبتاً غریب اہلِ شہر پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے پہلے میئر لندن صادق خان کے خلاف بھی غم و غصے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی نژاد صادق خان لندن ہی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تیسری بار لندن کے میئر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ اہلِ لندن میں اپنی خدمت کی بنا پر محبوب ہیں۔ لندن کے بھی مسائل کم و بیش وہی تھے جو ہم اوپر نیویارک کے حوالے سے بیان کر آئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ برطانیہ کے سرکاری دورے پر گئے تو میئر صادق خان نے بکنگھم پیلس کی شاہی دعوت کا بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ٹرمپ نے اہلِ غزہ کی نسل کشی کے دوران نیتن یاہو کا ہاتھ روکنے کے بجائے سلامتی کونسل میں تقریباً چھ بار سیز فائر کی قراردادوں کے خلاف ویٹو استعمال کیا تھا۔
بہرکیف کامیابی کی صورت میں ظہران ممدانی کے سامنے بہت سے چیلنجز درپیش ہوں گے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ انتخاب میں کامیاب ہو کر اپنے مشیروں کے ساتھ مل کر حکمت و تدبر کے ساتھ پہاڑ جتنے مسائل حل کرنے میں کامیاب و کامران ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved